سکھر بیراج ایک شاہ کار جو کسی بھی وقت بے کار ہوسکتا ہے
پشتوں کی مرمت اور صفائی کے معاملے میں غفلت زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے
پانی کے بنا انسانی بقاء کسی صورت ممکن نہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کے سبب آنے والے وقتوں میں کرۂ ارض پر بسنے والے پانی کو ترس سکتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی اور دیگر عوامل کے سبب گلیشیئرز پگھلنے کی خطرناک رفتار نے ماہرین اور سائنس دانوں کو نوع انسانی کے مستقبل کے لیے سر جوڑ کر سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں پانی کا ضیاع روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔
پانی محفوظ رکھنے کا سب سے سادہ اور موثر ذریعہ ڈیمز کی تعمیر ہے، جن کی اس وقت ہمارے ملک کو اشد ترین ضرورت ہے۔ دریاؤں کی روانی میں بند باندھ کر پانی کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے بیراج بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
سندھ میں گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج سمیت صرف 3 بیراج ہیں، جن میں برٹش دور حکومت میں تعمیر ہونے والا سکھر بیراج نمایاں مقام رکھتا ہے۔ سکھر بیراج کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں:
تقسیم ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمین سندھ کو سرسبز و شاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیے سکھر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ جس کے لیے سکھر کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس جگہ بیراج تعمیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں اس علاقے میں بے پناہ تباہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریا میں سیلابی کیفیت کے دوران علاقے کو پانی کی سرکشی سے محفوظ رکھنے اور زرخیز زمین کو وافر مقدار میں پانی بہ وقت ضرورت فراہم کرنے کے لیے سکھر بیراج قائم کیا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔
1903 میں دریائے سندھ میں WEIR BUKKUR پر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ مسٹر ڈاؤسن نے پیش کیا۔ 1909 میں لندن میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس میں اس پراجیکٹ کے متعلق تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ بالآخر 9 جون 1923 کو بیراج کی تعمیر کو حتمی شکل دے کر کام کے آغاز کی منظوری دے دی گئی اور یکم جولائی 1923 کو انیسویں صدی کے شاہ کار لینس ڈاؤن برج سے 3 میل دور نئے بیراج کا تعمیراتی کام شروع ہوا، جو 10 سال سے بھی کم مدت میں مکمل ہوگیا۔ 1932 میں مسٹر لائڈجارج نے بیراج کا افتتاح کیا۔
اس 5 ہزار فٹ لمبے بیراج میں 66 دروازے ہیں۔ اسے پیلے پتھروں اور اسٹیل کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ سکھر بیراج سے 10 ملین ایکڑ کا رقبہ اس کی 7 بڑی نہروں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج پاکستان کے نہری نظام کا فخر اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد آب پاشی نظام ہے۔ نومبر 2004 میں بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھایا گیا۔ سکھر بیراج کی دائیں بازو کی سمت سے 3 جب کہ بائیں بازو کی جانب سے 4 نہریں نکلتی ہیں، جو اندرون سندھ سمیت ڈیرہ مراد جمالی کے صحرائی علاقوں کو سیراب کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئی ہیں۔
بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہروں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
سکھر بیراج کے رائیٹ بینک سے نکلنے والی تینوں نہریں 20لاکھ 11ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 250 میل ہے۔ ڈیزائن کے مطابق 18ہزار 960کیوسک پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے نکلنے والی دادو کینال پانچ لاکھ 51ہزار کمانڈ ایریا پر محیط ہے، جس کی لمبائی 132 میل ہے۔ ڈیزائن کے مطابق اس میں 3 ہزار 150کیوسک پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری رائس کینال کا کمانڈ ایریا پانچ لاکھ 20ہزار ہے، جس کی لمبائی 82میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق 10ہزار 658کیوسک پانی جمع ہوسکتا ہے۔ تیسری شمال مغرب کینال کے لیے 9لاکھ 40ہزار کمانڈ ایریا مختص ہے، جس کی لمبائی 36.1 میل ہے جب کہ ڈیزائن کے مطابق 5ہزار 152 کیوسک پانی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ سکھر بیراج کے لیفٹ بینک سے چار نہریں نکلتی ہیں جو کہ 55لاکھ42 ہزار کمانڈ ایریے پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 534.5 میل ہے۔
ڈیزائن کے پیش نظر ان میں 28 ہزار 570 کیوسک پانی بہ آسانی آسکتا ہے۔ پہلی کینال خیرپور ویسٹ ہے، جس کا کمانڈ ایریا 3 لاکھ 22 ہزار اور لمبائی 41.9 میل ہے، جس میں ڈیزائن کے مد نظر ایک ہزار 940 کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ دوسری روہڑی کینال کا کمانڈ ایریا 61 ہزار لمبائی 208 میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق 10ہزار 887 کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ تیسری نارا کینال ہے جس کا کمانڈ ایریا 22 لاکھ40 ہزار ہے اور لمبائی 226 میل ہے، ڈیزائن کے مطابق 13 ہزار 649 کیوسک پانی کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ چوتھی کینال خیرپور ایسٹ کا کمانڈ ایریا 3 لاکھ 70 ہزار ہے جسکی لمبائی 58.5 میل تک محیط ہے، جس میں 2 ہزار 94 کیوسک پانی جمع رہ سکتا ہے۔ اس طرح لیفٹ اور رائٹ بینک سے نکلنے والی ساتوں نہروںکا مجموعی طور پر کمانڈ ایریا 75 لاکھ 52 ہزار ہے، نہروں کی مجموعی لمبائی784.1 میل ہے اور پانی کی گنجائش 47 ہزار 530 کیوسک ہے۔
سکھر سمیت اندرون و بالائی سندھ کے علاقوں میں زراعت کے حوالے سے سکھر بیراج کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاہم انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سکھر بیراج جس توجہ کا مستحق ہے، اس سے محروم رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ بیراج کو محفوظ رکھنے کے بجائے مختلف ادوار میں ایسے اقدامات کیے گئے، جو اس تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک مثال نواز شریف دور میں کراچی سے پنجاب جانے والی شاہ راہ کو بلوچستان سے ملانے کے لیے بنایا جانے والا موٹر وے ہے جسے دریائے سندھ کے اوپر بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ دریا میں کی جانے والی کھدائی اور موٹروے پل کو مضبوط رکھنے کے لیے ڈالی جانے والی بنیادوں سے سکھر بیراج کو کافی نقصان پہنچا ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں بیراج سے پانی گزرنے کی مقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2010 میں آنے والے ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں سکھر بیراج کے ٹوٹنے کے خطرات بھی سر پر منڈلارہے تھے۔ سکھر بیراج اور اس کے نہری نظام کو لاحق خطرات کے پیش نظر برطانیہ نے متعدد بار اپنے ماہرین کو پاکستان بھیج کر بیراج کی حفاظت کے انتظامات کے لیے لائحہ عمل تیار کروایا ہے۔ تاہم عملی طور پر تاحال اقدامات نظر نہیں آئے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سکھر، شکارپور، گھوٹکی، پنوعاقل، کرم پور، غوث پور، ٹھل، تنگوانی، جیکب آباد، خیرپور، نوابشاہ ودیگر اضلاع کے کچے کے علاقوں میں ٹمبر مافیا، محکمۂ آب پاشی اور محکمۂ جنگلات کے بااثر افراد کی جانب سے تیزی سے جنگلات کی کٹائی ایک جانب ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بنی، تو دوسری طرف نہروں اور دریاؤں کے حفاظتی پشتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اگر برصغیر کے نہری نظام پر نظر ڈالی جائے تو انگریزوں کے دورِحکومت میں دریاؤں اور نہروں کے کنارے شیشم سمیت دیگر درخت لگائے جاتے تھے، جس کا مقصد نہروں کی صفائی اور پانی کی طغیانی کوروکنا تھا۔ وفاقی و صوبائی اداروں کی جانب سے لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے تعمیر کردہ سڑکوں کے تعمیر کے دوران بھی ہزاروں درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ریجن میں موسمی تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان عوامل کے وجہ سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سکھر بیراج، جو ایک شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے، کسی بھی وقت بے کار ہوسکتا ہے۔
اب کچھ بات ہوجائے ڈیمز کی۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں زراعت اہم کردار ادا کرتی ہے، جس کے لیے پانی کا ذخیرہ شرط ہے۔ آبی بحران کے شکار پاکستان میں اب سے چھے دہائیوں قبل پہلا ڈیم وارسک بنایا گیا۔ بعد میں منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر کیے گئے۔ تقابلی جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل انتہائی سست تھا۔ مثلاً بھارت کے پاس 1947 میں صرف 300 ڈیمز تھے، اور آج ایک اندازے کے مطابق کم وبیش 4 ہزار تک ڈیمز ہیں۔ ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37 ہزار 367 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی ذخائر کے نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے، تو چین 19ہزار ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ پہلی، امریکا 8 ہزار ایک سو ڈیم کے ساتھ دوسری، جب کہ بھارت کی تیسری پوزیشن ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں فقط 18 ڈیمز ہیں، جس کا سبب حکم رانوں کی غیرسنجیدگی اور بیوروکریسی کی غفلت ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار ضایع ہوجاتی ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوگئی ہے۔ زرخیز زمینیں اپنی حالت زار پر نوحہ کناں ہیں۔ زراعت بدحالی کی جانب بڑھ رہی ہے، مگر ارباب اختیار اس جانب توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے سندھ کے آبادگاروں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔
یوں تو دیگر صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے، مگر سندھ زیادہ بدقسمت معلوم ہوتا ہے۔ سکھر بیراج سے نکلنے والے بہترین نہری نظام کے باوجود یہاں کے کاشت کاروں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس کا ایک سبب سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں کی صفائی کے معاملے میں برتی جانے والی غفلت بھی ہے۔ اِس ضمن میں کاغذائی کارروائی تو مکمل کر لی جاتی ہے، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ نہروں کے مخدوش پشتے کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صفائی نہ ہونے کے باعث نہریں پانی سے زیادہ مٹی، پتھر و دیگر اشیاء سے بھر گئی ہیں۔ کہنے کو تو نہروں سے مٹی نکالنے (بھل صفائی مہم ) کے نام پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے، مگر بعض مقامات پر موجود ریت کے ٹیلے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اس ضمن میں سنجیدگی نہیں برتی جاتی۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر بیراج کی دائیں جانب، لاڑکانہ ڈویژن میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر چاول، چنا، مٹر، سورج مکھی اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی ہیں، جب کہ بائیں جانب گندم، کپاس، گنا، کیلا اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں، مگر ان حصوں میں پانی کی مطلوبہ مقدار نہیں پہنچ پارہی جس کی وجہ سے شدید نقصان کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے کپاس میں سندھ کا حصہ لگ بھگ 32 فی صد ہے۔ لیفٹ بینک پر ہی 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے، جس کے لیے کسان قیامت خیز گرمی میں بیج بوتا ہے، اپنی اولاد کی طرح حفاظت کرتا ہے، مگر جب پانی ہی نہیں ہوگا، تو بیج سے کونپلیں کیسے پھوٹیں گیں؟ اب سندھ کے آباد گار اپنی مدد آپ کے تحت نہروں میں جمع مٹی نکال رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نہری نظام کو بہتر بنانے کے لیے سکھر سمیت ملک بھر میں ''نیشنل پروگرام فار امپورمنٹ آف واٹر مینجمنٹ'' شروع کیا گیا تھا، مگر یہ سودمند منصوبہ کبھی مکمل نہیں ہوسکا۔ سندھ بھر میں 29 ہزار واٹر ورکس تعمیر کیے جانے تھے، تاہم پانچ سال کے دوران صرف 19ہزار واٹر کورس ہی تعمیر ہو سکے، جن سے بیش تر عدم توجہی کے باعث ناکارہ ہوچکے ہیں۔ سابق حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات کے باعث بدولت سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جن کے سنگین نتائج وقت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔
ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ سکھر بیراج جیسے تاریخی ورثے پر توجہ دے کر نہری اور زرعی نظام کو بہتر بنائیں، تاکہ معیشت مستحکم ہو، بے روزگاری کا خاتمہ ہو، اور کاشت کار غیریقینی کی کیفیت سے نکل سکیں۔
ماحولیاتی آلودگی اور دیگر عوامل کے سبب گلیشیئرز پگھلنے کی خطرناک رفتار نے ماہرین اور سائنس دانوں کو نوع انسانی کے مستقبل کے لیے سر جوڑ کر سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں پانی کا ضیاع روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔
پانی محفوظ رکھنے کا سب سے سادہ اور موثر ذریعہ ڈیمز کی تعمیر ہے، جن کی اس وقت ہمارے ملک کو اشد ترین ضرورت ہے۔ دریاؤں کی روانی میں بند باندھ کر پانی کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے بیراج بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
سندھ میں گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج سمیت صرف 3 بیراج ہیں، جن میں برٹش دور حکومت میں تعمیر ہونے والا سکھر بیراج نمایاں مقام رکھتا ہے۔ سکھر بیراج کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں:
تقسیم ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمین سندھ کو سرسبز و شاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیے سکھر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ جس کے لیے سکھر کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس جگہ بیراج تعمیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں اس علاقے میں بے پناہ تباہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریا میں سیلابی کیفیت کے دوران علاقے کو پانی کی سرکشی سے محفوظ رکھنے اور زرخیز زمین کو وافر مقدار میں پانی بہ وقت ضرورت فراہم کرنے کے لیے سکھر بیراج قائم کیا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔
1903 میں دریائے سندھ میں WEIR BUKKUR پر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ مسٹر ڈاؤسن نے پیش کیا۔ 1909 میں لندن میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس میں اس پراجیکٹ کے متعلق تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ بالآخر 9 جون 1923 کو بیراج کی تعمیر کو حتمی شکل دے کر کام کے آغاز کی منظوری دے دی گئی اور یکم جولائی 1923 کو انیسویں صدی کے شاہ کار لینس ڈاؤن برج سے 3 میل دور نئے بیراج کا تعمیراتی کام شروع ہوا، جو 10 سال سے بھی کم مدت میں مکمل ہوگیا۔ 1932 میں مسٹر لائڈجارج نے بیراج کا افتتاح کیا۔
اس 5 ہزار فٹ لمبے بیراج میں 66 دروازے ہیں۔ اسے پیلے پتھروں اور اسٹیل کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ سکھر بیراج سے 10 ملین ایکڑ کا رقبہ اس کی 7 بڑی نہروں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج پاکستان کے نہری نظام کا فخر اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد آب پاشی نظام ہے۔ نومبر 2004 میں بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھایا گیا۔ سکھر بیراج کی دائیں بازو کی سمت سے 3 جب کہ بائیں بازو کی جانب سے 4 نہریں نکلتی ہیں، جو اندرون سندھ سمیت ڈیرہ مراد جمالی کے صحرائی علاقوں کو سیراب کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئی ہیں۔
بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہروں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
سکھر بیراج کے رائیٹ بینک سے نکلنے والی تینوں نہریں 20لاکھ 11ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 250 میل ہے۔ ڈیزائن کے مطابق 18ہزار 960کیوسک پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے نکلنے والی دادو کینال پانچ لاکھ 51ہزار کمانڈ ایریا پر محیط ہے، جس کی لمبائی 132 میل ہے۔ ڈیزائن کے مطابق اس میں 3 ہزار 150کیوسک پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری رائس کینال کا کمانڈ ایریا پانچ لاکھ 20ہزار ہے، جس کی لمبائی 82میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق 10ہزار 658کیوسک پانی جمع ہوسکتا ہے۔ تیسری شمال مغرب کینال کے لیے 9لاکھ 40ہزار کمانڈ ایریا مختص ہے، جس کی لمبائی 36.1 میل ہے جب کہ ڈیزائن کے مطابق 5ہزار 152 کیوسک پانی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ سکھر بیراج کے لیفٹ بینک سے چار نہریں نکلتی ہیں جو کہ 55لاکھ42 ہزار کمانڈ ایریے پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 534.5 میل ہے۔
ڈیزائن کے پیش نظر ان میں 28 ہزار 570 کیوسک پانی بہ آسانی آسکتا ہے۔ پہلی کینال خیرپور ویسٹ ہے، جس کا کمانڈ ایریا 3 لاکھ 22 ہزار اور لمبائی 41.9 میل ہے، جس میں ڈیزائن کے مد نظر ایک ہزار 940 کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ دوسری روہڑی کینال کا کمانڈ ایریا 61 ہزار لمبائی 208 میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق 10ہزار 887 کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ تیسری نارا کینال ہے جس کا کمانڈ ایریا 22 لاکھ40 ہزار ہے اور لمبائی 226 میل ہے، ڈیزائن کے مطابق 13 ہزار 649 کیوسک پانی کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ چوتھی کینال خیرپور ایسٹ کا کمانڈ ایریا 3 لاکھ 70 ہزار ہے جسکی لمبائی 58.5 میل تک محیط ہے، جس میں 2 ہزار 94 کیوسک پانی جمع رہ سکتا ہے۔ اس طرح لیفٹ اور رائٹ بینک سے نکلنے والی ساتوں نہروںکا مجموعی طور پر کمانڈ ایریا 75 لاکھ 52 ہزار ہے، نہروں کی مجموعی لمبائی784.1 میل ہے اور پانی کی گنجائش 47 ہزار 530 کیوسک ہے۔
سکھر سمیت اندرون و بالائی سندھ کے علاقوں میں زراعت کے حوالے سے سکھر بیراج کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاہم انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سکھر بیراج جس توجہ کا مستحق ہے، اس سے محروم رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ بیراج کو محفوظ رکھنے کے بجائے مختلف ادوار میں ایسے اقدامات کیے گئے، جو اس تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک مثال نواز شریف دور میں کراچی سے پنجاب جانے والی شاہ راہ کو بلوچستان سے ملانے کے لیے بنایا جانے والا موٹر وے ہے جسے دریائے سندھ کے اوپر بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ دریا میں کی جانے والی کھدائی اور موٹروے پل کو مضبوط رکھنے کے لیے ڈالی جانے والی بنیادوں سے سکھر بیراج کو کافی نقصان پہنچا ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں بیراج سے پانی گزرنے کی مقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2010 میں آنے والے ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں سکھر بیراج کے ٹوٹنے کے خطرات بھی سر پر منڈلارہے تھے۔ سکھر بیراج اور اس کے نہری نظام کو لاحق خطرات کے پیش نظر برطانیہ نے متعدد بار اپنے ماہرین کو پاکستان بھیج کر بیراج کی حفاظت کے انتظامات کے لیے لائحہ عمل تیار کروایا ہے۔ تاہم عملی طور پر تاحال اقدامات نظر نہیں آئے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سکھر، شکارپور، گھوٹکی، پنوعاقل، کرم پور، غوث پور، ٹھل، تنگوانی، جیکب آباد، خیرپور، نوابشاہ ودیگر اضلاع کے کچے کے علاقوں میں ٹمبر مافیا، محکمۂ آب پاشی اور محکمۂ جنگلات کے بااثر افراد کی جانب سے تیزی سے جنگلات کی کٹائی ایک جانب ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بنی، تو دوسری طرف نہروں اور دریاؤں کے حفاظتی پشتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اگر برصغیر کے نہری نظام پر نظر ڈالی جائے تو انگریزوں کے دورِحکومت میں دریاؤں اور نہروں کے کنارے شیشم سمیت دیگر درخت لگائے جاتے تھے، جس کا مقصد نہروں کی صفائی اور پانی کی طغیانی کوروکنا تھا۔ وفاقی و صوبائی اداروں کی جانب سے لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے تعمیر کردہ سڑکوں کے تعمیر کے دوران بھی ہزاروں درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ریجن میں موسمی تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان عوامل کے وجہ سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سکھر بیراج، جو ایک شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے، کسی بھی وقت بے کار ہوسکتا ہے۔
اب کچھ بات ہوجائے ڈیمز کی۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں زراعت اہم کردار ادا کرتی ہے، جس کے لیے پانی کا ذخیرہ شرط ہے۔ آبی بحران کے شکار پاکستان میں اب سے چھے دہائیوں قبل پہلا ڈیم وارسک بنایا گیا۔ بعد میں منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر کیے گئے۔ تقابلی جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل انتہائی سست تھا۔ مثلاً بھارت کے پاس 1947 میں صرف 300 ڈیمز تھے، اور آج ایک اندازے کے مطابق کم وبیش 4 ہزار تک ڈیمز ہیں۔ ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37 ہزار 367 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی ذخائر کے نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے، تو چین 19ہزار ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ پہلی، امریکا 8 ہزار ایک سو ڈیم کے ساتھ دوسری، جب کہ بھارت کی تیسری پوزیشن ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں فقط 18 ڈیمز ہیں، جس کا سبب حکم رانوں کی غیرسنجیدگی اور بیوروکریسی کی غفلت ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار ضایع ہوجاتی ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوگئی ہے۔ زرخیز زمینیں اپنی حالت زار پر نوحہ کناں ہیں۔ زراعت بدحالی کی جانب بڑھ رہی ہے، مگر ارباب اختیار اس جانب توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے سندھ کے آبادگاروں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔
یوں تو دیگر صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے، مگر سندھ زیادہ بدقسمت معلوم ہوتا ہے۔ سکھر بیراج سے نکلنے والے بہترین نہری نظام کے باوجود یہاں کے کاشت کاروں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس کا ایک سبب سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں کی صفائی کے معاملے میں برتی جانے والی غفلت بھی ہے۔ اِس ضمن میں کاغذائی کارروائی تو مکمل کر لی جاتی ہے، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ نہروں کے مخدوش پشتے کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صفائی نہ ہونے کے باعث نہریں پانی سے زیادہ مٹی، پتھر و دیگر اشیاء سے بھر گئی ہیں۔ کہنے کو تو نہروں سے مٹی نکالنے (بھل صفائی مہم ) کے نام پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے، مگر بعض مقامات پر موجود ریت کے ٹیلے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اس ضمن میں سنجیدگی نہیں برتی جاتی۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر بیراج کی دائیں جانب، لاڑکانہ ڈویژن میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر چاول، چنا، مٹر، سورج مکھی اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی ہیں، جب کہ بائیں جانب گندم، کپاس، گنا، کیلا اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں، مگر ان حصوں میں پانی کی مطلوبہ مقدار نہیں پہنچ پارہی جس کی وجہ سے شدید نقصان کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے کپاس میں سندھ کا حصہ لگ بھگ 32 فی صد ہے۔ لیفٹ بینک پر ہی 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے، جس کے لیے کسان قیامت خیز گرمی میں بیج بوتا ہے، اپنی اولاد کی طرح حفاظت کرتا ہے، مگر جب پانی ہی نہیں ہوگا، تو بیج سے کونپلیں کیسے پھوٹیں گیں؟ اب سندھ کے آباد گار اپنی مدد آپ کے تحت نہروں میں جمع مٹی نکال رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نہری نظام کو بہتر بنانے کے لیے سکھر سمیت ملک بھر میں ''نیشنل پروگرام فار امپورمنٹ آف واٹر مینجمنٹ'' شروع کیا گیا تھا، مگر یہ سودمند منصوبہ کبھی مکمل نہیں ہوسکا۔ سندھ بھر میں 29 ہزار واٹر ورکس تعمیر کیے جانے تھے، تاہم پانچ سال کے دوران صرف 19ہزار واٹر کورس ہی تعمیر ہو سکے، جن سے بیش تر عدم توجہی کے باعث ناکارہ ہوچکے ہیں۔ سابق حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات کے باعث بدولت سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جن کے سنگین نتائج وقت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔
ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ سکھر بیراج جیسے تاریخی ورثے پر توجہ دے کر نہری اور زرعی نظام کو بہتر بنائیں، تاکہ معیشت مستحکم ہو، بے روزگاری کا خاتمہ ہو، اور کاشت کار غیریقینی کی کیفیت سے نکل سکیں۔