ہر شعبۂ سماج میں ترقی کے یکساں مواقع۔۔۔
برابری کی بنیاد پر شراکت، سہولیات اور مراعات میں بھی مساوات۔
دنیا اب گویا ہماری ہتھیلی پر دھری ہے۔ ایک ''کِلک'' اور ''ٹچ'' پر جیسے ہم ایک بحرِ بیکراں طے کر لیتے ہیں۔ حیرت انگیز اسمارٹ مشینیں اور جادوئی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے جہاں علم اور آگاہی کا سفر شروع ہوا ہے، وہیں یہ سب انسانوں کے لیے سیکھنے اور سمجھنے کا تیز رفتار اور مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
آج کا فلسفۂ حیات، تہذیبی اور تمدنی طرزِ فکر اور نظریات اسی جادوئی طاقت کے ذریعے دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کی خواتین بھی اسی کے زیرِ اثر اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو پہچان کر مختلف شعبہ ہائے حیات میں فعال اور متحرک ہیں۔ عورت اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ دفاتر اور کام کی جگہوں پر اپنی صلاحیتوں، قابلیت اور مہارت تو استعمال کررہی ہے، لیکن ہمارے ہاں عورت آج بھی اپنی حیثیت اور شناخت ہی نہیں مردوں کی طرح کسی بھی حوالے سے مواقع، وسائل اور سہولیات حتیٰ کہ بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔
مرد اور عورت کے رجحانات، دل چسپی کا میدان اور اسی طرح ان کی مہارت کے شعبے یقیناً مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن بنیادی حقوق کے ساتھ ترقی و خوش حالی کے یکساں مواقع ہی کسی معاشرے کا حُسن اور توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔
قارئین، آج خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں، یہ جانتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ وہ آٹھواں دن تھا مارچ کے مہینے کا جب ایک کارخانے کی اجیر عورتوں نے امتیازی سلوک اور معاشی استحصال کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کیا۔ یہ 1857ء کی بات ہے۔ امریکا کے شہر نیویارک کی یہ فیکٹری ورکرز اپنے اوقاتِ کار میں کمی اور اجرت بڑھانے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر آجر کے خلاف اکٹھی ہو گئی تھیں۔ انھوں نے عدم مساوات اور صنفی امتیاز کو مسترد کرتے ہوئے اپنا حق منوانے کے لیے یہ راستہ چُنا تھا۔
ان کا مطالبہ تھا کہ انھیں بھی معقول اجرت اور رعایتیں دی جائیں اور ان کا حق تسلیم کیا جائے، مگر ان پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔ اس روز وحشیانہ تشدّد اور ظلم سہنے کے بعد کئی عورتیں گرفتار ہوئیں، لیکن یہ جبر اور گرفتاریاں ان کے حوصلے پست نہ کر سکیں۔ وہ جبری مشقت اور اجرت و مراعات کے عدم توازن اور صنفی بنیاد پر کم محنتانہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ تاریخ کے مطابق اسی واقعے نے یورپ کو مجبور کیا کہ وہ عورتوں کے مسائل اور ان کی سماجی اور معاشی مشکلات کا حل نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔
یہی احتجاج اور پولیس ایکشن عالمی یومِ خواتین کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ 28 فروری، 1909ء کو امریکا میں خواتین کا دن منایا گیا جس کے بعد عالمی سطح پر عورتوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق کانفرنسز کا انعقاد شروع ہوا۔ یہ سلسلہ ملکوں ملکوں پھیلا اور اب دنیا بھر میں ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد صنفی امتیاز کا خاتمہ اور عورتوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ تاہم پسماندہ اور تعلیم و شعور سے محروم معاشروں ہی میں نہیں تہذیب یافتہ اور حقوق انسانی کے چیمپئن کہلانے والے ملکوں میں بھی عورت کم تر سمجھی جاتی ہے اور اسے ہر شعبے میں مردوں کے مساوی حقوق اور مراعات حاصل نہیں ہیں۔
رواں برس یومِ خواتین منانے کا مقصد عورتوں کے لیے ''یکساں مواقع اور مساوات '' کی فکر عام کرنا ہے اور پاکستان میں بھی یہ دن اسی تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت جہاں اپنی عزت و ناموس کے حوالے سے سنگین مسائل اور مشکلات کا سامنا کررہی ہے اور عدم تحفظ کا شکار ہے، وہیں یہ ہر سطح پر مساوات، ہر شعبے میں توازن اور اپنے لیے مردوں کی طرح ترقی کے مواقع اور مراعات کا مطالبہ کررہی ہے۔ ہم یہاں کی عورت کو دیہی اور شہری کی تقسیم کے ساتھ دیکھیں تو اوّل تو عدم تحفظ کا احساس ہر عورت کا مسئلہ ہے جب کہ پسماندہ علاقوں اور گاؤں کی عورت کی گھریلو زندگی بدترین ظلم اور جبر کے ساتھ گزر رہی ہے۔
اسے ضروریات اور سہولیات کے اعتبار سے دیکھیں تو نہایت تکلیف دہ حالات میں گزر بسر کرتی ہے جب کہ شہروں میں بھی عورت کو گھر، دفتر اور ہر جگہ تفریق، مختلف قسم کا تشدد اور عدم مساوات کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ رپورٹ میں 149 ممالک کا ذکر کیا تھا اور اس فہرست میں پاکستان 148 ویں نمبر پر تھا۔ یہ رپورٹ چار بنیادی شعبوں میں عورتوں سے متعلق حقائق کی روشنی میں تیار کی جاتی ہے۔ ان میں معاشی مواقع کی فراہمی، تعلیمی کارکردگی، صحت اور سیاسی طور پر عورت کے اختیار کا جائزہ لینا شامل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔ اسی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دنیا نے عورت کے استحصال کا راستہ نہ روکا اور معاشی میدان میں اس کی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو مَرد اور عورت کے درمیان فقط ایک تنخواہوں کا فرق ہی مٹانے میں دنیا کو 100 سال بیت سکتے ہیں۔
یہ معاملہ دنیا کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں اور اسی امتیاز کو مٹانے کے لیے کوششوں کا آغاز Balance for better کے نعرے کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ دنیا مانتی ہے کہ جب تک مرد اور عورت ہر سطح پر اور ہر شعبے میں یکساں سہولتیں، مراعات اور مواقع نہیں حاصل کریں گے، اس وقت تک حقیقی ترقی اور خوش حالی کا خواب ممکن نہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے عدم مساوات اور امتیازی سلوک کی وجہ سے برباد ہو سکتے ہیں جس کا دنیا پر منفی اثر پڑے گا۔
اس حقیقت سے کا سامنا کرنا ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ سماجی ترقی کے اعتبار سے حیران کن تضادات کا شکار ہے۔ شہروں میں عورت تعلیم اور صحت سے لے کر کئی دیگر شعبوں میں بھی سہولتیں اور مواقع سے فائدہ اٹھا رہی ہے، مگر دیہات اور قصبوں میں صورتِ حال بدتر ہے۔ یہ عدم توازن اور استحصال کی مختلف شکلیں دراصل اس سماج کی ایک بھیانک حقیقت ہے جسے تسلیم کر کے ہی ہم بہتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ مرد معاشرے میں اب تک عورت کی انفرادی حیثیث تسلیم نہیں کی گئی ہے۔
پیدائش کے بعد عورت بھرپور غذا، خوراک، علاج معالجہ کی سہولیات اور تعلیم کے لیے بھی مردوں کے فیصلوں کی پابند ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے میں وہ روزگار اور ملازمت کے ساتھ جیون ساتھی کا انتخاب آسانی سے کیسے کرسکتی ہے۔ عورت دیہی علاقے کی باسی ہو یا شہر کی، گھر سنبھالنا اس کا بنیادی وظیفہ شمار کیا جاتا ہے۔ والدین کے بعد شوہر کے گھر میں جہاں وہ ہانڈی چولھا کرتی ہے، وہیں بچوں کی پرورش کی بھی ذمہ دار ہے اور یہی عورت معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے دفاتر اور کھیتوں میں بھی کام کرتی نظر آتی ہے۔ شہری علاقوں کی عورتوں کی حالتِ زار کسی حد تک تبدیل ہوئی ہے، مگر دیہاتی عورت آج بھی اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں مشقت کے بعد اجرت اور معاوضے کے نام پر چند سو روپے ہی حاصل کر پاتی ہیں۔
ان کی زندگی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مختلف ضروریات، علاج معالجے اور قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ ہو جانے والے گھر کی تعمیر کے لیے لیا گیا قرض اتارنے کے لیے اکثر عورتوں کو بلا اجرت کھیتوں اور زمیں دار کے گھر میں کام کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کی حیثیت ایسے غلاموں کی سی ہے، جو صرف دو وقت کے کھانے اور پہننے کو چند گز کپڑا ہی حاصل کر پاتی ہیں۔ دوسری طرف شہری علاقوں میں اگرچہ عورت بنیادی ضروریات اور چند سہولیات ضرور حاصل کر پاتی ہے، مگر گھر، پبلک مقامات اور ملازمت پیشہ ہونے کی صورت میں دفاتر میں اسے امتیاز سلوک اور نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں تنخواہوں میں عدم توازن اور ترقی کے محدود مواقع کے علاوہ استحصال کی مختلف شکلیں شامل ہیں۔
عورت اگر پُرکشش تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہی ہو تب بھی اسے گھر اور اپنے کنبے سے متعلق اہم فیصلوں کا اختیار نہیں ہوتا یا عورت ہونے کی وجہ سے اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایک گھریلو عورت کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ وہ دن رات کام کرتی ہے، لیکن اسے کام ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے اس کی بنیادی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ہر عورت کرتی ہے اور اسے کرنا ہی ہے۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کسی معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد اور اگر کسی ایک طرف سے صنفی بنیاد پر ذمہ داریوں کو تھوپنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ خاندان جیسی اکائی کے لیے نقصان دہ اور تلخی کا باعث بنے گا۔ ہر خطے اور تہذیب میں خواتین کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں وہاں کی اقدار اور روایات کے مطابق ضرور طے ہیں، لیکن اس کی بنیاد پر کوئی بھی دوسرے پر برتری اور سبقت نہیں رکھتا۔ تاہم آج بھی ترقی پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ معاشروں کی عورتوں بھی اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی نظر آرہی ہے۔ صنفی امتیاز اور یکساں مواقع کی فراہمی ہی پسماندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
تبدیلی کے لیے سب سے پہلے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے تعلیم بھی میسر نہیں۔ ہماری نصف سے زائد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے جن کو آئین میں تعلیم کے یکساں مواقع کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم سماجی رویے، حکومتی عدم توجہی اور معاشی عوامل بھی اس راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کی ترقی اور خوش حالی کی ضمانت ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں خواتین کو جسمانی اور ذہنی اور جذباتی تشدد کا سامنا ہے۔ آج بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور یہی سوچ مختلف شعبوں میں عدم مساوات کا سبب ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی تعصب سے کوئی ملک محفوظ نہیں، مگر پاکستانی معاشرے میں عورت ہر قسم کا ظلم اور جبر سہنے کے ساتھ ساتھ چار اُن بنیادی شعبوں میں جائز مقام سے محروم ہے جو اسے ترقی دے سکتے ہیں اور ایک مضبوط عورت بناسکتے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ یہاں مرد اور خواتین کی آمدن اور مقام میں واضح خلیج موجود ہے جو عدم مساوات اور ناانصافی کی ایک شکل ہے۔ ملک میں صنفی امتیاز، عدم مساوات کے علاوہ عورت پر ظلم و جبر کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکے جانے کے واقعات، چولھا پھٹنے سے موت اور ہراسانی کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق رجعت پسندی سماج میں عورتوں کو طاقت بخشنے کے اہداف کی تکمیل میں رکاوٹ جب کہ آئینِ پاکستان کے مطابق حکومتیں ملک کی نصف آبادی کو محفوظ اور خوش حال نہیں بنا سکی۔
عورتوں کی معاشی اور سماجی حالت اور ان کو بااختیار بنانے کے ساتھ سماجی دھارے میں ان کی بامعنی شمولیت یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جب کہ عورتوں سے امتیازی سلوک اور ان پر تشدد کے خاتمے کے لیے مؤثر ترین اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سال عورتوں کو ہر شعبے میں یکساں مواقع، سہولیات اور مراعات کی فراہمی یقینی بنانے کی بات کی جارہی ہے جس کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو عورت آج بھی اپنے بنیادی حقوق، بقا، شناخت اور تحفظ کی جنگ سے باہر نہیں نکل سکی اسے عملی زندگی اور پیشہ ورانہ میدان میں اپنے لیے ترقی کے یکساں مواقع اور ہر سطح پر مساوات کا خواب دیکھنا بھی چاہیے یا نہیں؟
آج کا فلسفۂ حیات، تہذیبی اور تمدنی طرزِ فکر اور نظریات اسی جادوئی طاقت کے ذریعے دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کی خواتین بھی اسی کے زیرِ اثر اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو پہچان کر مختلف شعبہ ہائے حیات میں فعال اور متحرک ہیں۔ عورت اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ دفاتر اور کام کی جگہوں پر اپنی صلاحیتوں، قابلیت اور مہارت تو استعمال کررہی ہے، لیکن ہمارے ہاں عورت آج بھی اپنی حیثیت اور شناخت ہی نہیں مردوں کی طرح کسی بھی حوالے سے مواقع، وسائل اور سہولیات حتیٰ کہ بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔
مرد اور عورت کے رجحانات، دل چسپی کا میدان اور اسی طرح ان کی مہارت کے شعبے یقیناً مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن بنیادی حقوق کے ساتھ ترقی و خوش حالی کے یکساں مواقع ہی کسی معاشرے کا حُسن اور توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔
قارئین، آج خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں، یہ جانتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ وہ آٹھواں دن تھا مارچ کے مہینے کا جب ایک کارخانے کی اجیر عورتوں نے امتیازی سلوک اور معاشی استحصال کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کیا۔ یہ 1857ء کی بات ہے۔ امریکا کے شہر نیویارک کی یہ فیکٹری ورکرز اپنے اوقاتِ کار میں کمی اور اجرت بڑھانے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر آجر کے خلاف اکٹھی ہو گئی تھیں۔ انھوں نے عدم مساوات اور صنفی امتیاز کو مسترد کرتے ہوئے اپنا حق منوانے کے لیے یہ راستہ چُنا تھا۔
ان کا مطالبہ تھا کہ انھیں بھی معقول اجرت اور رعایتیں دی جائیں اور ان کا حق تسلیم کیا جائے، مگر ان پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔ اس روز وحشیانہ تشدّد اور ظلم سہنے کے بعد کئی عورتیں گرفتار ہوئیں، لیکن یہ جبر اور گرفتاریاں ان کے حوصلے پست نہ کر سکیں۔ وہ جبری مشقت اور اجرت و مراعات کے عدم توازن اور صنفی بنیاد پر کم محنتانہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ تاریخ کے مطابق اسی واقعے نے یورپ کو مجبور کیا کہ وہ عورتوں کے مسائل اور ان کی سماجی اور معاشی مشکلات کا حل نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔
یہی احتجاج اور پولیس ایکشن عالمی یومِ خواتین کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ 28 فروری، 1909ء کو امریکا میں خواتین کا دن منایا گیا جس کے بعد عالمی سطح پر عورتوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق کانفرنسز کا انعقاد شروع ہوا۔ یہ سلسلہ ملکوں ملکوں پھیلا اور اب دنیا بھر میں ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد صنفی امتیاز کا خاتمہ اور عورتوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ تاہم پسماندہ اور تعلیم و شعور سے محروم معاشروں ہی میں نہیں تہذیب یافتہ اور حقوق انسانی کے چیمپئن کہلانے والے ملکوں میں بھی عورت کم تر سمجھی جاتی ہے اور اسے ہر شعبے میں مردوں کے مساوی حقوق اور مراعات حاصل نہیں ہیں۔
رواں برس یومِ خواتین منانے کا مقصد عورتوں کے لیے ''یکساں مواقع اور مساوات '' کی فکر عام کرنا ہے اور پاکستان میں بھی یہ دن اسی تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت جہاں اپنی عزت و ناموس کے حوالے سے سنگین مسائل اور مشکلات کا سامنا کررہی ہے اور عدم تحفظ کا شکار ہے، وہیں یہ ہر سطح پر مساوات، ہر شعبے میں توازن اور اپنے لیے مردوں کی طرح ترقی کے مواقع اور مراعات کا مطالبہ کررہی ہے۔ ہم یہاں کی عورت کو دیہی اور شہری کی تقسیم کے ساتھ دیکھیں تو اوّل تو عدم تحفظ کا احساس ہر عورت کا مسئلہ ہے جب کہ پسماندہ علاقوں اور گاؤں کی عورت کی گھریلو زندگی بدترین ظلم اور جبر کے ساتھ گزر رہی ہے۔
اسے ضروریات اور سہولیات کے اعتبار سے دیکھیں تو نہایت تکلیف دہ حالات میں گزر بسر کرتی ہے جب کہ شہروں میں بھی عورت کو گھر، دفتر اور ہر جگہ تفریق، مختلف قسم کا تشدد اور عدم مساوات کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ رپورٹ میں 149 ممالک کا ذکر کیا تھا اور اس فہرست میں پاکستان 148 ویں نمبر پر تھا۔ یہ رپورٹ چار بنیادی شعبوں میں عورتوں سے متعلق حقائق کی روشنی میں تیار کی جاتی ہے۔ ان میں معاشی مواقع کی فراہمی، تعلیمی کارکردگی، صحت اور سیاسی طور پر عورت کے اختیار کا جائزہ لینا شامل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔ اسی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دنیا نے عورت کے استحصال کا راستہ نہ روکا اور معاشی میدان میں اس کی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو مَرد اور عورت کے درمیان فقط ایک تنخواہوں کا فرق ہی مٹانے میں دنیا کو 100 سال بیت سکتے ہیں۔
یہ معاملہ دنیا کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں اور اسی امتیاز کو مٹانے کے لیے کوششوں کا آغاز Balance for better کے نعرے کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ دنیا مانتی ہے کہ جب تک مرد اور عورت ہر سطح پر اور ہر شعبے میں یکساں سہولتیں، مراعات اور مواقع نہیں حاصل کریں گے، اس وقت تک حقیقی ترقی اور خوش حالی کا خواب ممکن نہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے عدم مساوات اور امتیازی سلوک کی وجہ سے برباد ہو سکتے ہیں جس کا دنیا پر منفی اثر پڑے گا۔
اس حقیقت سے کا سامنا کرنا ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ سماجی ترقی کے اعتبار سے حیران کن تضادات کا شکار ہے۔ شہروں میں عورت تعلیم اور صحت سے لے کر کئی دیگر شعبوں میں بھی سہولتیں اور مواقع سے فائدہ اٹھا رہی ہے، مگر دیہات اور قصبوں میں صورتِ حال بدتر ہے۔ یہ عدم توازن اور استحصال کی مختلف شکلیں دراصل اس سماج کی ایک بھیانک حقیقت ہے جسے تسلیم کر کے ہی ہم بہتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ مرد معاشرے میں اب تک عورت کی انفرادی حیثیث تسلیم نہیں کی گئی ہے۔
پیدائش کے بعد عورت بھرپور غذا، خوراک، علاج معالجہ کی سہولیات اور تعلیم کے لیے بھی مردوں کے فیصلوں کی پابند ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے میں وہ روزگار اور ملازمت کے ساتھ جیون ساتھی کا انتخاب آسانی سے کیسے کرسکتی ہے۔ عورت دیہی علاقے کی باسی ہو یا شہر کی، گھر سنبھالنا اس کا بنیادی وظیفہ شمار کیا جاتا ہے۔ والدین کے بعد شوہر کے گھر میں جہاں وہ ہانڈی چولھا کرتی ہے، وہیں بچوں کی پرورش کی بھی ذمہ دار ہے اور یہی عورت معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے دفاتر اور کھیتوں میں بھی کام کرتی نظر آتی ہے۔ شہری علاقوں کی عورتوں کی حالتِ زار کسی حد تک تبدیل ہوئی ہے، مگر دیہاتی عورت آج بھی اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں مشقت کے بعد اجرت اور معاوضے کے نام پر چند سو روپے ہی حاصل کر پاتی ہیں۔
ان کی زندگی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مختلف ضروریات، علاج معالجے اور قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ ہو جانے والے گھر کی تعمیر کے لیے لیا گیا قرض اتارنے کے لیے اکثر عورتوں کو بلا اجرت کھیتوں اور زمیں دار کے گھر میں کام کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کی حیثیت ایسے غلاموں کی سی ہے، جو صرف دو وقت کے کھانے اور پہننے کو چند گز کپڑا ہی حاصل کر پاتی ہیں۔ دوسری طرف شہری علاقوں میں اگرچہ عورت بنیادی ضروریات اور چند سہولیات ضرور حاصل کر پاتی ہے، مگر گھر، پبلک مقامات اور ملازمت پیشہ ہونے کی صورت میں دفاتر میں اسے امتیاز سلوک اور نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں تنخواہوں میں عدم توازن اور ترقی کے محدود مواقع کے علاوہ استحصال کی مختلف شکلیں شامل ہیں۔
عورت اگر پُرکشش تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہی ہو تب بھی اسے گھر اور اپنے کنبے سے متعلق اہم فیصلوں کا اختیار نہیں ہوتا یا عورت ہونے کی وجہ سے اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایک گھریلو عورت کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ وہ دن رات کام کرتی ہے، لیکن اسے کام ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے اس کی بنیادی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ہر عورت کرتی ہے اور اسے کرنا ہی ہے۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کسی معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد اور اگر کسی ایک طرف سے صنفی بنیاد پر ذمہ داریوں کو تھوپنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ خاندان جیسی اکائی کے لیے نقصان دہ اور تلخی کا باعث بنے گا۔ ہر خطے اور تہذیب میں خواتین کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں وہاں کی اقدار اور روایات کے مطابق ضرور طے ہیں، لیکن اس کی بنیاد پر کوئی بھی دوسرے پر برتری اور سبقت نہیں رکھتا۔ تاہم آج بھی ترقی پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ معاشروں کی عورتوں بھی اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی نظر آرہی ہے۔ صنفی امتیاز اور یکساں مواقع کی فراہمی ہی پسماندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
تبدیلی کے لیے سب سے پہلے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے تعلیم بھی میسر نہیں۔ ہماری نصف سے زائد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے جن کو آئین میں تعلیم کے یکساں مواقع کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم سماجی رویے، حکومتی عدم توجہی اور معاشی عوامل بھی اس راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کی ترقی اور خوش حالی کی ضمانت ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں خواتین کو جسمانی اور ذہنی اور جذباتی تشدد کا سامنا ہے۔ آج بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور یہی سوچ مختلف شعبوں میں عدم مساوات کا سبب ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی تعصب سے کوئی ملک محفوظ نہیں، مگر پاکستانی معاشرے میں عورت ہر قسم کا ظلم اور جبر سہنے کے ساتھ ساتھ چار اُن بنیادی شعبوں میں جائز مقام سے محروم ہے جو اسے ترقی دے سکتے ہیں اور ایک مضبوط عورت بناسکتے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ یہاں مرد اور خواتین کی آمدن اور مقام میں واضح خلیج موجود ہے جو عدم مساوات اور ناانصافی کی ایک شکل ہے۔ ملک میں صنفی امتیاز، عدم مساوات کے علاوہ عورت پر ظلم و جبر کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکے جانے کے واقعات، چولھا پھٹنے سے موت اور ہراسانی کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق رجعت پسندی سماج میں عورتوں کو طاقت بخشنے کے اہداف کی تکمیل میں رکاوٹ جب کہ آئینِ پاکستان کے مطابق حکومتیں ملک کی نصف آبادی کو محفوظ اور خوش حال نہیں بنا سکی۔
عورتوں کی معاشی اور سماجی حالت اور ان کو بااختیار بنانے کے ساتھ سماجی دھارے میں ان کی بامعنی شمولیت یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جب کہ عورتوں سے امتیازی سلوک اور ان پر تشدد کے خاتمے کے لیے مؤثر ترین اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سال عورتوں کو ہر شعبے میں یکساں مواقع، سہولیات اور مراعات کی فراہمی یقینی بنانے کی بات کی جارہی ہے جس کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو عورت آج بھی اپنے بنیادی حقوق، بقا، شناخت اور تحفظ کی جنگ سے باہر نہیں نکل سکی اسے عملی زندگی اور پیشہ ورانہ میدان میں اپنے لیے ترقی کے یکساں مواقع اور ہر سطح پر مساوات کا خواب دیکھنا بھی چاہیے یا نہیں؟