مغلوں سے پہلے سماجی حالت
برصغیر بے شمار ایسی آزاد ریاستوں کا مجموعہ تھا جن میں باہمی اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نہ تھی۔
اس امرکا ذکر ضروری ہے 1497 میں جب واسکوڈی گاما راس امید کا چکرکاٹ کر جنوبی ہند کی ''کالی کٹ'' میں لنگر انداز ہوا ۔ اس نے مغربی اقوام کے لیے برصغیر کا نیا بحری راستہ دریافت کرکے مشرقی اقوام کے لیے نئے مسائل پیدا کردیے۔
پرتگیزیوں نے برصغیر کے ساحلی علاقوں میں اپنی بستیاں قائم کرلیں اور انھوں نے مسلمان حاجیوں اور عرب تاجروں کے جہازوں کو لوٹنا شروع کردیا ۔ برصغیرکے معاملات میں مغربی اقوام کی مداخلت باد مخالف سے آنے والے اُس طوفان کا پتا دے رہی تھی، جس نے اس ملک کی تاریخ کا رخ بدل دیا ۔
برصغیر بے شمار ایسی آزاد ریاستوں کا مجموعہ تھا جن میں باہمی اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نہ تھی۔ حالات اس بات کے متمنی تھے کہ کوئی فاتح اپنی خداداد استعداد سے سیاسی انتشار کے اس ملبے سے ایک عظیم مرکزی حکومت کا قصر شکوہ تعمیرکرتا ۔ کارکنان قضا وقدر کی طرف سے یہ سعادت بابر کے حصے میں آئی۔ مسلم معاشرے میں طبقاتی تقسیم بہت نمایاں تھی، سماج کا اعلیٰ طبقہ مسلم امرا پر مشتمل تھا، اس میں ملکی اور غیر ملکی امرا شامل تھے۔ غیر ملکی امرا شروع میں زیادہ تر ترک تھے بعد میں ایرانی امرا کا بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ مسلم سلطنت کی توسیع اور استحکام میں مسلم امرا نے نہایت اہم کردار ادا کیا اس لیے ایوان اقتدار میں انھیں نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ تاہم سلطنت ''دہلی'' کے دور زوال میں غیر ملکی مسلم امرا نے بغاوتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
امرا بڑی بڑی جاگیروں پر قابض تھے، اس جاگیرداری نظام اور امرا کی خود غرضی نے مسلم معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ مسلم عوام زیادہ تر شہروں میں آباد تھیں، ان کا اہم پیشہ سرکاری ملازمت تھا۔ کرتا، شلوار، پگڑی مسلمانوں کا عام لباس تھا، مسلم معاشرہ میں تیزی کے ساتھ ہندو رسومات داخل ہو رہی تھیں۔ پان کا رواج عام ہوچکا تھا اسی طرح مصالحہ جات بھی مقبول ہوچکے تھے۔ ذات پات کی پرچھائیاں بھی مسلم برادریوں پر پڑ رہی تھیں، چوگان، شہسواری، شکار وغیرہ مسلمانوں کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ مذہبی تہواروں کے علاوہ جشن نوروز بھی سرکاری طور پر منایا جاتا تھا۔ شراب اور راگ رنگ بھی عام ہوتے جا رہے تھے، غلامی کا رواج عام تھا، مگر مسلم معاشرے نے غلاموں کو مناسب مقام عطا کیا تھا ان کی تربیت اولاد کی طرح کی جاتی تھی اور استعداد کے مطابق انھیں اعلیٰ ترین منصب پر بھی فائزکیا جاتا تھا۔
بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ زوال پذیر تھا، اس میں پہلے کی سی توانائی باقی نہیں رہی۔ مسلم تصوف میں بھی ہندو اثرات در آنا شروع ہوگئے ، معاشرے کو دوبارہ توانا کرنے کے لیے نئے خون کی ضرورت تھی۔ مغلوں کی آمد نے اس ضرورت کو پورا کیا اسلامی شعار پھیلنا شروع ہوئیں، مسلمانوں میں ہندو رواج ختم ہونا شروع ہوئے۔
جنوبی ایشیا کی دیہی آبادی اب بھی زیادہ تر ہندوؤں پر مشتمل تھی، یہ لوگ مخصوص دائروں میں خودمختار تھے، ان کے باہمی تنازعات اپنے قانون اور رواج کے مطابق طے پاتے۔ ماضی کی طرح پنچایت کا نظام موجود تھا، ملکی تجارت پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ شہروں میں بالخصوص یہ لوگ نہایت خوشحال تھے اور بڑے مکانات و محلات، حویلیوں میں رہتے تھے۔ ملتانی تاجر اور گجراتی بنیے بڑے ساہوکاروں میں شمار ہوتے۔
ہندو معاشرے میں ذات پات کی لعنت زیادہ پختہ ہوچکی تھی تاہم مسلمانوں کی آمد سے شودروں کی حالت بہتر ہو رہی تھی کیونکہ وہ اسلام قبول کرکے باعزت زندگی گزار سکتے تھے۔ خود ہندو معاشرے میں اسلامی اثرات کے تحت اسلامی تحریکیں جنم لے رہی تھیں۔ بھگتی تحریک نے سماجی مساوات کا پرچارکیا تاہم اس کے اثرات محدود تھے۔ بچپن کی شادی عام تھی، بیوہ کو خاوند کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا اس رسم کو ''ستی'' کہتے تھے۔ ہندو سلا ہوا کپڑا پہننے سے ناآشنا تھے ان کے مرد دھوتی اور عورتیں ساڑھی پہنتی تھیں۔
ہندو معاشرے میں ایک نئی بیداری کی لہر بھی محسوس کی جاسکتی تھی، وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو دوبارہ لینے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ''راجپوتانہ'' اس لہر کا مرکز تھا اور ''چتوڑ'' کا حکمران رانا سانگا اس بیداری کی علامت بنتا جا رہا تھا۔ تاہم مغلوں کی آمد نے ہندو معاشرے کے اس خواب کو ایک بار پھر پریشان کردیا۔
1347 سے برصغیر میں ایسا بھونچال آیا ریاستوں میں بغاوتیں شروع ہوگئیں ، جو ٹوٹنا شروع ہوئیں مثال کے طور پر ''بہمی سلطنت'' صوبائی حکومتوں میں سب سے بڑی تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب شمالی برصغیر طوائف الملوکی کا شکار ہوا۔ بہمی سلاطین نے دکن میں ایک مرکزی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ بہمی حکمرانی تقریباً دو صدیوں تک وجے نگر کے ہندو راجاؤں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ لڑائیوں کا یہ سلسلہ آخرکار وجے نگر کی تباہی پر منتج ہوا۔ اگر بہمی حکمرانوں کے تمام تر وسائل اور توجہ ان لڑائیوں میں صرف نہ ہوتی تو اس بات کا امکان تھا کہ ان کی سلطنت شمالی برصغیر کو بھی اپنے دامن اقتدار میں لے لیتی۔ پندرہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یہ سلطنت انحطاط پذیر ہوچکی تھی تاہم اس کے شہرہ آفاق وزیر محمود گاواں نے اپنی قابلیت سے اس کے زوال کو معرض التوا میں ڈالے رکھا۔ 1481 میں اس کے قتل کے بعد سلطنت کے حصے بخرے ہونے لگے۔
سب سے پہلے 1484 میں برار کا صوبہ عماد شاہی حکومت کے تحت آزاد ہوگیا۔ 1489 میں بیجاپور میں عادل شاہی حکومت قائم ہوئی۔ اگلے سال احمد نگر نے نظام شاہی حکومت کے تحت خودمختاری اختیار کی، 1512 میں گولکنڈہ بھی مرکز سے الگ ہوگیا اور وہاں قطب شاہی حکومت قائم ہوگئی۔ اس انتشار سے بہمی سلطنت سمٹ کر مرکزی صوبے بیدر تک محدود ہوکر رہ گئی۔ بالآخر 1526 میں اس کا وجود ہی ختم ہوگیا اور امیر برید نے بیدر میں برید شاہی حکومت قائم کردی۔ اس طرح بابر کے حملے کے وقت بہمی سلطنت پانچ چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوگئی تھی۔ یہ ریاستیں باہمی عداوتوں اور وجے نگر کے خلاف نبرد آزمائی میں مصروف تھیں۔
بہرحال ان تمام حالات کے بعد خاندان مغلیہ کا دور آیا پہلا مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر برصغیر میں داخل ہوا۔ برصغیر میں مغل حکومت کا کا بانی ظہیر الدین محمد بابر ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس سے جہاں کشائی اور جہاں بانی کی اعلیٰ روایات وابستہ تھیں۔ وہ باپ کی طرف سے ایشیا کے نامور فاتح امیر تیمور (ترک) کی اولاد تھا اور ماں کی طرف سے اس کا شجرہ نسب چنگیز خان (تاتار) سے جا ملتا تھا۔ جسے خونیں فتوحات کی وجہ سے ''قہر الٰہی'' کہا جاتا ہے۔ بابر ہمیشہ اپنے آپ کو ترک کہا کرتا تھا ۔
پرتگیزیوں نے برصغیر کے ساحلی علاقوں میں اپنی بستیاں قائم کرلیں اور انھوں نے مسلمان حاجیوں اور عرب تاجروں کے جہازوں کو لوٹنا شروع کردیا ۔ برصغیرکے معاملات میں مغربی اقوام کی مداخلت باد مخالف سے آنے والے اُس طوفان کا پتا دے رہی تھی، جس نے اس ملک کی تاریخ کا رخ بدل دیا ۔
برصغیر بے شمار ایسی آزاد ریاستوں کا مجموعہ تھا جن میں باہمی اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نہ تھی۔ حالات اس بات کے متمنی تھے کہ کوئی فاتح اپنی خداداد استعداد سے سیاسی انتشار کے اس ملبے سے ایک عظیم مرکزی حکومت کا قصر شکوہ تعمیرکرتا ۔ کارکنان قضا وقدر کی طرف سے یہ سعادت بابر کے حصے میں آئی۔ مسلم معاشرے میں طبقاتی تقسیم بہت نمایاں تھی، سماج کا اعلیٰ طبقہ مسلم امرا پر مشتمل تھا، اس میں ملکی اور غیر ملکی امرا شامل تھے۔ غیر ملکی امرا شروع میں زیادہ تر ترک تھے بعد میں ایرانی امرا کا بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ مسلم سلطنت کی توسیع اور استحکام میں مسلم امرا نے نہایت اہم کردار ادا کیا اس لیے ایوان اقتدار میں انھیں نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ تاہم سلطنت ''دہلی'' کے دور زوال میں غیر ملکی مسلم امرا نے بغاوتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
امرا بڑی بڑی جاگیروں پر قابض تھے، اس جاگیرداری نظام اور امرا کی خود غرضی نے مسلم معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ مسلم عوام زیادہ تر شہروں میں آباد تھیں، ان کا اہم پیشہ سرکاری ملازمت تھا۔ کرتا، شلوار، پگڑی مسلمانوں کا عام لباس تھا، مسلم معاشرہ میں تیزی کے ساتھ ہندو رسومات داخل ہو رہی تھیں۔ پان کا رواج عام ہوچکا تھا اسی طرح مصالحہ جات بھی مقبول ہوچکے تھے۔ ذات پات کی پرچھائیاں بھی مسلم برادریوں پر پڑ رہی تھیں، چوگان، شہسواری، شکار وغیرہ مسلمانوں کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ مذہبی تہواروں کے علاوہ جشن نوروز بھی سرکاری طور پر منایا جاتا تھا۔ شراب اور راگ رنگ بھی عام ہوتے جا رہے تھے، غلامی کا رواج عام تھا، مگر مسلم معاشرے نے غلاموں کو مناسب مقام عطا کیا تھا ان کی تربیت اولاد کی طرح کی جاتی تھی اور استعداد کے مطابق انھیں اعلیٰ ترین منصب پر بھی فائزکیا جاتا تھا۔
بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ زوال پذیر تھا، اس میں پہلے کی سی توانائی باقی نہیں رہی۔ مسلم تصوف میں بھی ہندو اثرات در آنا شروع ہوگئے ، معاشرے کو دوبارہ توانا کرنے کے لیے نئے خون کی ضرورت تھی۔ مغلوں کی آمد نے اس ضرورت کو پورا کیا اسلامی شعار پھیلنا شروع ہوئیں، مسلمانوں میں ہندو رواج ختم ہونا شروع ہوئے۔
جنوبی ایشیا کی دیہی آبادی اب بھی زیادہ تر ہندوؤں پر مشتمل تھی، یہ لوگ مخصوص دائروں میں خودمختار تھے، ان کے باہمی تنازعات اپنے قانون اور رواج کے مطابق طے پاتے۔ ماضی کی طرح پنچایت کا نظام موجود تھا، ملکی تجارت پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ شہروں میں بالخصوص یہ لوگ نہایت خوشحال تھے اور بڑے مکانات و محلات، حویلیوں میں رہتے تھے۔ ملتانی تاجر اور گجراتی بنیے بڑے ساہوکاروں میں شمار ہوتے۔
ہندو معاشرے میں ذات پات کی لعنت زیادہ پختہ ہوچکی تھی تاہم مسلمانوں کی آمد سے شودروں کی حالت بہتر ہو رہی تھی کیونکہ وہ اسلام قبول کرکے باعزت زندگی گزار سکتے تھے۔ خود ہندو معاشرے میں اسلامی اثرات کے تحت اسلامی تحریکیں جنم لے رہی تھیں۔ بھگتی تحریک نے سماجی مساوات کا پرچارکیا تاہم اس کے اثرات محدود تھے۔ بچپن کی شادی عام تھی، بیوہ کو خاوند کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا اس رسم کو ''ستی'' کہتے تھے۔ ہندو سلا ہوا کپڑا پہننے سے ناآشنا تھے ان کے مرد دھوتی اور عورتیں ساڑھی پہنتی تھیں۔
ہندو معاشرے میں ایک نئی بیداری کی لہر بھی محسوس کی جاسکتی تھی، وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو دوبارہ لینے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ''راجپوتانہ'' اس لہر کا مرکز تھا اور ''چتوڑ'' کا حکمران رانا سانگا اس بیداری کی علامت بنتا جا رہا تھا۔ تاہم مغلوں کی آمد نے ہندو معاشرے کے اس خواب کو ایک بار پھر پریشان کردیا۔
1347 سے برصغیر میں ایسا بھونچال آیا ریاستوں میں بغاوتیں شروع ہوگئیں ، جو ٹوٹنا شروع ہوئیں مثال کے طور پر ''بہمی سلطنت'' صوبائی حکومتوں میں سب سے بڑی تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب شمالی برصغیر طوائف الملوکی کا شکار ہوا۔ بہمی سلاطین نے دکن میں ایک مرکزی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ بہمی حکمرانی تقریباً دو صدیوں تک وجے نگر کے ہندو راجاؤں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ لڑائیوں کا یہ سلسلہ آخرکار وجے نگر کی تباہی پر منتج ہوا۔ اگر بہمی حکمرانوں کے تمام تر وسائل اور توجہ ان لڑائیوں میں صرف نہ ہوتی تو اس بات کا امکان تھا کہ ان کی سلطنت شمالی برصغیر کو بھی اپنے دامن اقتدار میں لے لیتی۔ پندرہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یہ سلطنت انحطاط پذیر ہوچکی تھی تاہم اس کے شہرہ آفاق وزیر محمود گاواں نے اپنی قابلیت سے اس کے زوال کو معرض التوا میں ڈالے رکھا۔ 1481 میں اس کے قتل کے بعد سلطنت کے حصے بخرے ہونے لگے۔
سب سے پہلے 1484 میں برار کا صوبہ عماد شاہی حکومت کے تحت آزاد ہوگیا۔ 1489 میں بیجاپور میں عادل شاہی حکومت قائم ہوئی۔ اگلے سال احمد نگر نے نظام شاہی حکومت کے تحت خودمختاری اختیار کی، 1512 میں گولکنڈہ بھی مرکز سے الگ ہوگیا اور وہاں قطب شاہی حکومت قائم ہوگئی۔ اس انتشار سے بہمی سلطنت سمٹ کر مرکزی صوبے بیدر تک محدود ہوکر رہ گئی۔ بالآخر 1526 میں اس کا وجود ہی ختم ہوگیا اور امیر برید نے بیدر میں برید شاہی حکومت قائم کردی۔ اس طرح بابر کے حملے کے وقت بہمی سلطنت پانچ چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوگئی تھی۔ یہ ریاستیں باہمی عداوتوں اور وجے نگر کے خلاف نبرد آزمائی میں مصروف تھیں۔
بہرحال ان تمام حالات کے بعد خاندان مغلیہ کا دور آیا پہلا مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر برصغیر میں داخل ہوا۔ برصغیر میں مغل حکومت کا کا بانی ظہیر الدین محمد بابر ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس سے جہاں کشائی اور جہاں بانی کی اعلیٰ روایات وابستہ تھیں۔ وہ باپ کی طرف سے ایشیا کے نامور فاتح امیر تیمور (ترک) کی اولاد تھا اور ماں کی طرف سے اس کا شجرہ نسب چنگیز خان (تاتار) سے جا ملتا تھا۔ جسے خونیں فتوحات کی وجہ سے ''قہر الٰہی'' کہا جاتا ہے۔ بابر ہمیشہ اپنے آپ کو ترک کہا کرتا تھا ۔