قرآن ایک صحیفۂ انقلاب
اﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک نے انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے انبیاء و رُسل کے ساتھ اپنی کتابیں بھی بھیجیں...
اﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک نے انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے انبیاء و رُسل کے ساتھ اپنی کتابیں بھی بھیجیں تاکہ رسول ان کتابوں کے ذریعے اپنی اپنی امتوں کو اس دنیا میں زندگی بسر کر نے کے طریقے سکھائیں۔
ایسے کاموں کے کرنے کا حکم دیں جو اللہ عزوجل کی رضا کا ذریعہ ہوں اور ان کاموں سے بچنے کی تاکید کریں جو مالک حقیقی کی مرضی کے خلاف ہوں۔ یعنی یہ کتابیں انسانوں کے لیے دستور العمل، ضابطہ ٔ حیات اور قانونِ زندگی ہیں، جن کے معلم انبیاء کرام و رسل عظام علیہم السلام ہیں۔
رُسلِ عظام صرف ان کتابوں کے پہنچانے والے نہیں بلکہ ان کو سکھانے والے بھی ہیں اس لیے اُن کی تعلیم و تربیت خود خدائے بالا و برتر فرماتا ہے۔ رسول نہ تو دنیا کے علماء سے علم حاصل کرتا ہے اور نہ ہی وہ دنیا کی کتابوں کا محتاج ہوتا ہے، وہ تو رب کی کتاب کا معلّم ہوتا ہے، لہٰذا رب تعالیٰ ہی اس کو اس منصب کا اہل بناتا ہے، ایسا علم عطا فرماتا ہے کہ اُمت کا کوئی فرد اس کے علم کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کر پاتا، رسول کا ہر عمل، اس کی ہر ادا خدا کی کتاب کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: '' بے شک تمہاری راہ نمائی کے لیے اﷲ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔'' (الاحزاب21:)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے حضور نبی اکرمؐ کی عادات و اطوار کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے یہی فرمایا کہ، '' کردارِ رسول ﷺ قرآن کے عین مطابق تھا۔''
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ضرورت کے مطابق ہر دور میں اپنی کتابیں نازل فرمائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو ''زبور'' دی گئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ''تورات '' ملی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ''انجیل'' لے کر آئے۔ ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی کتابیں تھی، لیکن یہ کتابیں ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ خاص زمانے اور خاص اُمتوں کے لیے تھیں۔ جو رسول یہ کتابیں لے کر آئے انہوں نے خود کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی کتا بیں ہر دور کے انسانوں کے لیے دستورالعمل ہیں۔ انہوں نے تو یہ بھی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی رسالت عام ہے اور وہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رسول ہیں، بلکہ ان کی کتابوں نے نبی آخر الزماںﷺ کی آمد کی خبر دی۔
الغرض اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام کتابیں اﷲ ہی کی طرف سے نازل کی گئیں تھیں، لیکن محدود وقت اور مخصوص قوم کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ کتابیں اپنی اصل حالت میں کہیں نہیں ملتیں، حتیٰ کہ جن زبانوں میں یہ کتابیں نازل ہوئیں، آج دنیا میں ان زبانوں کا بولنے والا، جاننے والا کوئی نہیں رہا، پس اب اللہ کے بندوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی صرف ایک ہی کتا ب ہے، جو آخری کتاب ہے، جو پیغمبر آخر الزماں حضور محمد مصطفیٰؐ پر نازل ہوئی۔ یہی مسلمانوں کا ضابطۂ حیات اور دستورالعمل ہے اور یہ آج تک اُمت مسلمہ کے پاس اصلی حالت میں موجود ہے۔
اس کا ایک ایک حرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد مصطفیﷺ پر نازل فرمایا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کر یں، اس کا ادب و احترام کریں، اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں۔ قرآن کریم نہایت معتبر و محتاط ذریعے سے نبی کریم علیہ السلام پر تیئیس سال تک نازل ہوتا رہا ۔ پہلی وحی غارِ حرا میں نازل ہوئی جو سورہء اقراء کی پانچ آیتیں تھیں۔ اس کے بعد تقریباً تین سال تک سلسلہ وحی منقطع رہا، پھر سورہء مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور قرآن کریم کے نزول کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا یا جب اللہ کے بندوں کو اس کے حکم کا انتظار ہو تا تو جبرئیل امینؑ حضور نبی اکرمؐ کے دربار میں اﷲ کا پیغام لے کر حاضر ہو جاتے۔
قرآن کریم، دنیا کے اس حصے عرب میں نازل ہوا جو ہر اعتبار سے بنجر اور اجڑا ہوا تھا۔ تہذیب و تمدن، عدل و انصاف نام کی کسی شے کا وجود نہ تھا۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصول چلتا تھا۔ ان کے یہاں معزز ترین شخص وہ ہوتا تھا جو سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا۔ خواتین ہر طرح کے حقوق سے محروم تھیں۔ غرض یہ کہ نزول قرآن کا ماحول جہالت اور ظلم و ستم کا دور تھا لیکن قرآن نازل ہوا گویا بنجر زمین پر رحمت باری کی ایسی بارش برسی کہ اس کے کانٹے پھول بن گئے، اس کے پتھر ہیرے، جواہرات میں تبدیل ہو گئے۔ غیر مہذب انسانوں نے دنیا کو تہذیب سکھائی، ظلم و ستم کرنے والے عدل و انصاف کا نمونہ بن گئے۔ اپنے لیے دوسروں کو قربان کر نے والے ایثار و قربانی کا پیکر بن گئے۔ غلام آقا ہوگئے، کم زوروں کو قوت مل گئی، آپس میں لڑنے والے بھائی بھائی ہو گئے، رنگ ونسل زبان کے فرقوں میں بکھرے ہو ئے جمع ہو کر ایک مضبوط قوم بن گئے۔ قرآن کیا آیا ایک انقلاب آیا، صرف اہل مکہ یا اہل عرب میں نہیں بلکہ بنی نوع انسان میں انقلاب آیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: '' رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا یہ (قرآن) لوگوں کو حق کا راستہ دکھاتا ہے اور (اس میں) ہدایت کی روشن دلیلیں ہیں اور حق اور باطل کو علیحدہ علیحدہ کر نے والا ہے۔ '' (البقرۃ،182)
بنی نوع انسان کی ہدایت، رہبری ہی نزول قرآن کا مقصد ہے، اس میں دلائل کی یہ قوت بھی موجود ہے کہ وہ اپنے دعووں کو حق اور ہدایت کا ذریعہ ثابت کر سکے۔ یہ ایک ایسا نور بن کر آیا ہے جس سے اچھائی برائی، حق و باطل کا فرق بالکل واضح ہو گیا۔