بارہویں صدر کا انتخاب جمہوریت کا تسلسل
ممنون حسین کو وزیراعظم نواز شریف کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ انھیں منصب گورنری سے آگے بڑھاکر مسند۔۔۔
ممنون حسین کو وزیراعظم نواز شریف کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ انھیں منصب گورنری سے آگے بڑھاکر مسند صدارت تک پہنچادیا جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا عہدہ اور منصب ہے، مگر ان پر سب سے بڑا فضل و کرم اور احسان باری تعالیٰ کا ہے کیونکہ عزت اور ذلت صرف اسی ذات باری کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ممنون حسین بذات خود بھی بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں، مگر بات پھر اس نکتہ پر آ کر ٹھہرتی ہے کہ دیگر تمام اسباب اپنی جگہ مگر انسان کی زندگی میں قسمت کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور ہما اسی کے سر پر جا کر بیٹھتا ہے جو مقدر کا سکندر ہو۔
ہم چونکہ ممنون صاحب کے ماضی سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں اور ان کے خاندانی پس منظر سے بھی آگاہ ہیں اس لیے ان کے ملک کا بارہواں صدر منتخب ہونے پر فرحاں و شاداں بھی ہیں۔ ان کے سابقہ گھر سے ہمارے اپنے گھر کا فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے جسے انگریزی میں Walking Distance کہا جاتا ہے۔ یہ گویا کل کی سی بات ہے، ان کے گھرانے کا تعلق برصغیر کے مشہور شہر آگرہ سے ہے جو کسی زمانے میں مغلیہ سلطنت کا دارالخلافہ بھی رہا ہے اور جو دنیا کے ساتویں عجوبے تاج محل کی وجہ سے چار دانگ عالم میں مشہور ہے۔ بقول شاعر:
یارو جو تاج گنج یہاں آشکار ہے
مشہور اس کا نام یہ شہر و دیار ہے
اس کے علاوہ آگرہ کی ایک ادبی اہمیت بھی ہے کیونکہ اردو کے تین نابغۂ روزگار شعراء میر تقی میر، مرزا اسد اﷲ غالب اور عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا جنم استھان بھی آگرہ ہی ہے۔ ان میں سے دو اول الذکر شاعروں کا بچپن بھی وہیں گزرا اور بعد میں یہ دونوں ہجرت کرکے دلی چلے آئے جہاں آ کر ان کی شہرت اور مقبولیت کے ڈنکے بجے، اکبر آباد آگرہ کا دوسرا نام ہے جس کی وجہ تسمیہ اس شہر میں شہنشاہ جلال الدین اکبر کا قیام پذیر ہونا ہے جس کے قریب ہی سکندرہ کے مقام پر اس مغلیہ تاجدار کی آخری آرام گاہ بھی واقع ہے اس کے علاوہ آگرہ کی شہرت کی کئی کاروباری وجوہات بھی ہیں جن میں جوتے کے کاروبار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ممنون حسین کا گھرانہ بھی آگرہ میں اسی کاروبار سے وابستہ تھا، یہ اور بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد یہ گھرانہ کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہو گیا۔ علمی اور دینی اقدار اس عظیم گھرانے کا طرہ امتیاز ہیں اور شرافت و نجابت اس گھرانے کے تمام افراد کی بنیادی شناخت ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اس گھرانے کو جس عظمت سے نوازا ہے اس میں ان اوصاف کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔
یہ بھی ایک حسن اتفاق ہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا تعلق بھی شہر قائد کراچی سے ہی ہے اور وہ بھی دلی کے اعلیٰ گھرانے کے چشم و چراغ اور عالی دماغ شخصیت کے حامل ہیں۔ منصب صدارت کے تیسرے امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی بھی بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں اور اگرچہ وہ اردو بولنے والے نہیں ہیں لیکن ان کا مسکن بھی شہر کراچی ہی ہے، اس اعتبار سے منصب صدارت کے حوالے سے اس مرتبہ کراچی کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔
صدر ممنون حسین انتہائی شریف النفس، منکسرالمزاج اور مرنجان مرنج قسم کے انسان ہیں اور غرور و تکبر انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا ہے۔ شاید اﷲ تعالیٰ کو ان کی یہی ادا اتنی پسند آ گئی کہ پہلے انھیں گورنر کے عہدے پر مامور کر دیا اور اب منصب صدارت پر سرفراز کر دیا۔ 1965ء میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میدان سیاست میں بھی قدم رنجہ فرمایا اور مسلم لیگ کے ایک عام کارکن کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا، 1967ء میں وہ مسلم لیگ کراچی کے جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی و کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 19 جون1997ء کو صوبہ سندھ کے گورنر بنا دیے گئے، اس کے علاوہ وہ مسلم لیگ ن سندھ کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی رہے۔
ممنون حسین فطرتاً ایک نہایت Down to earth قسم کے دھیمے مزاج کے سنجیدہ شخص ہیں اور سادگی ان کے مزاج کی سب سے بڑی خوبی ہے، چنانچہ جب انھوں نے گورنر ہائوس میں قدم رکھا تھا تو گورنر ہائوس کے باورچی خانہ میں نمایاں کمی واقع ہو گئی تھی، ہمیں یقین ہے کہ جب وہ ایوان صدر میں داخل ہو جائیںگے تو وہاں کے کچن کے اخراجات میں بھی ویسی ہی کمی اور کفایت شعاری واقع ہو گی اور صدر غلام اسحاق خان (مرحوم) کے دور کفایت شعاری کی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔
کراچی کی تاجر برادری میں بھی ممنون حسین کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور وہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کی حیثیت سے بھی اپنی خوبیوں کا لوہا منوا چکے ہیں تاہم Low profile میں رہتے ہوئے بڑے سے بڑے کام کرنا ان کے مزاج کا حصہ اور ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ہے، بلا شبہ وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک ہیں اور سیاست میں رہتے ہوئے بھی سیاسی آلودگیوں سے پاک ہیں۔ وہ شہرت اور دولت کے بھوکے بھی نہیں ہیں اور بڑے شاکر و صابر اور قناعت پسند انسان ہیں اس حوالے سے وہ اپنے پیش رو کے بالکل الٹ ہیں اور امید ہے کہ وہ ایوان صدر میں داخل ہونے کے بعد ملک و قوم کے لیے بدنامی اور رسوائی کے بجائے نیک نامی کا باعث ہوں گے اور ماضی میں صدارتی منصب کی بگڑی ہوئی ساکھ کی بحالی کا سبب بنیں گے ہمیں قوی امید ہے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین کا مستقبل بھی بحیثیت صدر مملکت ہر قسم کی آلائشوں سے پاک رہے گا اور ان کی ذات سے صدارتی منصب کی قدر و منزلت میں نمایاں طور پر اضافہ ہو گا، اس حوالے سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے محسن انتخاب کی جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے۔
ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد ممنون حسین وہ تمام تقاضے بھی احسن طریقے سے پورے کریں گے جن کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ وہ بذات خود بھی یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ صدر مملکت بننے کے بعد ان کا کردار قطعی غیر جانب دارانہ ہو گا اور وہ ہمیشہ اپنے عہدہ اور منصب کی لاج رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ آئین کے بدنام زمانہ آرٹیکل (B) 258 کے خاتمے کے بعد صدارتی اختیارات کے آمرانہ استعمال کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے تاہم ہوس اقتدار کا مزاج نہ رکھنے والے ممنون حسین سے بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہر طرح کی سیاسی غلاظت اور آلودگی سے اپنے دامن کو پاک اور صاف رکھنے کی مقدور بھر کوشش کریں گے اور ماضی کی طرح آیندہ بھی ہر معاملے میں دیانت داری، خوف خدا، حب الوطنی اور غیر جانب دار کے ساتھ ساتھ اپنی روایتی ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے، امید ہے کہ میڈیا بھی ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گا۔
پاکستان کی ماضی کی سیاسی تاریخ اور صدارتی انتخاب کے مد نظر ملک کے بارہویں صدر کی حیثیت سے ممنون حسین کا جمہوری طریقے سے منتخب ہونا جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے ایک نیک شگون اور مثبت پیشرفت ہے، کیونکہ ماضی میں5 صدر ایسے تھے جن کا تعلق فوج سے تھا اور جو غیر جمہوری مہم جوئی کے ذریعے منصب صدارت تک پہنچے تھے۔ اس حوالے سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ صدارتی انتخاب کے ساتھ جمہوریت کے تسلسل کا ایک اور سفر مکمل ہو گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا یہ فیصلہ بھی لائق تحسین ہے کہ اس نے صدارتی انتخاب کے لیے اپنے امیدوار کو میدان میں اتار کر مثبت سیاسی عمل کو آگے بڑھا کر اپنی بالغ النظری اور جمہوریت پسندی کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔
کاش! جمہوریت کی سب ے بڑی دعویدار سیاسی جماعت بھی ضبط و تحمل سے کام لے کر اپنے عمل کے ذریعے اپنی جمہوریت نوازی کا ثبوت پیش کرتی اور صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے سارے کا سارا مزہ کرکرا کرنے سے گریز کرتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کی وجہ سے صدارتی انتخاب کا حسن متاثر ہوا اور یہ اہم انتخاب ناحق متنازعہ کا شکار ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی صدر کے انتخاب سے راہ فرار اختیار کرنا نہایت افسوسناک اور غیر جمہوری امر ہے، کاش ایسا نہ ہوتا اور دنیا کو یہ پیغام جاتا کہ پاکستان میں جمہوریت کا پودا جڑ پکڑ رہا ہے اور جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے، تاہم یہ امر انتہائی لائق تحسین و ستائش ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سابقہ حلیف سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن کے لیے صدارتی امیدوار ممنون حسین کی غیر مشروط حمایت کر کے اپنی سیاسی بلوغت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے۔