منشور مانیٹرنگ کمیشن کی ضرورت

پسماندہ ملکوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والے سادہ لوح عوام کو سیاست اور جمہوریت کے۔۔۔


Zaheer Akhter Bedari August 04, 2013
[email protected]

پسماندہ ملکوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والے سادہ لوح عوام کو سیاست اور جمہوریت کے اسرار و رموز سے آگاہ کیاجائے اور ان میں اتنا سیاسی شعور پیدا کیاجائے کہ وہ اپنی پراسرار جمہوریت کے اسرار ورموز سے واقف ہوجائیں اور اپنی اجتماعی طاقت اور اپنے ووٹ کی طاقت کے صحیح استعمال کے قابل ہوجائیں تاکہ جمہوریت کے نام پر انھیں بے وقوف بنانے کا سلسلہ ختم ہوسکے، جمہوری سیاست میں ویسے تو بہت ساری اصطلاحیں موجود ہیں اور مزید ایجاد کی جارہی ہیں لیکن ان اصطلاحوں میں ایک اصطلاح ''مینڈیٹ'' بہت معروف ہے جس کا استعمال پاکستانی سیاست میں اس دھڑلے سے کیاجاتاہے کہ یہ اصطلاح پاکستانی شعبۂ صنعت کی معروف اصطلاح ٹھیکیداری سسٹم کی جڑواں بہن لگتی ہے۔

مینڈیٹ کا مطلب وہ اختیار ہوتا ہے جو عوام اپنے ووٹ کے ذریعے کسی جماعت کو دیتے ہیں، یہ اختیار در اصل حکمرانی کا وہ حق ہوتا ہے جو الیکشن میں عوام کسی جماعت کو دیتے ہیں، جب کوئی جماعت عوام کے دیے ہوئے اس اختیارکو استعمال کرتے ہوئے برسر اقتدار آتی ہے تو وہ اس اختیارکی اس طرح مالک بن جاتی ہے کہ اسے جس طرح چاہے استعمال کرتی ہے اس جماعت یا اس کی قیادت کو یہ احساس تک نہیں رہتا کہ عوام کا دیا ہوا یہ مینڈیٹ غیر مشروط نہیں ہوتا بلکہ اس جماعت کے منشور اور اس جماعت کے رہنمائوں کے ان وعدوں سے مشروط ہوتاہے جو وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے کرتے ہیں۔

اگر کوئی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدوں کو پس پشت ڈال کر من مانی کرنے لگتی ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے عوام کے مسائل میں اس قدر اضافہ کردیتی ہے کہ عوام کا سانس لینا دو بھر ہوجاتاہے تو ایسی جماعت سے مینڈیٹ واپس لینے یا اسے اقتدار سے الگ کرنے کا آئینی راستہ یہی رہ جاتاہے کہ اپوزیشن کی طرف سے اس کے خلاف ایوان میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ بظاہر یہ طریقہ بڑا آسان نظر آتا ہے لیکن کرپٹ سیاست، کرپٹ جمہوریت میں یہ آسان طریقہ اس لیے مشکل ہوجاتاہے کہ جیسے ہی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتی ہے حکمران ہارس ٹریڈنگ کی منڈیاں سجاکر عوام کے منتخب نمایندوں کی منہ بولے داموں پر اس طرح خریداری شروع کردیتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد تحریک اعتماد میں بدل جاتی ہے اور حکمرانوں کی حکمرانی کو اور زیادہ پکا کردیتی ہے۔

اگر اہل علم، اہل دانش اس بد دیانتی اور عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کا گلہ کرتے ہیں تو حکمرانوں کا ایک ہی جواب ہوتاہے کہ اگلے الیکشن تک انتظار کیجیے کیونکہ الیکشن ہی حکمرانوں کا صحیح احتساب کرتے ہیں، یہ دعویٰ یا فلسفہ حقائق اور تجربات کی روشنی میں اس لیے فراڈ ثابت ہوتاہے کہ عوام کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا وہی چہرے وہی جماعتیں وہی وعدے ان کے سامنے موجود ہوتے ہیں جن میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا عوام کی مجبوری ہوتی ہے اورپچھلے 35سالوں سے عوام اس مجبوری کا شکار ہیں۔

زرداری حکومت کی نا کامی کا شکوہ تو ہر سیاست دان کی زبان پر رہا بلکہ بعض ''ایماندار سیاستدانوں'' کی طرف سے زرداری حکومت کی کرپشن کے حوالے سے علی بابا چالیس چوروں کے خطاب سے بھی نوازا گیا لیکن اسے آئینی یا غیر آئینی طریقوں سے ہٹانے کے بجائے اس عذرلنگ کا سہارا لیاگیا کہ اس حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دینا اسی لیے ضروری ہے کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اس قسم کی باتیں کرنے والے اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ ایک نااہل کرپٹ حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دینے کا مطلب نا اہلی اور کرپشن کو مضبوط کرنا ہوتا ہے؟ اس قسم کی رعایتی سیاست کا مقصد مستقبل میں اپنی نا اہلی اور بد دیانت حکمرانی کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔

نااہل اور کرپٹ حکومت سے جان چھڑانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں عوام کو سڑکوں پر لایاجائے، یہ طریقہ 1977میں آزمایا گیا لیکن ہوا یہ کہ ایک فوجی جنرل اقتدار پر قابض ہوگیا اور ایک لمبی مدت تک سیاست دان اقتدار کے مزے لوٹنے سے محروم ہوگئے، ماضی کے ان تلخ تجربات ہی کی وجہ سے سیاست دان عوام کو سڑکوں پر لانے سے گھبراتے ہیں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسائل کا پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو عوام سیاست دانوں کے بلانے کا انتظار نہیں کرتے، خود ہی سڑکوں پر آجاتے ہیں، ماضی میں انقلاب فرانس اس کی ایک بہترین مثال ہے، وہاں تو حال میں مشرف وسطیٰ کی عوامی تحریکیں اس کی بہترین مثال بنی ہوئی ہیں، مشکل یہ ہے کہ غیر منظم اور سیاسی نظریاتی قیادت سے محروم عوام کی یہ تحریکیں1789کے انقلاب فرانس میں بھی بے نتیجہ رہیں اور آج کے مشرق وسطیٰ کی زبردست عوامی تحریکیں اپنے منطقی انجام تک اس لیے نہیں پہنچ پارہی ہیں کہ یہ تحریکیںغیر منصوبہ بند اور نظریاتی قیادت سے محروم ہیں۔

سیاسی ارتقا کی تاریخ میں بلا شبہ جمہوریت کو ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام کہاجاسکتاہے لیکن جمہوریت کے اچھے برے پہلوئوں سے قطع نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ نظام کیوں اور کس نے ایجاد کیا اور اس کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ سماج میں آنے والی تبدیلیوں کا تعلق پیداواری رشتوں میں تبدیلیوں سے جوڑا جاتاہے، جاگیردارانہ نظام میں تبدیلی کی وجہ بھی پیداواری رشتوں میں تبدیلی ہی ہے، بھاپ کی دریافت کے بعد پیداواری رشتوں میں جو تبدیلی آئی اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آیا، اس نظام کے نظریاتی رہنمائوں نے اس نظام کے تحفظ کے لیے جو اوپری ڈھانچہ تشکیل دیا اس کا نام جمہوریت رکھا گیا اور اسے عوام خاص طورپر اہل علم، اہل فکر میں قابل قبول بنانے کے لیے اس کی تعریف یوں کی گئی ''عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے'' اس دلکش تعریف نے اہل علم، ا ہل فکر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ اس جمہوریت کو اپنے ایمان کا حصہ بناکر اس سے اس طرح چمٹ گئے کہ خدانخو استہ ان کے ہاتھوں سے یہ مقدس چیز نکل گئی تو قیامت آجائے گی۔

پھر اس کو جاذب نظر بنانے کے لیے اس میں بے شمار رنگ بھرے گئے، کہا گیا کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے پھر اسے پٹڑی سے اتارنے، پٹڑی پر چڑھانے کی دلچسپ اصطلاحیں ایجاد کی گئیں اور اس بنیادی حقیقت کو نظر اندازکردیاگیا کہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ کا کردار ادا کرتی ہے اور خود اپنی بتائی ہوئی تعریف پر بھی پوری نہیں اترتی صرف ''عوام کے ذریعے'' کی شرط بھی لشٹم پشٹم طریقے سے پوری کرتی ہے۔

انسانی مزاج ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہا ہے، آج کی نئی چیز کل کی پرانی چیز میں بدل جاتی ہے، سوال یہ پیداہوتی ہے کہ ہماری جمہوریت دو ڈھائی سو سال پرانی ہے اور خود اپنی تعریف پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے، پھر اس میں عوامی مفادات کے پیش نظر تبدیلی کیوں ممکن نہیں؟ سماجی ارتقا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جمہوریت کی تشکیل نو اس طرح کی جائے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے کے بجائے عوامی مفادات کے محافظ کا کردار ادا کرے، یہ کام سیاست دانوں کا نہیں بلکہ دانشوروں، منکروں، فلسفیوں اور ان سیاسی اکابرین کا ہے جو طبقاتی استحصال کے خلاف ہیں اور رائج الوقت جمہوریت کو ایلٹ کی شکار گاہ سمجھتے ہیں۔

یہ کام وقت طلب ہے کیا ہم اس نئی جمہوریت کے انتظار میں عوام کو بھوک، بے روزگار اور معاشی نا انصافیوں کا شکار ہوتے دیکھتے رہیں یا ایسے اقدامات کی طرف آئیں جن میں کم از کم برسر اقتدار آنے والی جماعتوں پر یہ پابندی ہوکہ وہ اپنے منشور، اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کریں، حکمران جماعتوں کو خود ان کے دیے ہوئے منشور اور ان کے کیے ہوئے وعدوں پر عمل در آمد کے لیے کس طرح مجبور کیاجاسکتاہے؟ یہی وہ سوال ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، کیا اس حوالے سے غیر سیاسی، غیر جانبدار اور معاشرے کے ممتاز اور قابل اعتبار افراد پر مشتمل ایک ایسا با اختیار کمیشن بنایاجاسکتاہے جس کا واحد کام حکمران جماعت کے منشور اور انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کرانا ہو، کیا اس قسم کے کسی کمیشن کو آئینی تحفظ کے ساتھ مستقل بنیادوں پر قائم کیاجاسکتاہے؟

اگرچہ اس قسم کا کوئی کمیشن ہماری اشرافیائی جمہوریت میں پائی جانے والی بے شمار خرابیوں کو تو ختم نہیں کرسکتا لیکن وہ اتنا ضرور کرسکتاہے کہ حکمران جماعت کو اس کے منشور اور انتخابی وعدوں پر عمل در آمد کا پابند بنادے۔ اگر کوئی جماعت یہ ذمے داری ایک مخصوص مدت میں پوری نہ کرسکے تو اس کمیشن کو یہ اختیار ہو کہ وہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کرے کہ وہ نئے الیکشن کا اہتمام کرے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اقتدار سے محرومی کا خوف حکمران جماعتوں کو اپنے منشور اور اپنے وعدوں پر عمل درآمد کے لیے مجبور کردے۔ اگر یہ تدبیر کارآمد سمجھی جائے تو پھر سول سوسائٹی، وکلاء، ڈاکٹرز، ٹریڈ یونین، انسانی حقوق کی تنظیموں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور صحافی تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ اس ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے متحرک ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔