پرسکون نیند کے لیے اندھیرا لازمی

مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں


مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: بھرپور نیند کے لیے گھپ اندھیرے میں سونا چاہیے یا ہلکی سی روشنی ہونی چاہیے؟

اس ایک سوال نے آج پوری دنیا کے طبی اور دیگر شعبوں کے ماہرین کو پریشان کیا ہوا ہے کیوں کہ نیند ٹوٹ جانے کا مرض (APNEA) پوری دنیا میں اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق عالمی آبادی کا 45 فی صد اس عارضے کی لپیٹ میں آ چکا ہے، جس کی گواہی یوں بھی ملتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نیند کی ادویات کی قانونی اور غیر قانونی فروخت کا حجم کھربوں ڈالر میں پہنچ چکا ہے۔گھوڑے بیچ کر سونے کے حوالے سے سیانے لوگوں کا فرمان ہے''جو مزہ رات کی نیند کا ہے وہ دن میں کہاں؟ اگر ہم اس بات کی تہہ میں جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ نیند کے دوران قدرتی یا مصنوعی روشنی ہر گز نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا کیا کیا جائے جب صورت حال کچھ یوں ہو جاتی ہے '' موت کا ایک دن معین ہے ،نیند کیوں رات بھر نہیں آتی''۔

حالیہ دنوں میں ہونے والی ایک جدید طبی تحقیق کے مطابق'' برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی ویژن ،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اوراسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں ہی دراصل ہماری نیند کی خرابی کی اصل وجہ ہیں''۔ جب کہ اس سے قبل نیند نہ آنے کی جو متعدد وجوہات بیان کی گئی تھیں ان میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر نہیں تھامگر آج طبی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ دور حاضر میں اس مرض کے عام ہونے کی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس ( مصنوعی روشنی) خصوصاً اسکرین لائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال ہی ہے۔

نیند کی دواؤں کے عالمی شہرت یافتہ ماہر پروفیسر چارلس زیسلر بھی یہ ہی کہتے ہیں'' مصنوعی روشنیاں ہی دراصل ہماری نیند کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہیں''۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی قدرتی گھڑی Circadian Rhythm اسے دن کے آغاز پر جگاتی ہے اور رات کا اندھیرا پھیلنے پرنیند کی طرف راغب کرتی ہے لیکن مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں موجود اس قدرتی گھڑی کے توازن کو جب بگاڑ دیتی ہیں تو ہمارے سونے اورجاگنے کے قدرتی عمل میں خلل پیدا ہوجاتا ہے''۔



عالمی جریدے نیچرل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کا مقصد مصنوعی روشنی کے استعمال سے لوگوں کے سونے کی عادت پر مرتب ہونے والے مضراثرات سے بچانا،انسانی رویے میں تبدیلی لانا اور تکنیکی طریقوں کی مدد سے اس مسلے کا حل تلاش کرنا تھا ۔ پروفیسر زیسلر اپنی اس تازہ تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا ''جو لوگ ہر رات نیند پوری نہیں کرتے ہیں، ان میں فربہ ہونے، یاسیت، اسٹروک اور دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ نیند کی کمی بچوں میں ارتکاز توجہ کے مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔

مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں نیند کے لیے بننے والے مخصوص ہارمون Melatonin کے اخراج میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں جو انسانی جسم کو سونے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور دوسری طرف اعصابی خلیوں Neurons (پیغام رسانی کا خلیہ) کو فعال بھی بناتے ہیں۔ اس سے جسم چوکنا رہتا ہے کیوں کہ مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں مثلاً ابھی تو دن جیسا سماں ہے لہذا سونے کے عمل کو مزید ٹالا جا سکتا ہے۔

وہ اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ برقی بلب کی روشنی سے کہیں زیادہ کمپیوٹر اوراسمارٹ فونز کی ایل ای ڈی لائٹس سونے کے قدرتی نظام کو متاثر کرتی ہیں جو دماغ میں موجود کیمیکلز پرکیفین کی طرح اثرکرتی ہیں اور رات کو دیرتک جاگنے پر اکساتی رہتی ہیں۔ نیند میں خلل کے کئی دیگر عوامل بھی ہیں جن میں صبح سویرے کام پر جانا، ثقیل غذائیں، مشروبات اور کیفین لینے کی عادت اہم ہیں لیکن جاگنے کی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس کو جب ہم بالکل نظر اندازکر دیتے ہیں جو جسم کی قدرتی گھڑی کو کسی بھی دوا سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

پروفیسر زیسلر کے مطابق 1950 سے 2000 کے عرصے میں ایک عام برطانوی باشندے کی زندگی میں مصنوعی روشنیوں کا استعمال چار گنا زیادہ بڑھا ہے جس کے ساتھ نیند نہ آنے کے مرض کی شکایت بھی عام ہوگئی ہے۔'' ماڈرن دورمیں لوگوں کی مصروفیات کا سلسلہ دن کے بعد رات میں بھی جاری رہتا ہے، بہت سے لوگوں کو رات میں کئی بار ای میل چیک کرنے کی عادت ہوتی ہے تو کچھ لوگ رات میں ٹی وی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس دوران انھیں آدھی رات بیت جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے''۔

اس ضمن میں ایک امریکی تحقیق کچھ یوں کہتی ہے '' 30 فی صد کام کرنے والے امریکی اور 44 فی صد رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد اوسطاً 6 گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں۔ پچاس برس قبل صرف 3 فی صد امریکیوں میں یہ شکایت پائی جاتی تھی، اسی طرح دنیا بھرکے بچوں میں بھی 1 یا 2 گھنٹے نیند کم لینے کا رجحان نظر آرہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے دن کے 24 گھنٹوں میں سونے اور جاگنے کے معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے رات میں دیر سے بستر پر جانا اورصبح سویرے اٹھتے ہی خود کو جگائے رکھنے کے لیے چائے اور کافی پینے کی عادت سے ہماری نیند کا دورانیہ مزید سکڑتا جا رہا ہے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں