سخت مشقت کم اجرت

دیہات کی عورت ہر لحاظ سے کم تر، ہر اعتبار سے پیچھے ہے۔

دیہات کی عورت ہر لحاظ سے کم تر، ہر اعتبار سے پیچھے ہے۔ فوٹو: فائل

طلوعِ آفتاب سے قبل ہی کھیتوں میں کام کرنے کے لیے گھروں سے نکل جانا، گھر کے مردوں کے لیے کھانا تیار کرنا، بچوں کی ذمہ داری، جانوروں کو چارا ڈالنا، دور کسی مقام سے پانی بھر کر لانا، جانوروں کا دودھ دوہنا، فصل کی دیکھ بھال سے کٹائی تک گھر کے مردوں کا ساتھ دینا اور ذرا فرصت کے لمحات میسر آئیں تو سلائی، کڑھائی اور کشیدہ کاری کرنا تاکہ چند پیسے ہاتھ آئیں اور کوئی ضرورت پوری کرسکیں۔ یہ دیہی خواتین کے روزمرہ کے معمولات ہیں۔

دیہات کی خواتین سخت محنت کرنے کے باوجود بھی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ گاؤں میں سہولیات میسر نہیں جب کہ غربت اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی گھریلو زندگی بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ کھیتوں میں دن رات کام کرنے کی اجرت نہیں دی جاتی، زمیں دار کنبے کے مرد سرپرست کو سالانہ ادائیگی اور غذائی اجناس کی صورت میں جو کچھ دے دیتا ہے، وہی اجرت تصور کی جاتی ہے۔

خواتین اپنی ضروریات کے لیے دست کاری، سلائی کڑھائی اور سجاوت کی مختلف اشیاء تیار کرتی ہیں جو شہروں میں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں، مگر یہ سارا منافع شہروں سے آنے والے کاروباری افراد کی جیب میں جاتا ہے جو دیہات کی ان عورتوں سے یہ اشیا معمولی قیمت پر لے جاتے ہیں اور شہر میں فروخت کر دیتے ہیں۔ دیہات کی عورت آج بھی ظلم و جبر کا سامنا کر رہی ہے۔

یہ مشقت کرتی ہے اور اپنا آپ مستقبل کی فکر میں گھلاتی رہتی ہے، مگر اس دور میں بھی اپنے حق اور مقام و مرتبے کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی۔ اسے اپنے حقوق کا علم ہی نہیں کہ دیہات کی عورتوں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ جو چند جماعتیں پڑھ گئیں وہ بھی ماحول کے جبر اور مرد کی حاکمیت کے آگے بے بس ہیں۔

دیہی خواتین کے استحصال کی کوئی ایک شکل ہو تو بیان کی جائے۔ یہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں تو ہے، مگر یہ رشتے ناتے شاید پکارنے، گاؤں اور برادری میں پہچانے جانے اور سرکاری کاغذات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہیں۔ زندگی کے دیگر معاملات، رسوم، رواج وغیرہ میںدیہی خواتین بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ گھر سے باہر نکل کر دیہی عورت کو دیکھیں تو یہ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ اکثر گاؤں دیہات میں لڑکیوں کے لیے اسکول نہیں ہیں اور لڑکیوں کے والدین بھی تعلیم کی اہمیت سے نابلد ہیں۔


اوّل تو کوئی لڑکی کو پڑھانا ہی نہیں چاہتا اور اگر کوئی یہ ارادہ رکھتا بھی ہے تو اسکول نہ ہونے کی وجہ سے یا گھر سے کئی کلومیٹر دور درس گاہ تک بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یوں اوائل عمری ہی میں بچیاں ماؤں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں، جانوروں کی دیکھ بھال اور گھریلو امور میں وہ اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کم عمری میں ہی لڑکی کی بات پکی یا قبل از پیدائش بھی اس کا رشتہ طے کر دیا جاتا ہے۔ وٹے سٹے کی لعنت نے کتنے ہی گھر اجاڑ دیے۔ دیہات کی عورت ایسا تعلق نبھاتے ہوئے اپنی عمر تمام کردیتی ہے۔ اس کی خوشی، اس کا دکھ، کھانا پینا، اوڑھنا پہننا الغرض سب کچھ جیسے مشروط ہوتا ہے۔

اس شادی کے نتیجے میں جب ایک آنگن میں تھپڑ کی گونج سنائی دیتی ہے تو دوسری طرف بھی یہی ہوتا ہے۔ گالیوں اور مار پیٹ کے بعد اگر ایک لڑکی کو سزا کے طور پر اپنے میکے جانا پڑے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں موجود دوسری عورت کو بھی اپنے شوہر اور سسرالیوں کی خدمت اور دن رات کی مشقت سے کمر توڑ لینے کے باوجود کوئی رعایت نہیں ملے گی اور اسے بھی اس گھر سے نکلنا پڑے گا۔ ادلے بدلے کی شادیوں میں لڑکیوں کی رضامندی ضروری نہیں بلکہ پسند یا مرضی کا اظہار کرنے والی لڑکی کا مقدر موت بنتی ہے۔ غیرت کے نام پر ان کا قتل ایک عام بات ہے اور اکثر کیسز میں ملزم گرفتار نہیں ہوتے بلکہ اس حوالے سے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دیہاتی خواتین اکیسویں صدی میں بھی ظلم اور استحصال کی چکی میں پس رہی ہیں۔ اپنے بنیادی حقوق سے نابلد یہ خواتین وٹے سٹے اور بے جوڑ شادیوں پر مجبور ہوتی ہیں۔ بیمار ہوجانے کی صورت میں علاج سے بھی محروم رہتی ہیں جس کی ایک وجہ تو اکثر دیہات میں اسپتال یا دوا خانے موجود نہ ہونا ہے اور دوسرا سبب خاتون ڈاکٹر نہ ملنا بھی ہے۔ مخصوص سوچ اور ذہنیت کے لوگ اپنے گھروں کی عورتوں کو بیماری کی انتہائی شدت اور جان کے لیے خطرے کی صورت میں بھی اسپتال لے جانے سے گریز کرتے ہیں کہ وہاں مرد ڈاکٹر ہو گا۔ معاشی تنگی کے سبب بھی اکثر دیہی خواتین اپنی صحت سے بے پروا نظر آتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ بیمار ہونے کی صورت میں کبھی جانور بیچنا پڑتا ہے تو کبھی زمیں دار سے قرضہ لیا جاتا ہے۔

یہ قرض ایک اور تکلیف دہ معاملہ ہے بلکہ بسا اوقات غیر انسانی رویے کو جنم دیتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے قرضے سال بھر میں سود کی وجہ سے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ جب فصل کٹنے کے بعد زمیں دار کی جانب سے اجرت ملتی ہے تو اس کا بڑا حصہ قرضوں کی مد میں صرف ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی قرض ادا نہ کرسکے تو گھر کی عورتوں کو کھیتوں میں مزید کام کرنا پڑتا ہے یا زمیں دار ان سے اپنے گھر کے مختلف کام لیتے ہیں اور یوں وہ ناانصافی اور استحصال کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ گھر کے مرد بھی عورتوں کی محنت مشقت، ان کی خدمت گزاری اور تکالیف کا احساس نہیں کرتے۔ معمولی معمولی بات پر بیوی کو مارنا پیٹنا مردوں کی عادت ہوتی ہے۔

بدلتے وقت کے ساتھ شہری خواتین کی زندگیوں میں تو کچھ بہتری نظر آتی ہے، لیکن دیہات کی عورت آج بھی ظلم اور استحصال کا شکار ہے۔ وہ بنیادی ضروریات کو ترس رہی ہے اور اس کی گھریلو زندگی مخصوص رویوں اور ذہنیت کے ہاتھوں متاثر نظر آتی ہے۔ جہاں ضروریات کا تصور نہ ہو وہاں سہولیات کی بات ہی کیا جائے۔ تعلیم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے دیہات میں بسنے والی عورت کا حال تو یہ ہے کہ وہ اپنی ضرورت ہی سے واقف نہیں اور ایسے میں اسے اپنے خانگی، ازدواجی اور سماجی حقوق کا شعور کہاں ہو گا۔

دیہات کی عورت آج یومِ خواتین پر منتظر ہیں کہ حقوق نسواں کی علم بردار تنظیمیں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ادارے ان کی جانب بھی توجہ دیں۔ حکومت اور یہ ادارے مل کر ایسے اقدامات کریں کہ دیہاتی خواتین کو معاشی خوش حالی کے ساتھ مناسب غذا، تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ پینے کا صاف پانی میسر ہو جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔
Load Next Story