امتیازی سلوک اور عدم تحفظ کا احساس
آج کی عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہے اور وہ ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند بلند کرسکتی ہے۔
سوشل میڈیا کے دور میں عورت پہلے کی نسبت زیادہ باشعور اور کسی حد تک بااختیار بھی نظر آتی ہے۔
آج کی عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہے اور وہ ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند بلند کرسکتی ہے۔ روایتی ذرایع ابلاغ کے پھیلاؤ کے ساتھ اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بدولت اس نے سیکھ لیا ہے کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف کہاں اور کب آواز بلند کرنا ہے جس کی ایک واضح مثال ہیش ٹیگ 'می ٹو' ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آواز بلند کرنے والی پاکستانی عورت کو اس کا حق اور انصاف ملا؟
کہہ سکتے ہیں کہ آج کی عورت تعلیم و روزگار سے متعلق فیصلے، یا اظہارِ رائے میں نسبتاً آزاد ہے۔ وہ تعلیم یافتہ ہے تو اپنی ڈگری کے بل پر ملازمت بھی کرتی ہے، اسی طرح آن لائن ذرایع آمدن اپنا رہی ہے اور مارکیٹ اور شاپنگ سینٹروں میں بھی معاشی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے، اس کے مختلف تعلیم و ہنر سیکھنے میں حائل رکاوٹیں کم ہوئی ہیں، لیکن اوّل تو یہ مجموعی صورتِ حال نہیں اور دوسری طرف کیا آج کی عورت کو اپنی ساری ریاضت، محنت، بھاگ دوڑ اور مشقت کے بعد ہر سطح پر امتیازی سلوک سے نجات مل گئی ہے؟ وہ مختلف شعبوں میں اہلیت کے مطابق ترقی، یکساں اجرت اور مراعات حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی ہے؟ نہیں، افسوس ایسا نہیں ہے!
شہری علاقوں کی عورت کی بات کریں تو کم آمدنی والے گھرانوں میں معاشی مسائل کی وجہ سے خواتین ملوں، فیکٹریوں اور دفاتر میں معمولی نوکری اور کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں، مگر کسی نہ کسی طرح کنبے کی کفالت اور اپنی ضروریات پوری کررہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی دیہاتی عورت جو دست کاری اور زراعت جیسے اہم شعبے میں اپنا کردار نبھا رہی ہے اور گھریلو صنعتیں اسی کے دم سے رواں ہیں، دن رات ایک کر دینے اور ذمہ داری سے کام کرنے کے باوجود مناسب اجرت، مقام و مرتبے اور سماجی حیثیت سے محروم ہے۔ شہری علاقوں کی ملازمت پیشہ خواتین کو اگر ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولتوں، مردوں کے برابر تعلیمی قابلیت رکھنے کے باوجود کم تنخواہ کا مسئلہ ہے تو دیہات میں خواتین کو انتہائی کم اجرت اور نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاکہ شہر ہوں یا دیہات ہر جگہ عورت کو صنفی امتیاز، نامناسب سلوک کا سامنا ہے اور وہ استحصال کا شکار ہے۔
ملک کی یہ نصف سے زائد آبادی یعنی عورت چاہے شہر کی ہو یا دیہات کی، گھر کی چار دیواری سے باہر روزگار اور معاشی سرگرمی انجام دینے کے بعد جب واپس لوٹتی ہے تو ایک اور ذمہ داری نبھانے کے لیے کمر کس لیتی ہے۔ آٹھ، بارہ اور بعض اوقات سولہ سولہ گھنٹے تک دفاتر، کارخانوں میں کام کرکے لوٹنے والی عورتوں کو گھر لوٹتے ہی کچن سنبھالنا پڑتا ہے۔ اسے کھانا پکانے، گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر بچوں کی دیکھ بھال اور ایسے بے شمار کام کرنا پڑتے ہیں جن کا تصور ہی شاید صنفِ قوی کے لیے محال ہے۔
دوسری طرف اس کا مجازی خدا اپنے کام سے واپس آنے کے بعد پانی پینے کے لیے بھی نہیں اٹھنا چاہتا۔ عورت تو مرد کا معاش کے حوالے سے اور دیگر ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹا رہی ہے۔ وہ ملازمت پیشہ بھی ہے، کھیتوں میں بھی کام کرتی ہے اور باہر جاکر سودا سلف لانے کو بھی تیار ہے، لیکن کتنے مرد ایسے ہیں جو عورت کی ذمہ داریاں بانٹتے ہیں؟ اس کے ساتھ گھر کے کاموں میں شریک ہوتے ہیں؟ موجودہ دور میں بھی جب دنیا جدید آلات کے ساتھ ترقی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے ہمارے سماج میں عورت کی حیثیت کسی بار بردار جانور کی سی ہے جس کا مالک غذا، خوراک، صحت اور آرام کا خیال رکھنے کے بجائے صرف بوجھ اٹھوائے جاتا ہے۔
بدقسمتی دیکھیے کہ اس دہری مشقت کا نہ تو صلہ ملتا ہے نہ ہی اس محنت کا معاوضہ ملتا ہے۔ دراصل اس معاشرے اور نظام میں عورت کی یہ محنت اور مشقت شمار ہی نہیں ہوتی جو وہ گھر کو بنانے اور اپنے کنبے اور اہلِ خانہ کے لیے کرتی ہے۔ اس بے حسی نے عورت کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ پاکستان میں عورتوں میں ذہنی دباؤ کے باعث صلاحیتوں اور ان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دفاتر و دوسرے کاموں میں محنت مشقت کے باوجود بہتر معاوضہ اور تنخواہ نہ ملنا، گھروں میں ذہنی اور جسمانی تشدد کے علاوہ کام کی جگہوں، بس اسٹاپ اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مردوں کا خوف اور ہراساں کیا جانا بھی ذہنی دباؤ کی وجہ ہے۔ گھٹن زدہ ماحول اور طرح طرح کا خوف عورتوں کو ڈپریشن کے ساتھ ذہنی مریض بنا رہا ہے اور خود کشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کی ذہنی صحت سے متعلق اعداد و شمار تشویش ناک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے صحت و ذہنی امراض سے متعلق اداروں کی بعض رپورٹوں کے مطابق نفسیاتی معالج سے رجوع کرنے والوں میں دو تہائی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان کو کوئی دماغی مرض لاحق نہ ہو تو بھی یہ شدید اسٹریس یا ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔
خواتین ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ آج بھی پدر سری سماج میں عورت کو اس کی ذہانت، قابلیت اور سلیقہ شعار و باتمیز ہونے سے زیادہ اس کی ظاہری خوب صورتی کی بنیاد پر سراہا جاتا ہے۔
علی عباس جلال پوری نے کہا تھاکہ ''مرد ذہین، حسین لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں کہ اس سے ان کے احساسِ برتری کو ٹھیس لگتی ہے۔'' اسی تناظر میں دیکھا جائے تو مرد کبھی عورت کی برتری قبول نہیں کرتا۔ وہ اس کی خود مختاری، اور آزادی کو نہیں مانتا، اسے کسی معاملے میں خود سے جواب طلب کرتی عورت پسند نہیں بلکہ اسے اپنی انا پر ضرب تصور کرتا ہے۔ اسی رویے اور مزاج کے حامل مرد دفاتر اور کام کی جگہوں پر عورت کے لیے مسئلہ بنتے ہیں۔ ان کا منفی رویہ اور پروپیگنڈہ، مسلسل حوصلہ شکنی عورت کو شدید دباؤ میں رکھتی ہے اور وہ چڑچڑی اور جارحانہ مزاج کی ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ اس کی شخصیت کا حصّہ بن جاتا ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آگے نکل جائے تو یہ بھی برتری اور تفاخر میں مبتلا مرد سے برداشت نہیں ہوتا۔ دفاتر میں رکیک باتوں، طنزیہ جملوں کے علاوہ اس ترقی کو گھٹیا اور پست ذہنیت افسرِ اعلیٰ کی خاص کرم نوازی سمجھتے ہیں۔ یعنی دفتر میں عورت کا کسی اہم عہدے پر فائز ہونا اور ترقی کرنے کا مطلب قابلیت اور صلاحیت نہیں عورت کے کردار کی کم زوری ہوسکتا ہے۔
جہاں تک خواتین کی صلاحیتوں اور ان کی قابلیت کا تعلق ہے تو وہ سائنس ہو، آرٹس یا مختلف شعبے ان میں خود کو منوا رہی ہیں اور ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مگر پسماندہ سوچ کے حامل معاشرے میں انہیں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے باوجود وہ مقام نہیں ملتا جس کی وہ حق دار ہیں۔ دفاتر،کارخانوں، تعلیمی اداروں غرض ہر جگہ خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے جس نے اسے ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ادھر گھر کے مردوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ عورت کا دفتر میں اپنے ساتھی سے بات چیت کرنا، کھانا پینا اور ترقی حاصل کرنا ان کی نظروں میں مشکوک ہوجاتا ہے۔ بیوی، بہن اور بیٹی سے مختلف سوالات کرنے کے باوجود گھر کے مرد مطمئن نہیں ہوتے اور یہ بات عورت کو سب سے زیادہ کم زور بناتی ہے۔ یہ مسئلہ اچھے خاصے باشعور اور تعلیم یافتہ مردوں کا بھی ہے۔
عورت کی عزت کرنا، اس کے وقار اور احترام کو ملحوظ رکھنا اور اپنی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے کسی بھی گھر کی عورت کے ساتھ یکساں سلوک، رویہ اور تہذیبی برتاؤ ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں ملازمت پیشہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا عام بات ہے جو ان کے اعتماد اور عزت نفس کو بری طرح مجروح کرتا ہے اور خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے کام اور شعبے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے خود کو کسی اسکینڈل سے دور رکھنے، مردوں سے محفوظ رہنے کا سوچتی رہتی ہیں اور یوں دفاتر میں ان کی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور یہی سب ان کی ذہنی حالت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
آج ہم سنتے ہیں کہ پاکستانی عورت زیادہ بااختیار اور آزاد بھی ہے، لیکن جائزہ لیا جائے تو یہاں صورتِ حال پہلے جیسی ہی ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت کو ظاہری طور پر تو بااختیار اور عملی میدان میں متحرک کردیا گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ خواتین چاہے گھر میں ہوں یا پبلک ٹرانسپورٹ اور کام کی جگہوں پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناانصافی جاری ہے۔ حق تلفی اور ناانصافی کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کی مختلف شکلوں نے ان سے جینے کی امنگ چھین لی ہے اور وہ مشینی انداز میں اپنا کام کررہی ہیں۔ گھر اور گھر سے باہر بھی پاکستانی عورت عدم تحفظ کا شکار ہے۔
خواتین کو درپیش طبقاتی، نفسیاتی مسائل کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے جسے حل کرنے کے لیے ہر با شعور مرد اور عورت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ عورتوں کے خود مختار اور آزاد ہونے سے مراد صرف گھر کے مردوں کے بغیر بازار جانا، اور کسی ادارے میں ملازمت کر لینا نہیں، بلکہ ان کا عدم تحفظ کا احساس دور کرنا اور ذہنی صحت اور امراض کے ساتھ عورتوں کو نفسیاتی دباؤ سے آزاد کرنا ہو گا تبھی یہ معاشرہ ترقی اور خوش حالی کے اہداف پورے کرسکے گا۔
آج کی عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہے اور وہ ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند بلند کرسکتی ہے۔ روایتی ذرایع ابلاغ کے پھیلاؤ کے ساتھ اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بدولت اس نے سیکھ لیا ہے کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف کہاں اور کب آواز بلند کرنا ہے جس کی ایک واضح مثال ہیش ٹیگ 'می ٹو' ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آواز بلند کرنے والی پاکستانی عورت کو اس کا حق اور انصاف ملا؟
کہہ سکتے ہیں کہ آج کی عورت تعلیم و روزگار سے متعلق فیصلے، یا اظہارِ رائے میں نسبتاً آزاد ہے۔ وہ تعلیم یافتہ ہے تو اپنی ڈگری کے بل پر ملازمت بھی کرتی ہے، اسی طرح آن لائن ذرایع آمدن اپنا رہی ہے اور مارکیٹ اور شاپنگ سینٹروں میں بھی معاشی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے، اس کے مختلف تعلیم و ہنر سیکھنے میں حائل رکاوٹیں کم ہوئی ہیں، لیکن اوّل تو یہ مجموعی صورتِ حال نہیں اور دوسری طرف کیا آج کی عورت کو اپنی ساری ریاضت، محنت، بھاگ دوڑ اور مشقت کے بعد ہر سطح پر امتیازی سلوک سے نجات مل گئی ہے؟ وہ مختلف شعبوں میں اہلیت کے مطابق ترقی، یکساں اجرت اور مراعات حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی ہے؟ نہیں، افسوس ایسا نہیں ہے!
شہری علاقوں کی عورت کی بات کریں تو کم آمدنی والے گھرانوں میں معاشی مسائل کی وجہ سے خواتین ملوں، فیکٹریوں اور دفاتر میں معمولی نوکری اور کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں، مگر کسی نہ کسی طرح کنبے کی کفالت اور اپنی ضروریات پوری کررہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی دیہاتی عورت جو دست کاری اور زراعت جیسے اہم شعبے میں اپنا کردار نبھا رہی ہے اور گھریلو صنعتیں اسی کے دم سے رواں ہیں، دن رات ایک کر دینے اور ذمہ داری سے کام کرنے کے باوجود مناسب اجرت، مقام و مرتبے اور سماجی حیثیت سے محروم ہے۔ شہری علاقوں کی ملازمت پیشہ خواتین کو اگر ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولتوں، مردوں کے برابر تعلیمی قابلیت رکھنے کے باوجود کم تنخواہ کا مسئلہ ہے تو دیہات میں خواتین کو انتہائی کم اجرت اور نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاکہ شہر ہوں یا دیہات ہر جگہ عورت کو صنفی امتیاز، نامناسب سلوک کا سامنا ہے اور وہ استحصال کا شکار ہے۔
ملک کی یہ نصف سے زائد آبادی یعنی عورت چاہے شہر کی ہو یا دیہات کی، گھر کی چار دیواری سے باہر روزگار اور معاشی سرگرمی انجام دینے کے بعد جب واپس لوٹتی ہے تو ایک اور ذمہ داری نبھانے کے لیے کمر کس لیتی ہے۔ آٹھ، بارہ اور بعض اوقات سولہ سولہ گھنٹے تک دفاتر، کارخانوں میں کام کرکے لوٹنے والی عورتوں کو گھر لوٹتے ہی کچن سنبھالنا پڑتا ہے۔ اسے کھانا پکانے، گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر بچوں کی دیکھ بھال اور ایسے بے شمار کام کرنا پڑتے ہیں جن کا تصور ہی شاید صنفِ قوی کے لیے محال ہے۔
دوسری طرف اس کا مجازی خدا اپنے کام سے واپس آنے کے بعد پانی پینے کے لیے بھی نہیں اٹھنا چاہتا۔ عورت تو مرد کا معاش کے حوالے سے اور دیگر ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹا رہی ہے۔ وہ ملازمت پیشہ بھی ہے، کھیتوں میں بھی کام کرتی ہے اور باہر جاکر سودا سلف لانے کو بھی تیار ہے، لیکن کتنے مرد ایسے ہیں جو عورت کی ذمہ داریاں بانٹتے ہیں؟ اس کے ساتھ گھر کے کاموں میں شریک ہوتے ہیں؟ موجودہ دور میں بھی جب دنیا جدید آلات کے ساتھ ترقی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے ہمارے سماج میں عورت کی حیثیت کسی بار بردار جانور کی سی ہے جس کا مالک غذا، خوراک، صحت اور آرام کا خیال رکھنے کے بجائے صرف بوجھ اٹھوائے جاتا ہے۔
بدقسمتی دیکھیے کہ اس دہری مشقت کا نہ تو صلہ ملتا ہے نہ ہی اس محنت کا معاوضہ ملتا ہے۔ دراصل اس معاشرے اور نظام میں عورت کی یہ محنت اور مشقت شمار ہی نہیں ہوتی جو وہ گھر کو بنانے اور اپنے کنبے اور اہلِ خانہ کے لیے کرتی ہے۔ اس بے حسی نے عورت کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ پاکستان میں عورتوں میں ذہنی دباؤ کے باعث صلاحیتوں اور ان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دفاتر و دوسرے کاموں میں محنت مشقت کے باوجود بہتر معاوضہ اور تنخواہ نہ ملنا، گھروں میں ذہنی اور جسمانی تشدد کے علاوہ کام کی جگہوں، بس اسٹاپ اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مردوں کا خوف اور ہراساں کیا جانا بھی ذہنی دباؤ کی وجہ ہے۔ گھٹن زدہ ماحول اور طرح طرح کا خوف عورتوں کو ڈپریشن کے ساتھ ذہنی مریض بنا رہا ہے اور خود کشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کی ذہنی صحت سے متعلق اعداد و شمار تشویش ناک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے صحت و ذہنی امراض سے متعلق اداروں کی بعض رپورٹوں کے مطابق نفسیاتی معالج سے رجوع کرنے والوں میں دو تہائی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان کو کوئی دماغی مرض لاحق نہ ہو تو بھی یہ شدید اسٹریس یا ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔
خواتین ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ آج بھی پدر سری سماج میں عورت کو اس کی ذہانت، قابلیت اور سلیقہ شعار و باتمیز ہونے سے زیادہ اس کی ظاہری خوب صورتی کی بنیاد پر سراہا جاتا ہے۔
علی عباس جلال پوری نے کہا تھاکہ ''مرد ذہین، حسین لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں کہ اس سے ان کے احساسِ برتری کو ٹھیس لگتی ہے۔'' اسی تناظر میں دیکھا جائے تو مرد کبھی عورت کی برتری قبول نہیں کرتا۔ وہ اس کی خود مختاری، اور آزادی کو نہیں مانتا، اسے کسی معاملے میں خود سے جواب طلب کرتی عورت پسند نہیں بلکہ اسے اپنی انا پر ضرب تصور کرتا ہے۔ اسی رویے اور مزاج کے حامل مرد دفاتر اور کام کی جگہوں پر عورت کے لیے مسئلہ بنتے ہیں۔ ان کا منفی رویہ اور پروپیگنڈہ، مسلسل حوصلہ شکنی عورت کو شدید دباؤ میں رکھتی ہے اور وہ چڑچڑی اور جارحانہ مزاج کی ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ اس کی شخصیت کا حصّہ بن جاتا ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آگے نکل جائے تو یہ بھی برتری اور تفاخر میں مبتلا مرد سے برداشت نہیں ہوتا۔ دفاتر میں رکیک باتوں، طنزیہ جملوں کے علاوہ اس ترقی کو گھٹیا اور پست ذہنیت افسرِ اعلیٰ کی خاص کرم نوازی سمجھتے ہیں۔ یعنی دفتر میں عورت کا کسی اہم عہدے پر فائز ہونا اور ترقی کرنے کا مطلب قابلیت اور صلاحیت نہیں عورت کے کردار کی کم زوری ہوسکتا ہے۔
جہاں تک خواتین کی صلاحیتوں اور ان کی قابلیت کا تعلق ہے تو وہ سائنس ہو، آرٹس یا مختلف شعبے ان میں خود کو منوا رہی ہیں اور ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مگر پسماندہ سوچ کے حامل معاشرے میں انہیں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے باوجود وہ مقام نہیں ملتا جس کی وہ حق دار ہیں۔ دفاتر،کارخانوں، تعلیمی اداروں غرض ہر جگہ خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے جس نے اسے ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ادھر گھر کے مردوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ عورت کا دفتر میں اپنے ساتھی سے بات چیت کرنا، کھانا پینا اور ترقی حاصل کرنا ان کی نظروں میں مشکوک ہوجاتا ہے۔ بیوی، بہن اور بیٹی سے مختلف سوالات کرنے کے باوجود گھر کے مرد مطمئن نہیں ہوتے اور یہ بات عورت کو سب سے زیادہ کم زور بناتی ہے۔ یہ مسئلہ اچھے خاصے باشعور اور تعلیم یافتہ مردوں کا بھی ہے۔
عورت کی عزت کرنا، اس کے وقار اور احترام کو ملحوظ رکھنا اور اپنی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے کسی بھی گھر کی عورت کے ساتھ یکساں سلوک، رویہ اور تہذیبی برتاؤ ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں ملازمت پیشہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا عام بات ہے جو ان کے اعتماد اور عزت نفس کو بری طرح مجروح کرتا ہے اور خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے کام اور شعبے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے خود کو کسی اسکینڈل سے دور رکھنے، مردوں سے محفوظ رہنے کا سوچتی رہتی ہیں اور یوں دفاتر میں ان کی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور یہی سب ان کی ذہنی حالت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
آج ہم سنتے ہیں کہ پاکستانی عورت زیادہ بااختیار اور آزاد بھی ہے، لیکن جائزہ لیا جائے تو یہاں صورتِ حال پہلے جیسی ہی ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت کو ظاہری طور پر تو بااختیار اور عملی میدان میں متحرک کردیا گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ خواتین چاہے گھر میں ہوں یا پبلک ٹرانسپورٹ اور کام کی جگہوں پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناانصافی جاری ہے۔ حق تلفی اور ناانصافی کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کی مختلف شکلوں نے ان سے جینے کی امنگ چھین لی ہے اور وہ مشینی انداز میں اپنا کام کررہی ہیں۔ گھر اور گھر سے باہر بھی پاکستانی عورت عدم تحفظ کا شکار ہے۔
خواتین کو درپیش طبقاتی، نفسیاتی مسائل کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے جسے حل کرنے کے لیے ہر با شعور مرد اور عورت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ عورتوں کے خود مختار اور آزاد ہونے سے مراد صرف گھر کے مردوں کے بغیر بازار جانا، اور کسی ادارے میں ملازمت کر لینا نہیں، بلکہ ان کا عدم تحفظ کا احساس دور کرنا اور ذہنی صحت اور امراض کے ساتھ عورتوں کو نفسیاتی دباؤ سے آزاد کرنا ہو گا تبھی یہ معاشرہ ترقی اور خوش حالی کے اہداف پورے کرسکے گا۔