پرامن بقائے باہمی اور اسلام

کسی بھی دین، مذہب اور تہذیب کا ابتدائی مرحلہ اس کے سیاسی رویوں کو ظاہرکردیتا ہے۔


[email protected]

خاتم النبین، سید المرسلین، رحمۃ اللعالمینؐ نبی رحمت ہیں ۔ آپؐ کی پوری حیات مقدسہ اور سیرت طیبہ عفو ودرگزر اور مثالی مذہبی رواداری سے عبارت ہے۔ انسانیت کے محسن اعظم، ہادی عالم، رحمت مجسم، حضرت محمدؐ نے غیر مسلم اقوام اور اقلیتوں کے لیے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اور عملی اقدامات تاریخ انسانی کے اس تاریک دور میں روا فرمائے کہ جب لوگ مذہبی آزادی و رواداری سے ناآشنا تھا اور مذہبی آزادی و رواداری کے مفہوم و تصور سے انسانی ذہن خالی تھا۔

کسی بھی دین، مذہب اور تہذیب کا ابتدائی مرحلہ اس کے سیاسی رویوں کو ظاہرکردیتا ہے۔ مسیحی مذہب، مسیحی تہذیب اور مسیحی حکمرانی کے متعلق اسلام کا مکی دور ہمارے لیے مسلمان مسیحی دوستی کی بنیادیں استوارکرتا نظر آتا ہے، جب کہ اسلام دشمن ''کافروں'' سے بقائے باہمی کا سیاسی انداز فکر اسلام کے مکی عہد میں ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔

اس حوالے سے پارہ 30 کی سورۃ الکافرون ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ جب مسلمان اور ان کے مدمقابل کافر قوتیں اپنے اپنے دین اور تہذیبی فکر پر پختگی سے کاربند ہوئیں کہ مسلمان نے اپنا دین نہ چھوڑنے کا راستہ اپنایا، حالانکہ وہ مکے میں کمزور ترین سیاسی و اقتصادی حالت میں تھے۔ دوسری طرف ان کے دشمن کافروں نے بھی اپنے آبائی مذہب کا رویہ چھوڑنے سے انکار کردیا تو حضرت محمدؐ نے سورۃ الکافرون کی آخری آیت میں نازل شدہ ''معاہدہ بقائے باہمی'' کافروں کے سامنے پیش کیا کہ دونوں اپنے اپنے دین اور اپنے اپنے افکار پرکاربند رہ کر ''زندہ رہو اور زندہ رہنے دو'' کے اصول پر متفق ہوجائیں۔ کافروں سے سیاسی معاہدے کرنے کا یہ نادر ترین قرآنی فارمولا دنیا میں امن کا ابتدائی پیغام ہے، جس سے کوئی بھی خطہ زمین پرامن بقائے باہمی کے قالب میں ڈھل سکتا ہے ۔یہ بات ہمیں مسیحی قبائل اور یہودی قبائل کے ساتھ ہونے والا معاہدہ میثاق مدینہ دکھاتا ہے ۔

رسول اکرمؐ کا یہ ذاتی رویہ ہمارے سامنے مسلمان مسیحی تہذیب دوستی کی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ مسلمان یہودی دین کا اور یہودی تہذیب کا دشمن نہیں ہے بلکہ مسلمان یہودی دین کے حاملین سے سیاسی اتحاد بنانے کا قدم اٹھاتا ہے۔ ہم اس مرحلے پر اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ پھر بعدازاں یہ معاہدہ ختم ہوا کہ ہماری نظر میں یہ معاہدہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجود ہے اور موجود رہے گا۔ البتہ یہودی قبائل نے از خود ایک سیاسی معاہدے کے بعد غداری کا کام کیا اور یوں غلطی سے اپنے ہاتھوں اپنے لیے وہ ماحول تخلیق کیا جو غداری کا انجام ہوا کرتا ہے۔

میثاق مدینہ درحقیقت محتاط اور دانشمندانہ اصلاح ہے۔ آپؐ نے قبائل کی بے راہ روی پر کھلم کھلا ضرب نہیں لگائی لیکن اسے ختم کر ڈالا۔ یہ دستاویز آپؐ کی بے نظیر اور فرزانہ سیاست کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسلام ایک عالم گیر دین ہے، اس لیے اس کے پیش نظر صرف اور صرف بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ہے۔ یہ وحدت پر یقین رکھتا ہے اور قبائل اقوام کو محض پہچان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی ثقافت زبان، ادب، آرٹ اور فن تعمیر، نام اور نام رکھنے کے اصولوں، رواجات، روایات، عادات، میلانات کے امتیاز کو تسلیم کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ رواداری پر یقین رکھتا ہے۔

اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب و فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ضمیر اور عبادت کی آزادی کا ضامن ہے۔ سورۃ البقرہ میں جبر یا سختی نہ کرنے کا وہی رواداری کا اصول بیان کر رہی ہے، اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ رواداری وہ نظریہ تھا جس کے باعث مسلمان ملکوں میں اسلامی سیاسی استیلا کے باوجود غیر مسلم ملتیں اپنی انفرادی زندگی اور تمدن و تہذیب کو برقرار رکھ سکیں ۔ عیسائی کلیسا سے ناقوس کی آواز متصلہ مسجد کی اذان کے ساتھ بلند ہوتی تھی۔ ہسپانیہ میں تقریباً آٹھ صدی تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن انھوں نے کبھی دباؤ جبر سے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی کوشش نہ کی۔ ان کی اس حکمت عملی ہی کا نتیجہ تھا کہ جب مسلمانوں کی فوجی طاقت کمزور ہوئی تو غیر مسلم اکثریت نے ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور ان کی عطا کردہ ثقافتی اور مذہبی آزادی کا بالکل پاس نہ کیا۔ وہ تمدن و تہذیب جو مسلمانوں نے وہاں پیدا کیا اور جس کی ضیا پاشیوں سے تمام یورپ بعد میں منور ہوا۔

بین الاقوامی عصبیتوں کو تو چھوڑیے اگر طلوع اسلام کے وقت کی عربی عصبیتوں کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح عدنانی اور قحطانی قبائل کا باہمی تعصب شدید تھا۔ پھر عدنانیوں میں مضر اور ربیعہ کی کشمکش تھی۔ پھر قریش اور غیر قریش کا فرق تھا۔ پھر قریش کے اندر بنو ہاشم اور بنوامیہ کی رقابتیں تھیں۔ اس کے علاوہ شہری اور بدوی کا جھگڑا الگ تھا۔ آج جو نفرت فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان ہے یا ہندوؤں اور کشمیریوں کے درمیان ہے، وہ اس نفرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو قبل از اسلام عرب قبائل کے مابین تھا۔ان حالات میں اسلام کا آغاز ہوا۔ رسول اللہؐ کی تعلیمات تنگ نظریوں اور عصبیتوں کے خلاف ایک دوسری بلندی پر تھی۔ ان کے مطابق عرب و عجم، عدنان و قحطان وغیرہ سب کا ایک ہی خدا ہے۔

سب آدم کی اولاد ہیں اور گورے کالے ہونے یا زبانوں اور وطنوں کا فرق رکھنے سے فطری مساوات میں کوئی فرق نہیں۔ اگر کوئی برتری ہے تو وہ صرف ہر ایک کے ذاتی اعمال و اخلاق کے باعث ہے۔ آپؐ نے فرمایا ''طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے۔'' رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ ''تین باتوں سے خدا خوش ہوتا ہے، ایک تو یہ کہ اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو اور فرقوں میں نہ بٹو۔''آپؐ نے تمام انسانیت کو توحید باری تعالیٰ اور امن و سلامتی کے قیام نیز ظلمت و جہالت کے خاتمے کی بے مثل تعلیمات و اسلامی تہذیب سے روشناس فرمایا اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک مکمل اور ابدی نظام حیات عطا فرمایا ۔

حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قرآنی موتیوں جیسے خوبصورت جملے اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز ہیں، نیز خود بخود انسان کے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب یہ جملے سرورکائناتؐ کی پرتاثیر زبان سے ادا ہوں اور ان کے اسوہ حسنہ سے مترشح ہوں تو وہ ایک لاکھ بیس ہزارکیا، پانچ ارب کو بھی مسخر کرسکتے ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا بن سکتے ہیں۔ ان کا روزمرہ کا معمول بن سکتے ہیں اور یہ دل سوختہ اور اطمینان باختہ دنیا اسلامی تہذیب سے بہرہ مند ہوکر امن و آشتی اور اخوت و مساوات کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ انسان اپنی جہالت و حماقت اور اپنی حرص کی وجہ سے دنیا کو بناتا رہتا ہے، لیکن حضور پاکؐ نہایت تحمل و بردباری اور شفقت و محبت سے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اسے ہر وقت دارالسلام یعنی دارالامن بنانے میں لگے رہتے ہیں۔

آج انسانی تہذیب کے سفر کو شروع ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں اور اسلامی تہذیب کا آغاز ہوئے چودہ سو سال سے زائد ہوچکے ہیں، تاہم آج بھی دنیا انسانیت سے دور اور تہذیب سے ناآشنا دکھائی دیتی ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ سب انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے؟ جس سے دائمی طور پر انسانیت کا دامن داغ دار ہوتا رہے گا؟ بہرحال آج دنیا میں دوبارہ سے زمانہ جاہلیت کی جھلک نظر آرہی ہے، شاید تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، عالم اسلام و امت مسلمہ خود بھی اس طاغوتی نظام کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور فتنہ و فساد کا شکار ہو رہی ہے۔

آج پھر معاشرتی نظام بگڑ رہا ہے، پھر دنیا تباہی و بربادی کی راہ پر گامزن ہو رہی ہے، پھر تخریبی کارروائیاں عروج پر پہنچ رہی ہیں۔ آج پھر بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے، ہمارا اخلاقی معاشرتی و مذہبی نظام بگڑ چکا ہے، آج ہم پھر سے آگ کے دہانے پر کھڑے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ہر قسم کی برائی سرائیت کر چکی ہے۔ ایک تو ہم بحیثیت امت علم و تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی غرض کہ ترقی کے ہر میدان میں سب سے پیچھے ہیں۔ دوم ہمارے معاشرے میں انسانیت آج بھی سسک اور بلک رہی ہے، انسان ہی انسان کو ڈسنے میں لگا ہوا ہے۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہم پر بڑی بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں نہ صرف اپنے لیے جینا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی جینا ہوگا، ہم پر نہ صرف اپنی اصلاح لازم ہے بلکہ پوری دنیا کی اصلاح بھی ہماری ذمے داری ہے کہ بقول قرآن اللہ کا فرمان ہے کہ تم وہ بہترین امت ہو کہ جسے لوگوں کی اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں