دنیا کی شکایات کو دور کرنا چاہیے
خطرے کی بو سونگھ کر ذہن گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے اور معمولی سا اندیشہ انھیں دوبارہ اُڑان بھرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ایک دفعہ سابق صدرپرویز مشرف نے بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے سے ایک عمدہ مثال دی۔ اُن کے خیال میں سرمایہ کار پرندوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈرے ڈرے اور سہمے ہوئے۔ خطرہ محسوس ہونے پر یکدم، سب کے سب اُڑ جاتے ہیں۔ اگر ایک دفعہ اُڑ جائیں توآسانی سے واپس نہیں آتے۔ انھیں واپس لانے کے لیے لاکھ جتن کرنے پڑتے ہیں۔ واپس آئیں بھی تو اکٹھے نہیں آتے۔ ایک ایک کر کے نیچے اُترتے ہیں۔ جو پہلے اُترتا ہے، اُس کے کان غیر معمولی آہٹ پر لگے رہتے ہیں۔
خطرے کی بو سونگھ کر ذہن گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے اور معمولی سا اندیشہ انھیں دوبارہ اُڑان بھرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اگر حالات معمول پر رہیں تو آہستہ آہستہ اُن کا خوف دور ہوتا ہے۔ اُن کو سکون میں دیکھ کر ایک ایک کر کے اُن کے ساتھی بھی نیچے آتے ہیں اور دوبارہ غول بن جاتا ہے۔آئیے اس مثال کو ہم پلوامہ واقعہ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
پلوامہ واقعہ مقبوضہ کشمیر میں ہوتا ہے، یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کے شہری نے کیا جسے بھارتی فوج نے ایک مرتبہ سڑک پر ناک سے لکیریں کھینچنے پر مجبور کیا تھا۔اب چونکہ ذمے داری جیش محمد نے قبول کی ہے ، اس لیے خواہ پاکستان اس میں ملوث ہے یا نہیں لہٰذادنیا پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھے گی۔ دنیا بھر میں پاکستانی حکومت کے عہدیداران جہاں بھی جائیں گے اُن سے سوال ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف آپ کو کلیئر کیوں نہیں کر رہی؟آپ گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف کیوں جا رہے؟
جب ہمارے قائدین کے پاس ان سوالوں کے مناسب جواب نہیں بن پاتے تو دنیا ہمیں شک کی نگاہ کے بجائے یقین کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ پاکستان ''ڈبل گیم'' کر رہا ہے۔ معذرت کے ساتھ یہ وہ باتیں ہیں جو بیرون ملک موجود پاکستانی، غیر پاکستانی اور دیگر حکومتیں ہم سے پوچھتی ہیں اور مگر افسوس ہمارے پاس اس حوالے سے لاجواب ہو جاتے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کو اس حوالے احساس ہوا ہے کہ ان تنظیموں کے حوالے سے کارروائیاں عمل میں لائی جائیں تاکہ ہم بطور قوم آگے بڑھ سکیں۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی فہرست میں شامل کالعدم تنظیموں،افراد کے اثاثہ جات منجمد کرنے کے لیے سلامتی کونسل ایکٹ 1948 کااطلاق کر دیا ہے۔
حکومت کے اس اقدام کوجیسے بھی دیکھا جائے لیکن ایک بات طے ہے کہ سویلین حکومت اور عسکری قیادت ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں اور ایک ہی طریقے سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے ذہن بند ہو جائیں اور جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے ہم اُس سے صرفِ نظر کرنے لگیں۔ ہماری ہمدردیاں کشمیریوں کے ساتھ رہیں گی اور رہنی چاہئیں۔ کسی کر اس بارڈر کارروائی میں ہمیں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور نام نہاد افغان جہاد سے پیدا شدہ نام نہاد مجاہدانہ سرگرمیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری ہمدردیاں تو کشمیریوں سے رہیں گی۔یہ ایک نازک فرق ہے لیکن ہمیں اِسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کشمیر ی مریں گے اور لڑیں گے تو ہماری دھڑکنیں اُن کے ساتھ ہوں گی؛ البتہ جیسے اوپر عرض کیا اُس قسم کی سرگرمیاں ترک ہونی چاہئیں جو دنیا کو موقع دیتی ہیں کہ ہم پہ انگلیاں اٹھائی جائیں۔
بہرکیف حکومت نے ''نئے پاکستان'' کی بنیاد بھی اسی وعدے پر رکھی تھی کہ سبز پاسپورٹ کی عزت میں اضافہ کرنا ہے، تبھی یہاں سرمایہ کار آئیں گے، تبھی یہاں دنیا متوجہ ہوگی اور تب ہی ہماری دنیا پر اپنی شناخت بحال ہوگی، ورنہ فی الحال تو ہمیں کسی بھی ملک کے ویزے کے حصول کے لیے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں او آئی سی اجلاس میں اہمیت نہیں دی گئی۔ ہمیں دولت مشترکہ کے ممالک میں دور رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ اقوام متحدہ جیسے پلیٹ فارم پر عضو غیر ضروری کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ دنیاخالی نعروں سے متاثر نہیں ہوتی بلکہ اُس کے لیے کچھ عمل بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ہمیشہ دنیا کو بے یقینی کی فضا راس نہیں آتی۔ اِس حوالے سے ہم اپنی تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے نو سال، مستقل آئین کی عدم موجودگی میں گزرے۔ نوآموز ہاتھوں میں ایک نوزائیدہ جمہوری نظام جاری رہا۔ مگر اُس وقت تک انگریز کا بنایا ہوا انتظامی ڈھانچہ مضبوط تھا۔ حکومتیں بدلتی رہیں مگر معاشی پالیسیوں کا تسلسل قائم رہا۔
آہستہ آہستہ سرمایہ کاری ہونے لگی۔ پہلے پہل وہ شعبے چنے گئے جن کی مقامی پیداوار سے برآمدات میں کمی آتی۔ مارشل لاء کے پہلے چند سال نئے آئین کے انتظار میں گزرے۔ پھر فوجی حکومت نے جمہوری لبادہ اوڑھ لیا۔ مگر خوش قسمتی سے اِس دوران پاکستانی سول سروس کے انتظامی ڈھانچے پر انحصار جاری تھا۔ معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے سرمایہ کاروں کو اعتماد حاصل رہا۔ معیشت ترقی کر رہی تھی۔ سرمایہ کاری کی شرح صحت مند تھی۔ دنیا ہمیں تسلیم بھی کر رہی تھی اور ہماری الگ شناخت بھی قائم ہوچکی تھی۔ پھر یکایک 1965 کی مختصر جنگ نے اٹھارہ سال کے سفر کا رخ تبدیل کر دیا۔ کاروباری لوگ بزدل ہوتے ہیں۔ کسی قسم کی جنگ، اندرونی خلفشار یا عدم تحفظ کا احساس اُن کے ذہنی اطمینان کو برباد کر دیتا ہے۔
پاکستانی صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں نے جو کچھ کمایا تھا اُسے ہنڈی اور حوالے کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کر دیا۔ 1970 کا سال الیکشن میں گزرا اور 1971 کا خانہ جنگی میں۔ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے ہندوستان سے ایک اور جنگ ہوئی۔ سہمی ہوئی دنیامزید خوفزدہ ہو گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھال کر عوام کا اعتماد تو بحال کیا، مگر صنعت کاروں کا ذہنی سکون تہہ و بالا کر دیا۔ بہت سی صنعتیں قومیائی گئیں، سرمایہ کاروں کے پاسپورٹ ضبط کرلیے گئے۔ نئی صنعت کاری کی حوصلہ افزائی نہ ہوئی۔ بھٹو حکومت نے آخری دو سال میں حد ہی کر دی۔ چاول چھڑنے اور روئی صاف کرنے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے بھی سرکار کے قبضے میں چلے گئے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہ ہوا۔ بھٹو کی قومیائی ہوئی بڑی صنعتوں میں اِکا دُکا اصل مالکان کو واپس کی گئیں۔ اگر اِس دور میں معاشی حالات نہیں بگڑے تو اِس کی ایک وجہ امریکی امداد اور دوسری وجہ بھٹو دور کے بھیجے ہوئے محنت کشوں کی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے بھجوائی گئی رقوم تھیں۔
پھر ضیاء دور ''اسلام'' کی نذر ہوگیا،1990کی سیاسی دہائی، حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے اور سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کے باعث ملکی معیشت میں بہتری نہ لا سکی۔ 1997میں ن لیگ حکومت آئی، انھوں نے بجلی کی کمپنیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ 1998 میں واجپائی کی بس یاترا نے علاقائی امن کی قرارداد پیش کی۔ہو سکتا تھا کہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا، مگر کارگل کی پہاڑیوں نے اِس عمل کو ویٹو کر دیا۔ مشرف نے مارشل لاء لگایا تو حسنِ اتفاق سے ضیاء الحق کے دور کی طرح، ہم ایک بار پھر امریکا کے حلیف بنے۔ اور بقول شاعر
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
لہٰذاپاکستان کے پاس یہ ایک سنہری موقع ہے کہ اسے دنیا میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ایف اے ٹی ایف کا آیندہ اجلاس 2ماہ بعد ہونا ہے، اور پاکستانی تاریخ میں یہ ایسا نادر موقع ہے جب حکومت اور افواج دونوں ایک پیج پر ہیں اور جمہوری حکومت کے فیصلوں کو افواج کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔عمران خان نے کچھ عرصہ قبل یہ کہا تھا کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں، آج ہم اس کا عملی ثبوت بھی دیکھ رہے ہیں۔اس لیے اگر ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں اُن اعتراضات کو بھی دور کرنا ہوگا جو ہم پر پکے داغ کی طرح ثبت ہوچکے ہیں!