نفاذ اردو اور تدریس کے مسائل
کراچی کے چند نوجوانوں نے بھی ایجوکیٹر آف پاکستان کے تحت اردو کے نفاذ کی کوششوں میں ایک اہم قدم اٹھایا۔
نفاذ اردو کے لیے جوکوششیں ہو رہی ہیں، وہ اپنی جگہ لیکن خود ہمارے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے یہ احکامات جاری کرچکے تھے کہ ملک میں فوری طور پر اردوکو نافذ کیا جائے مگر جہاں قانون کا کوئی احترام نہ ہو، وہاں ریٹائرڈ جسٹس کے حکم کوکون مانتا ؟ لہٰذا بہتر سال بعد بھی نفاذ اردو ایک خواب ہی خواب ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے ادارے ذاتی طور پرکوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح پاکستان میں اس کی قومی زبان نافذ ہو جائے۔
کراچی کے چند نوجوانوں نے بھی ایجوکیٹر آف پاکستان کے تحت اردو کے نفاذ کی کوششوں میں ایک اہم قدم اٹھایا۔ کراچی آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں انھوں نے ایک سیمینار یا ورکشاپ منعقد کی جس میں بڑے بڑے اردو داں اور اساتذہ کو مدعو کیا اور اس کے علاوہ اردوکے اساتذہ جو مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے ہیں ان کو بھی انھوں نے دعوت دی ۔ پیغام ملنے کے بعد ہم نے بھی اس میں شمولیت کے لیے رابطہ قائم کیا، تمام مراحل سے گزر کر ہمیں وہاں کا انٹری کارڈ بھی موصول ہوگیا لیکن وہاں پہنچے تو بڑی حیرت ہوئی۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ کراچی کے دوچار اسکولوں کے اساتذہ موجود ہوں گے لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ حیدرآباد ، نواب شاہ اور اندرون سندھ کے علاوہ کراچی کے بھی تمام بڑے اور چھوٹے اسکولوں کے کافی اساتذہ موجود تھے، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی جب کہ مرد ذرا کم ہی تھے۔اس تقریب کا آغاز ہوا تو مختلف ماہرین نے جو ضروری نہیں کہ وہ اردوکے استاد ہوں بلکہ سائنس ، ریاضی کے اساتذہ بھی دراصل تدریس اردو کو نافذ کرنے کے لیے مختلف مراحل اور اقدام پر اپنی طرف سے انھوں نے گفتگوکی اور بتایا، اردو کس طرح پڑھائی جائے ، اردوکو کس طرح سے نافذ کیا جائے، اردو میں بچوں کوکس طرح دلچسپی پیدا کی جائے۔
ورکشاپ دوپہر 12 بجے سے شام چھ بجے تک جاری رہی،گفتگو سن کر اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں کو بغور سن کر بلکہ اس میں بہت سے نوٹ بھی لیے گئے لیکن نتیجے میں ہم ہمارے سامنے صرف یہ بات آئی کہ لوگوں نے اپنی اپنی لیاقت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے اپنے موضوع پر اچھی طرح لوگوں کو سمجھا کر خطاب کیا لیکن اس ورکشاپ کا جو اصل موضوع تھا یعنی اردو وہ واحد قومی زبان ہے جس کے بولنے والوں نے اس کی سب سے زیادہ تحقیرکی ہے ، اس پرکسی نے بھی روشنی نہیں ڈالی ۔
اس کے علاوہ یہ بات واضح ہوسکے کہ آخر اگر اردو نافذ ہوجائے تو تدریس سے اردو یعنی اردو میں تمام مضامین کوکس طرح سے پڑھانے میں ابتک کہ جو آثار نہ ہی جو انگریزی میں پڑھا رہے ہیں، ان کوکیا مشق کرنی چاہیے اورکس طرح سے وہ اردو میں اپنے مضامین کو پڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔
یہ سیمینار یا ورکشاپ دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے حصے کی نظامت نازیہ صاحبہ نے بڑی عمدگی سے کی ۔ پہلے حصے میں تجربہ کار اساتذہ نے اپنے اپنے موضوعات پر تیار شدہ لیکچر پر مشتمل اپنے طالبعلمی اور تدریس کے تجربات کی روشنی میں ملک میں اردوکے ماضی اور حال پرگفتگو کی ۔ یہ خیال بھی پیش کیا گیا ، نفاذ اردو کے لیے سب سے پہلے تدریس اردو پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے کہ اردو بطور زبان پڑھائی جارہی ہے یا بطور مضمون ، اردو کے اساتذہ کے لیے محض اردو میں ماسٹر ڈگری کافی نہیں قرار دی جاسکتی بلکہ اردوکے اساتذہ کا تقرر کرتے ہوئے ڈگری وہ بھی درجہ اول کی بجائے تدریسی صلاحیت کو مدنظر رکھنا چاہیے یہ ضروری نہیں جو اعلیٰ درجے میں کامیاب ہو وہ اچھا استاد بھی ثابت ہوگا۔
اپنا مافی الضمیر دوسروں تک منتقل کرنا عموما بہت پڑھے لکھے افراد کے بھی بس کی بات نہیں ، جب کہ استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اور شاگرد کے درمیان درست ابلاغ ہو۔ پہلے حصے کے دوسرے اہم مقرر فراز احمد نجمی تھے ، جن کا موضوع اردو صوتیات اور تدریس اردو کے مقاصد تھا، انھوں نے اپنے موضوع سے متعلق اردو صوتیات پر بڑی مدلل اور معلوماتی باتیں کی انھوں نے بتایا کہ حرف کی تین صورتیں ہوتی ہیں سب سے پہلے اس کا نام پھر شکل اور پھر آواز لکھتے وقت شکل کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ پڑھتے ہوئے آوازکا اب اس آوازکا درست ادا کرنا ہی درست تلفظ کہلاتا ہے۔ اردو میں جو ہم آواز الفاظ ہیں ان کو اگر درست مخرج کے ساتھ سکھایا جائے تو ان کا صوتی فرق واضح کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال صوتیات پر ان کا کام قابل تعریف تھا جب کہ موضوع کے دوسرے حصے یعنی تدریس اردو کے مقاصد کو وہ زیادہ واضح نہ کرسکے۔
پہلے حصے کے اختتام پر ظہرانہ دیا گیا، اس کے فورا بعد سیمینارکا دوسرا حصہ آغاز ہوا ، دوسرے حصے کے بارے میں بتایا تو یہ گیا تھا کہ ڈسکشن پر مشتمل ہوگا مگر اس حصے میں بھی پہلے سے تیار شدہ سوالات مختلف اساتذہ سے کیے گئے اور انھوں نے ان کے جوابات دیے جب کہ کسی بھی مرحلے پر ان سب کے درمیان کوئی گفتگو یا بحث نہیں ہوئی ۔ دوسرے حصے کی نظامت شمائلہ صاحبہ نے فرمائی اور اس حصے میں طاہر زار، جاوید فرخ ، فراز احمد نجمی ، سلمان بٹ اور حسینہ صاحبہ نے شرکت کی۔
اس حصے کو بحث و مباحثے کی بجائے سوال وجواب کا حصہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ شمائلہ صاحبہ ایک سوال پہلے سے مقررکردہ استاد سے کرتیں اور وہ اس کا جواب دینے کے بجائے لمبا چوڑا لیکچر عنایت فرماتے ہوئے طاہر جاوید جن کا تعلق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے تھا، شمائلہ صاحبہ کے سوال کے جواب میں تقریبا چار پانچ صفحات پر مشتمل پہلے سے تیار شدہ مضمون پڑھ ڈالا، جس میں سوال کا جواب دور دور تک نہ تھا اور ہم سوچتے رہ گئے کہ جب ایسے افراد تدریس کے فوائد بتائیں گے تو نتائج کیا ہوں گے ۔اس کے بعد جامعہ کراچی کے ڈاکٹر شکیل فاروقی سے سوال کیا گیا کہ متاثر کرنے والے اساتذہ اب کہاں گئے ؟
ڈاکٹر شکیل نے سوال کے مطابق اور بڑے دل نشین انداز میں جواب دیا اور اپنے اسکول کے اردو اور انگریزی اساتذہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ ان کا انداز تدریس کیسا تھا، شخصیت، انداز گفتگو اور طلبہ سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی ، جس کے باعث وہ کس قدر متاثرکرنے والے اساتذہ تھے ۔ ڈاکٹر شکیل کا مدلل جواب اور دلکش اندازگفتگو نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ ان کے بعد فراز احمد نجمی اور سلمان بٹ نے بھی کیے گئے سوال کو نظراندازکرتے ہوئے پہلے ہی حصے سے متعلق اپنی تیاری میں بچے ہوئے مواد کو پیش کیا ۔
حسینہ صاحبہ نے بھی اچھا طویل لیکچر دیا اور فرمایا کہ اپنی قومی زبان میں تعلیم دینا ہر صورت بہترنتائج کا ذریعہ ہوتا ہے،کیونکہ بچہ سوچتا اپنی مادری زبان میں ہے اور اس کو دوسری زبان میں اظہار خیال پر مجبورکیا جائے تو بہتر نتائج کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔اس طرح بچہ اپنے خیالات کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کی صلاحیت تک محدود ہو جاتا ہے اور خود کچھ سیکھنے سمجھنے سے دور ہوتا جاتا ہے۔
اس کے بعد ایک دو افراد کے سوالات سن کر جوکئی صفحات پر درج کیے جاسکتے ہیں ، ہم یہ سوچتے ہوئے اٹھ گئے کہ جواب سے بڑھ کر سوال کرنے کا سلیقہ آنا ضروری ہے ،کیونکہ ہمارے ذرایع ابلاغ پر بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ ٹی وی اینکر حضرات سوال کے بجائے پورا لیکچر دے ڈالتے ہیں، جب کہ جواب کو درمیان سے کاٹ دیا جاتا ہے۔
کراچی کے چند نوجوانوں نے بھی ایجوکیٹر آف پاکستان کے تحت اردو کے نفاذ کی کوششوں میں ایک اہم قدم اٹھایا۔ کراچی آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں انھوں نے ایک سیمینار یا ورکشاپ منعقد کی جس میں بڑے بڑے اردو داں اور اساتذہ کو مدعو کیا اور اس کے علاوہ اردوکے اساتذہ جو مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے ہیں ان کو بھی انھوں نے دعوت دی ۔ پیغام ملنے کے بعد ہم نے بھی اس میں شمولیت کے لیے رابطہ قائم کیا، تمام مراحل سے گزر کر ہمیں وہاں کا انٹری کارڈ بھی موصول ہوگیا لیکن وہاں پہنچے تو بڑی حیرت ہوئی۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ کراچی کے دوچار اسکولوں کے اساتذہ موجود ہوں گے لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ حیدرآباد ، نواب شاہ اور اندرون سندھ کے علاوہ کراچی کے بھی تمام بڑے اور چھوٹے اسکولوں کے کافی اساتذہ موجود تھے، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی جب کہ مرد ذرا کم ہی تھے۔اس تقریب کا آغاز ہوا تو مختلف ماہرین نے جو ضروری نہیں کہ وہ اردوکے استاد ہوں بلکہ سائنس ، ریاضی کے اساتذہ بھی دراصل تدریس اردو کو نافذ کرنے کے لیے مختلف مراحل اور اقدام پر اپنی طرف سے انھوں نے گفتگوکی اور بتایا، اردو کس طرح پڑھائی جائے ، اردوکو کس طرح سے نافذ کیا جائے، اردو میں بچوں کوکس طرح دلچسپی پیدا کی جائے۔
ورکشاپ دوپہر 12 بجے سے شام چھ بجے تک جاری رہی،گفتگو سن کر اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں کو بغور سن کر بلکہ اس میں بہت سے نوٹ بھی لیے گئے لیکن نتیجے میں ہم ہمارے سامنے صرف یہ بات آئی کہ لوگوں نے اپنی اپنی لیاقت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے اپنے موضوع پر اچھی طرح لوگوں کو سمجھا کر خطاب کیا لیکن اس ورکشاپ کا جو اصل موضوع تھا یعنی اردو وہ واحد قومی زبان ہے جس کے بولنے والوں نے اس کی سب سے زیادہ تحقیرکی ہے ، اس پرکسی نے بھی روشنی نہیں ڈالی ۔
اس کے علاوہ یہ بات واضح ہوسکے کہ آخر اگر اردو نافذ ہوجائے تو تدریس سے اردو یعنی اردو میں تمام مضامین کوکس طرح سے پڑھانے میں ابتک کہ جو آثار نہ ہی جو انگریزی میں پڑھا رہے ہیں، ان کوکیا مشق کرنی چاہیے اورکس طرح سے وہ اردو میں اپنے مضامین کو پڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔
یہ سیمینار یا ورکشاپ دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے حصے کی نظامت نازیہ صاحبہ نے بڑی عمدگی سے کی ۔ پہلے حصے میں تجربہ کار اساتذہ نے اپنے اپنے موضوعات پر تیار شدہ لیکچر پر مشتمل اپنے طالبعلمی اور تدریس کے تجربات کی روشنی میں ملک میں اردوکے ماضی اور حال پرگفتگو کی ۔ یہ خیال بھی پیش کیا گیا ، نفاذ اردو کے لیے سب سے پہلے تدریس اردو پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے کہ اردو بطور زبان پڑھائی جارہی ہے یا بطور مضمون ، اردو کے اساتذہ کے لیے محض اردو میں ماسٹر ڈگری کافی نہیں قرار دی جاسکتی بلکہ اردوکے اساتذہ کا تقرر کرتے ہوئے ڈگری وہ بھی درجہ اول کی بجائے تدریسی صلاحیت کو مدنظر رکھنا چاہیے یہ ضروری نہیں جو اعلیٰ درجے میں کامیاب ہو وہ اچھا استاد بھی ثابت ہوگا۔
اپنا مافی الضمیر دوسروں تک منتقل کرنا عموما بہت پڑھے لکھے افراد کے بھی بس کی بات نہیں ، جب کہ استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اور شاگرد کے درمیان درست ابلاغ ہو۔ پہلے حصے کے دوسرے اہم مقرر فراز احمد نجمی تھے ، جن کا موضوع اردو صوتیات اور تدریس اردو کے مقاصد تھا، انھوں نے اپنے موضوع سے متعلق اردو صوتیات پر بڑی مدلل اور معلوماتی باتیں کی انھوں نے بتایا کہ حرف کی تین صورتیں ہوتی ہیں سب سے پہلے اس کا نام پھر شکل اور پھر آواز لکھتے وقت شکل کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ پڑھتے ہوئے آوازکا اب اس آوازکا درست ادا کرنا ہی درست تلفظ کہلاتا ہے۔ اردو میں جو ہم آواز الفاظ ہیں ان کو اگر درست مخرج کے ساتھ سکھایا جائے تو ان کا صوتی فرق واضح کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال صوتیات پر ان کا کام قابل تعریف تھا جب کہ موضوع کے دوسرے حصے یعنی تدریس اردو کے مقاصد کو وہ زیادہ واضح نہ کرسکے۔
پہلے حصے کے اختتام پر ظہرانہ دیا گیا، اس کے فورا بعد سیمینارکا دوسرا حصہ آغاز ہوا ، دوسرے حصے کے بارے میں بتایا تو یہ گیا تھا کہ ڈسکشن پر مشتمل ہوگا مگر اس حصے میں بھی پہلے سے تیار شدہ سوالات مختلف اساتذہ سے کیے گئے اور انھوں نے ان کے جوابات دیے جب کہ کسی بھی مرحلے پر ان سب کے درمیان کوئی گفتگو یا بحث نہیں ہوئی ۔ دوسرے حصے کی نظامت شمائلہ صاحبہ نے فرمائی اور اس حصے میں طاہر زار، جاوید فرخ ، فراز احمد نجمی ، سلمان بٹ اور حسینہ صاحبہ نے شرکت کی۔
اس حصے کو بحث و مباحثے کی بجائے سوال وجواب کا حصہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ شمائلہ صاحبہ ایک سوال پہلے سے مقررکردہ استاد سے کرتیں اور وہ اس کا جواب دینے کے بجائے لمبا چوڑا لیکچر عنایت فرماتے ہوئے طاہر جاوید جن کا تعلق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے تھا، شمائلہ صاحبہ کے سوال کے جواب میں تقریبا چار پانچ صفحات پر مشتمل پہلے سے تیار شدہ مضمون پڑھ ڈالا، جس میں سوال کا جواب دور دور تک نہ تھا اور ہم سوچتے رہ گئے کہ جب ایسے افراد تدریس کے فوائد بتائیں گے تو نتائج کیا ہوں گے ۔اس کے بعد جامعہ کراچی کے ڈاکٹر شکیل فاروقی سے سوال کیا گیا کہ متاثر کرنے والے اساتذہ اب کہاں گئے ؟
ڈاکٹر شکیل نے سوال کے مطابق اور بڑے دل نشین انداز میں جواب دیا اور اپنے اسکول کے اردو اور انگریزی اساتذہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ ان کا انداز تدریس کیسا تھا، شخصیت، انداز گفتگو اور طلبہ سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی ، جس کے باعث وہ کس قدر متاثرکرنے والے اساتذہ تھے ۔ ڈاکٹر شکیل کا مدلل جواب اور دلکش اندازگفتگو نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ ان کے بعد فراز احمد نجمی اور سلمان بٹ نے بھی کیے گئے سوال کو نظراندازکرتے ہوئے پہلے ہی حصے سے متعلق اپنی تیاری میں بچے ہوئے مواد کو پیش کیا ۔
حسینہ صاحبہ نے بھی اچھا طویل لیکچر دیا اور فرمایا کہ اپنی قومی زبان میں تعلیم دینا ہر صورت بہترنتائج کا ذریعہ ہوتا ہے،کیونکہ بچہ سوچتا اپنی مادری زبان میں ہے اور اس کو دوسری زبان میں اظہار خیال پر مجبورکیا جائے تو بہتر نتائج کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔اس طرح بچہ اپنے خیالات کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کی صلاحیت تک محدود ہو جاتا ہے اور خود کچھ سیکھنے سمجھنے سے دور ہوتا جاتا ہے۔
اس کے بعد ایک دو افراد کے سوالات سن کر جوکئی صفحات پر درج کیے جاسکتے ہیں ، ہم یہ سوچتے ہوئے اٹھ گئے کہ جواب سے بڑھ کر سوال کرنے کا سلیقہ آنا ضروری ہے ،کیونکہ ہمارے ذرایع ابلاغ پر بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ ٹی وی اینکر حضرات سوال کے بجائے پورا لیکچر دے ڈالتے ہیں، جب کہ جواب کو درمیان سے کاٹ دیا جاتا ہے۔