بُک شیلف
بُک شیلف
''پاکستانی خواتین: کام یابی کی داستانیں''
مصنف: فریدہ دائود روکاڈیا
مترجم: ندیم سبحان
ناشر: پرنٹیک کوالٹی پرنٹرر، کراچی
صفحات:222
قیمت:995
گھٹن کے شکار معاشروں میں روشن مثالوں کی کھوج ایک اہم فریضہ ہے، خصوصاً اگر تذکرہ خوابوں پر یقین رکھنے والی خواتین کا ہو، تو کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ فرید دائود روکاڈیا کی یہ کتاب کام یاب خواتین کی داستان بیان کرتی ہے۔ امریکا میں مقیم مصنفہ نے کتاب انگریزی میں تحریر کی، جسے ندیم سبحان نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، جو تراجم کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں، اور اِس وقت ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے سے منسلک ہیں۔
کتاب کے ابتدائی حصے میں ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے انتساب اپنی دادی کے نام کرتے ہوئے اُنھیں اپنے تخلیقی عمل کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ ''تعارف'' میں اُنھوں نے کتاب لکھنے کے محرکات بیان کیے ہیں۔
کتاب کو گیارہ شعبوں؛ پہل کار، فن و ثقافت، تجارتی اور کاروباری شعبہ، تعلیم اور تعلیمی ادارے قائم کرنا، فیشن اور آرایش حسن، ادب اور اشاعت، ذرایع ابلاغ اور تفریح، طب، سیاست اور حکم رانی، سماجی کارکن، اور کھیل میں منقسم کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 63 خواتین سے متعلق مضامین ہیں، جو اختصار کے ساتھ اُن کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تمام خواتین کی تصویریں شامل کی گئی ہیں، جو کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں۔
کیا کام یاب خواتین کا یہ انتخاب متوازن ہے؟ یہ فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔ البتہ اِسے ایک سودمند کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ ترجمہ رواں اور سہل ہے، ابلاغی عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ اِس غیرمجلد کتاب کا کاغذ اور طباعت معیاری ہے، البتہ قیمت بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
''نقارہ'' (ناول)
ناول نگار: گنتر گراس
مترجم: باقر نقوی
ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
صفحات:780
قیمت:1200
ناقدین متفق ہیں کہ یہ عہد، ناول کا عہد ہے۔ اور سماجی حقیقت نگاری کو ایک نئے پہلو سے پیش کرنے والے جرمن ادیب، گنتر گر کو اِس عہد میں نمایاں مقام حاصل ہے، جنھوں نے بہ قول اسد محمد خان، اپنے لکھے ہوئے لفظوں اور برتی ہوئی زندگی میں دوئی مٹانے کا ہنر پالیا تھا۔ جرمن ادب کی آب یاری کرنے والے اِس تخلیق کار کو 99ء نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ''دی ٹن ڈرم'' جسے چند تجزیہ کار ایک عجوبہ قرار دیتے ہیں، گنتر گراس کی اہم ترین تخلیق تصور کی جاتی ہے کہ اس کے کردار، موضوع اور اسلوب، سب ہی انوکھے ہیں، خصوصاً اِس کا مرکزی کردار آسکر، جس نے اپنی نشوونما روک لی ہے، جو نقارہ نوازی کے عشق میں مبتلا ہے۔
اس پُرپیچ ناول کو اردو میں ڈھالنے کا فریضہ معروف شاعر، محقق اور مترجم، باقر نقوی نے نبھایا ہے۔ باقر نقوی نوبیل انعام یافتگان پر خاصا کام کر چکے ہیں۔ خصوصاً اُن کی کتابیں ''نوبیل ادبیات'' اور ''نوبیل امن کے سو سال'' کو اردو کے نثری سرمایے میں سودمند اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور لگتا ہے، وہ اِس سودمند سلسلے کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کی مثال ''نقارہ'' کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ مختلف ابواب میں منقسم، اس عجیب و غریب ناول کو انھوں نے پختگی کے ساتھ اردو کے قالب میں منتقل کیا ہے، جو قارئین کو ایک نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے۔
کتاب کے ابتدائی حصے میں مترجم نے اِس ناول کے انتخاب اور ترجمے کے پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ بیک فلیپ پر اسد محمد خان کی رائے درج ہے۔ اندرونی صفحات پر پروفیسر سحر انصاری کے خیالات نظر آتے ہیں۔
گرد پوش کے ساتھ شایع ہونے والی اِس کتاب کا کاغذ عمدہ اور چھپائی معیاری ہے، مگر ایک مسئلہ ہے۔ سرورق ایسا کوئی اشارہ نہیں کرتا کہ یہ گنترگراس کے کسی ناول کا ترجمہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرورق کتاب کی نوعیت کی بابت بالکل خاموش ہے۔ یہ مسئلہ تب سلجھتا ہے، جب بیک فیلپ یا اندرونی صفحات سے رجوع کیا جاتا ہے۔ امید ہی پبلشر کی جانب سے اگلے ایڈیشن میں اس بات کا دھیان رکھا جائے گا۔
What is Ailing Pakistan and the Way Forward
مصنف: سید محمد سلیم
ناشر: درج نہیں
صفحات:127
قیمت:200
یہ کتاب، جس کی آمدنی فلاحی مقاصد کے لیے مختص کی گئی ہے، پاکستان کو درپیش مسائل کے اسباب بیان کرتے ہوئے اُن سے نبردآزما ہونے کے امکانات کی نشان دہی کرتی ہے۔
مصنف نے اپنی تخلیق کو ایک عام آدمی کے مشاہدات، خیالات اور تجاویز قرار دیا ہے۔ ''بیک فلیپ'' پر دیے جانے والے تعارف کے مطابق محمد سلیم، جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے صدر رہ چکے ہیں، '' گراس روٹ لیول'' پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اور یہ کتاب اُن ہی تجربات کا نچوڑ ہے۔ پیش لفظ میں وہ واضح کرتے ہیں کہ اِس کتاب کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں لکھا گیا، بلکہ اِس کا مقصد عوام میں شعور بیدار کرتے ہوئے اُنھیں صحیح طرز زندگی اختیار کرنے کی تحریک دینا ہے۔
ابتدائی باب میں مصنف نے اِس ریاست کو خدا کا تحفہ قرار دیتے ہوئے اِس کے وسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اگلے باب میں اُن عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے، جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اِس دوران مصنف نے طبقاتی اور جاگیردارانہ نظام، قیادت کے فقدان، ناخواندگی، ہمارے جمہوری نظام کے سقم، بدعنوانی اور دیگر مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اگلے صفحات میں وہ عوام کو خودمختار بناتے ہوئے اصلاحات پر مشتمل ایک دس سالہ منصوبہ پیش کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک دیرپا تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
اس مختصر کتاب میں ایک وسیع موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ زبان سادہ اور رواں ہے۔ ابلاغی عمل میں کوئی رکاوٹ جنم نہیں لیتی۔ جہاں سیاسی و سماجی موضوعات پر کتابیں پڑھنے والوں کے لیے اِس میں مواد ہے، وہیں سیاسیات کے طلبا کے لیے بھی یہ مفید ہوگی۔ اپنے خیالات کی رسائی بڑھانے کے لیے اُنھیں اردو میں اس کی اشاعت کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
''پاک و ہند کے 25 منتخب افسانے''
مرتب: سید فرید حسین
ناشر: فرید پبلشرز، کراچی۔
صفحات: 386 ۔قیمت: 499
زیر تبصرہ کتاب برصغیر کے معروف افسانہ نگاروں کے نمایندہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ افسانوی انتخاب شایع کرنے کا سلسلہ گو پرانا ہے، مگر یہ تاحال اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے کہ اِس نوع کی کتابیں آج بھی قارئین، خصوصاً نئے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کام یاب رہتی ہیں۔ جب اِس قسم کا کوئی انتخاب سامنے آتا ہے، تو پڑھنے والے کے ذہن میں پہلا خیال یہی جنم لیتا ہے کہ مرتب کرنے والا شخص انصاف کے تقاضے پورے کر سکا ہوگا یا نہیں۔ اِس نوع کی بیش تر کتابیں شاید اِس کسوٹی پر پوری نہ اترتی ہوں، مگر سید فرید حسین اِس محاذ پر کام یاب نظر آتے ہیں، جنھیں ادبی حلقوں میں کتاب دوست ناشر کے طور شناخت کیا جاتا ہے۔
اِس انتخاب میں ابوالفضل صدیقی، احمد ندیم قاسمی، حیات اﷲ انصاری، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، شوکت صدیقی، عصمت چغتائی اور پریم چند کے دو دو، جب کہ ممتاز مفتی، محمد خالد اختر، کرشن چندر، قاضی عبدالغفار، غلام عباس، رفیق حسین، خواجہ احمد عباس، خدیجہ مستور اور اوپندر ناتھ اشک کا ایک افسانہ شامل کیا گیا ہے۔
جن افسانہ نگاروں کا انتخاب کیا گیا، اُن کی انفرادی شناخت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جو افسانے منتخب کیے گئے، کیا وہ اُن تخلیق کاروں کے نمایندہ افسانے ہیں؟ بیش تر کے معاملے میں تو اِس کا جواب اثبات ہی میں ہے۔ اِس نقطۂ نظر سے یہ کتاب قاری کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتی ہے۔
''اظہار خیال'' کے زیرعنوان فرید حسین نے اِس انتخاب کو مرتب کرنے کا مقصد بیان کیا ہے۔ اقبال خاتون نیازی نے مضمون ''اپنی بات'' میں منتخب افسانہ نگاروں کی بابت اظہار خیال کیا ہے۔ اگر تخلیق کاروں کا، چاہے سے ایک صفحے پر مشتمل، تعارف دے دیا جاتا، تو اور بہتر ہوتا۔
کتاب بڑے سائز کی ہے۔ ''ڈسٹ کور'' کے ساتھ شایع کی گئی ہے، اِس لحاظ سے قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
مصنف: فریدہ دائود روکاڈیا
مترجم: ندیم سبحان
ناشر: پرنٹیک کوالٹی پرنٹرر، کراچی
صفحات:222
قیمت:995
گھٹن کے شکار معاشروں میں روشن مثالوں کی کھوج ایک اہم فریضہ ہے، خصوصاً اگر تذکرہ خوابوں پر یقین رکھنے والی خواتین کا ہو، تو کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ فرید دائود روکاڈیا کی یہ کتاب کام یاب خواتین کی داستان بیان کرتی ہے۔ امریکا میں مقیم مصنفہ نے کتاب انگریزی میں تحریر کی، جسے ندیم سبحان نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، جو تراجم کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں، اور اِس وقت ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے سے منسلک ہیں۔
کتاب کے ابتدائی حصے میں ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے انتساب اپنی دادی کے نام کرتے ہوئے اُنھیں اپنے تخلیقی عمل کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ ''تعارف'' میں اُنھوں نے کتاب لکھنے کے محرکات بیان کیے ہیں۔
کتاب کو گیارہ شعبوں؛ پہل کار، فن و ثقافت، تجارتی اور کاروباری شعبہ، تعلیم اور تعلیمی ادارے قائم کرنا، فیشن اور آرایش حسن، ادب اور اشاعت، ذرایع ابلاغ اور تفریح، طب، سیاست اور حکم رانی، سماجی کارکن، اور کھیل میں منقسم کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 63 خواتین سے متعلق مضامین ہیں، جو اختصار کے ساتھ اُن کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تمام خواتین کی تصویریں شامل کی گئی ہیں، جو کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں۔
کیا کام یاب خواتین کا یہ انتخاب متوازن ہے؟ یہ فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔ البتہ اِسے ایک سودمند کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ ترجمہ رواں اور سہل ہے، ابلاغی عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ اِس غیرمجلد کتاب کا کاغذ اور طباعت معیاری ہے، البتہ قیمت بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
''نقارہ'' (ناول)
ناول نگار: گنتر گراس
مترجم: باقر نقوی
ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
صفحات:780
قیمت:1200
ناقدین متفق ہیں کہ یہ عہد، ناول کا عہد ہے۔ اور سماجی حقیقت نگاری کو ایک نئے پہلو سے پیش کرنے والے جرمن ادیب، گنتر گر کو اِس عہد میں نمایاں مقام حاصل ہے، جنھوں نے بہ قول اسد محمد خان، اپنے لکھے ہوئے لفظوں اور برتی ہوئی زندگی میں دوئی مٹانے کا ہنر پالیا تھا۔ جرمن ادب کی آب یاری کرنے والے اِس تخلیق کار کو 99ء نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ''دی ٹن ڈرم'' جسے چند تجزیہ کار ایک عجوبہ قرار دیتے ہیں، گنتر گراس کی اہم ترین تخلیق تصور کی جاتی ہے کہ اس کے کردار، موضوع اور اسلوب، سب ہی انوکھے ہیں، خصوصاً اِس کا مرکزی کردار آسکر، جس نے اپنی نشوونما روک لی ہے، جو نقارہ نوازی کے عشق میں مبتلا ہے۔
اس پُرپیچ ناول کو اردو میں ڈھالنے کا فریضہ معروف شاعر، محقق اور مترجم، باقر نقوی نے نبھایا ہے۔ باقر نقوی نوبیل انعام یافتگان پر خاصا کام کر چکے ہیں۔ خصوصاً اُن کی کتابیں ''نوبیل ادبیات'' اور ''نوبیل امن کے سو سال'' کو اردو کے نثری سرمایے میں سودمند اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور لگتا ہے، وہ اِس سودمند سلسلے کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کی مثال ''نقارہ'' کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ مختلف ابواب میں منقسم، اس عجیب و غریب ناول کو انھوں نے پختگی کے ساتھ اردو کے قالب میں منتقل کیا ہے، جو قارئین کو ایک نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے۔
کتاب کے ابتدائی حصے میں مترجم نے اِس ناول کے انتخاب اور ترجمے کے پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ بیک فلیپ پر اسد محمد خان کی رائے درج ہے۔ اندرونی صفحات پر پروفیسر سحر انصاری کے خیالات نظر آتے ہیں۔
گرد پوش کے ساتھ شایع ہونے والی اِس کتاب کا کاغذ عمدہ اور چھپائی معیاری ہے، مگر ایک مسئلہ ہے۔ سرورق ایسا کوئی اشارہ نہیں کرتا کہ یہ گنترگراس کے کسی ناول کا ترجمہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرورق کتاب کی نوعیت کی بابت بالکل خاموش ہے۔ یہ مسئلہ تب سلجھتا ہے، جب بیک فیلپ یا اندرونی صفحات سے رجوع کیا جاتا ہے۔ امید ہی پبلشر کی جانب سے اگلے ایڈیشن میں اس بات کا دھیان رکھا جائے گا۔
What is Ailing Pakistan and the Way Forward
مصنف: سید محمد سلیم
ناشر: درج نہیں
صفحات:127
قیمت:200
یہ کتاب، جس کی آمدنی فلاحی مقاصد کے لیے مختص کی گئی ہے، پاکستان کو درپیش مسائل کے اسباب بیان کرتے ہوئے اُن سے نبردآزما ہونے کے امکانات کی نشان دہی کرتی ہے۔
مصنف نے اپنی تخلیق کو ایک عام آدمی کے مشاہدات، خیالات اور تجاویز قرار دیا ہے۔ ''بیک فلیپ'' پر دیے جانے والے تعارف کے مطابق محمد سلیم، جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے صدر رہ چکے ہیں، '' گراس روٹ لیول'' پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اور یہ کتاب اُن ہی تجربات کا نچوڑ ہے۔ پیش لفظ میں وہ واضح کرتے ہیں کہ اِس کتاب کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں لکھا گیا، بلکہ اِس کا مقصد عوام میں شعور بیدار کرتے ہوئے اُنھیں صحیح طرز زندگی اختیار کرنے کی تحریک دینا ہے۔
ابتدائی باب میں مصنف نے اِس ریاست کو خدا کا تحفہ قرار دیتے ہوئے اِس کے وسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اگلے باب میں اُن عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے، جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اِس دوران مصنف نے طبقاتی اور جاگیردارانہ نظام، قیادت کے فقدان، ناخواندگی، ہمارے جمہوری نظام کے سقم، بدعنوانی اور دیگر مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اگلے صفحات میں وہ عوام کو خودمختار بناتے ہوئے اصلاحات پر مشتمل ایک دس سالہ منصوبہ پیش کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک دیرپا تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
اس مختصر کتاب میں ایک وسیع موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ زبان سادہ اور رواں ہے۔ ابلاغی عمل میں کوئی رکاوٹ جنم نہیں لیتی۔ جہاں سیاسی و سماجی موضوعات پر کتابیں پڑھنے والوں کے لیے اِس میں مواد ہے، وہیں سیاسیات کے طلبا کے لیے بھی یہ مفید ہوگی۔ اپنے خیالات کی رسائی بڑھانے کے لیے اُنھیں اردو میں اس کی اشاعت کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
''پاک و ہند کے 25 منتخب افسانے''
مرتب: سید فرید حسین
ناشر: فرید پبلشرز، کراچی۔
صفحات: 386 ۔قیمت: 499
زیر تبصرہ کتاب برصغیر کے معروف افسانہ نگاروں کے نمایندہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ افسانوی انتخاب شایع کرنے کا سلسلہ گو پرانا ہے، مگر یہ تاحال اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے کہ اِس نوع کی کتابیں آج بھی قارئین، خصوصاً نئے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کام یاب رہتی ہیں۔ جب اِس قسم کا کوئی انتخاب سامنے آتا ہے، تو پڑھنے والے کے ذہن میں پہلا خیال یہی جنم لیتا ہے کہ مرتب کرنے والا شخص انصاف کے تقاضے پورے کر سکا ہوگا یا نہیں۔ اِس نوع کی بیش تر کتابیں شاید اِس کسوٹی پر پوری نہ اترتی ہوں، مگر سید فرید حسین اِس محاذ پر کام یاب نظر آتے ہیں، جنھیں ادبی حلقوں میں کتاب دوست ناشر کے طور شناخت کیا جاتا ہے۔
اِس انتخاب میں ابوالفضل صدیقی، احمد ندیم قاسمی، حیات اﷲ انصاری، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، شوکت صدیقی، عصمت چغتائی اور پریم چند کے دو دو، جب کہ ممتاز مفتی، محمد خالد اختر، کرشن چندر، قاضی عبدالغفار، غلام عباس، رفیق حسین، خواجہ احمد عباس، خدیجہ مستور اور اوپندر ناتھ اشک کا ایک افسانہ شامل کیا گیا ہے۔
جن افسانہ نگاروں کا انتخاب کیا گیا، اُن کی انفرادی شناخت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جو افسانے منتخب کیے گئے، کیا وہ اُن تخلیق کاروں کے نمایندہ افسانے ہیں؟ بیش تر کے معاملے میں تو اِس کا جواب اثبات ہی میں ہے۔ اِس نقطۂ نظر سے یہ کتاب قاری کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتی ہے۔
''اظہار خیال'' کے زیرعنوان فرید حسین نے اِس انتخاب کو مرتب کرنے کا مقصد بیان کیا ہے۔ اقبال خاتون نیازی نے مضمون ''اپنی بات'' میں منتخب افسانہ نگاروں کی بابت اظہار خیال کیا ہے۔ اگر تخلیق کاروں کا، چاہے سے ایک صفحے پر مشتمل، تعارف دے دیا جاتا، تو اور بہتر ہوتا۔
کتاب بڑے سائز کی ہے۔ ''ڈسٹ کور'' کے ساتھ شایع کی گئی ہے، اِس لحاظ سے قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے۔