رمضان کاروبار

لیجیے جناب! مہمان کی رخصت کے لمحات آن پہنچے۔ویسے یہ بھی اپنی نوعیت کا عجیب مہمان ہے۔

لیجیے جناب! مہمان کی رخصت کے لمحات آن پہنچے۔ویسے یہ بھی اپنی نوعیت کا عجیب مہمان ہے۔ سال میں ایک بار آتا ہے لیکن جاتے ہوئے میزبانوں کو اتنا کچھ دے جاتا ہے کہ پورا سال میزبان اس کے انتظار میں پلکیں بچھائے رہتے ہیں۔ پھر اس کے پاس اپنے ہرمیزبان کے لیے سب کچھ ہے... جسے جو چاہیے، اسے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کی تڑپ رکھنے والے تو اپنا گوہر مقصود جھولیاں بھر بھر حاصل کر ہی لیتے ہیں، یہ دنیا کی طلب رکھنے والوں کو بھی مایوس نہیں کرتا۔

خبر کے مطابق صرف شہر کراچی میں اس بار اس مہمان کے نام پر یہاں کے باسیوں نے اربوں روپے کا بزنس کیا ہے، جو ان آخری لمحات میں اپنی جوبن پر ہے۔ اور جوں جوں وقت رخصت قریب ہے، رمضان بزنس اپنے عروج کی انتہا پر پہنچ رہا ہے۔ جیسے ایک صاحب نے بتایا کہ جب سحری میں ان کے محلے کی مسجد سے روزے داروں کو اٹھانے اور سحری کھالینے کے اعلانات ہوتے ہیں تو بقول ان صاحب کے جیسے جیسے انتہائے سحر کا وقت قریب آتا ہے، اعلان کا ٹیمپو تیز ہوتا جاتا ہے... اب پانچ منٹ رہ گئے... اب تین منٹ رہ گئے... اور اب صرف ایک منٹ رہ گیا، جلدی کر لیں، جلدی کرلیں! ! وہ صاحب بتاتے ہیں کہ ان مسابقتی اعلانات کا نفسیاتی اثر ان پرایسا جوش طاری کر دیتا ہے کہ معدہ فل ہو نے کے باوجود، دو منٹ اور ایک منٹ کے آوازے انھیں مزید کچھ کھا لینے پر اکساتے ہیں... دو چمچ پھینی اور کھا لوں، گرمی کا روزہ ہے، ایک آدھ گلاس پانی اور پی لوں! یوں جب سائرنِ حد بندی بجتا ہے تووہ اتنا کچھ معدے میں انڈیل چکتے ہیں کہ سانس لینے کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔

بالکل اسی طرح جیسے جیسے ماہِ رمضان کی جدائی کے لمحات قریب آنے لگتے ہیں، پورے معاشرے کا ٹیمپو تیز ہونے لگتا ہے... آخری عشرے کی برکتیں لوٹنے کے واسطے ایک طرف اہل دل مساجد میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں ،(جن میں اکثریت گھروں کے ریٹائرڈ بابوں اور کم عمر لڑکوں کی ہوتی ہے ) تو دوسری طرف رمضان سیزن سے پوری طرح بہرہ مند ہونے کے لیے کاروباری طبقہ مارکیٹوں اور دکانوں میں ڈیرہ ڈال لیتا ہے۔بازاروں میں بلامبالغہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے ،جس کی وجہ سے پاکٹ ماروں کی بھی خوب چاندی ہوتی ہے اور ٹائم پاس کرنے والے لڑکوںکی بھی...

اس منظر نامے میں مزید رنگینی آتی ہے فطرے اور زکوۃٰ کے کاروبار سے... ٹھہریے مجھ پر کوئی فتویٰ نہ لگا دیجیے گا کہ زکوۃٰ اور صدقۃ الفطر جیسی مالی عبادات کو کاروبار کہہ رہا ہوں... لیکن اورکیا کہیے کہ کم ازکم ہمارے کراچی میں تو بالخصوص رمضان میں فطرہ زکوۃٰ اور بقرعید میں قربانی کی کھالیں ایک کاروبار ہی بن کر رہ گیا ہے، ایک نفع بخش کاروبار!...اس کاروبار میں ساجھے دار بننے کے لیے سنا ہے کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پورے ملک سے لاکھوں بھکاری کراچی کی رونق کو دوبالا کرنے اپنے لاؤ لشکر سمیت آ دھمکتے ہیں اور نت نئے سوانگ رچا کر لوگوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ کتنے سفید پوشوں کا حق فطرہ اور زکوۃٰ کے نام پر اُن بہروپیوں کی جیب میں چلا جاتا ہے جن پر اکثر زکوۃٰ خود فرض ہوتی ہے، لیکن تحقیق کی زحمت کون کرے؟ میلی پیلی عورتیں اور ان کے بے چارے ننگے بچے ... بھلا ان سے زیادہ محتاج کون ہو گا؟ سو ڈبڈبائی آنکھوں سے ہم اپنا شرعی فرض پورا کرتے ہیں اور زیادہ ثواب کے تصور سے محظوظ ہوتے گھروں کو لوٹتے ہیں۔


اس سے پہلے کہ ایک بار پھر آپ مجھے قابل گردن زدنی سمجھیں،میں وضاحت کردوں کہ مجھے زیادہ ثواب کی آرزو پر کوئی اعتراض نہیں... اعتراض تو اس خاص سوچ پر ہے جس نے رمضان میں زیادہ ثواب کے حصول کی وجہ سے زکوۃٰ اور رمضان کو لازم و ملزوم کر دیا ہے...فہم دین کی کمی سے اِس کا ایک بڑا نقصان تو یہ ہے کہ عوام کو زکوۃٰ کا بنیادی مسئلہ ہی نہیں معلوم ہوتا کہ ایک مسلمان کو اپنے صاحبِ نصاب ہونے کی تاریخ یاد رکھنا ضروری ہے۔ دنیاوی تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت بھی یہ سمجھتی ہے کہ زکوۃٰ بس رمضان میں ہی دی جاتی ہے یا پھر رجب میں، چاہے وہ محرم میں صاحب نصاب بنے ہوں یا ربیع الثانی میں... دوسرا نقصان مستحقین زکوۃٰ کا ہوتا ہے۔

ضرورتیں صرف رمضان میں ہی تو نہیں ہوتیں، بلکہ غالب خیال یہ ہے کہ رمضان کے سحروافطار کی برکت سے اور صدقۃ الفطر کی وجہ سے مستحقین کو رمضان میں زیادہ ضرورت نہ پڑتی ہو،لیکن باقی سال میں جب اچانک اور فوری ضرورت کسی مستحق کو پیش آتی ہے تو ان کی کوئی داد رسی کرنے والا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کے ایک ضرورت مند مستحق کی ضرورت کے لیے میں نے جب ایک جاننے والے صاحبِ استطاعت سے بات کی( جو میرے خیال میںکافی دین کی سمجھ بھی رکھتے تھے) تو انھوں نے کہا کہ زکوۃٰ تو رمضان میں دی جاتی ہے ۔ انھیں جب بتایا کہ اگر آپ نفلی صدقہ نہیں دے سکتے تو پیشگی زکوۃٰ بھی دے سکتے ہیں تو انھوں نے یہ ماننے سے انکارکر دیا کہ پیشگی زکوۃٰ بھی دی جا سکتی ہے، خیر زیادہ ثواب کمانے کی آرزو رکھنے والوں کو شاید خبر نہیں کہ بڑا اجر موقع پر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے میں ہے۔

بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ ہم بات کر رہے تھے رمضان بزنس کی... تو جناب ایسا ہی نہیں کہ زکوۃٰ فطرہ کی آواز لگا کر آپ کی قمیص کے دامن کو کھینچنے والے وہی روایتی بھکاری ہیں جو صدیوں کے فرسودہ طریقے سے آپ کے شرعی فریضے کو پورا کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں... نہیں جناب اب یہ طریقہ آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکا ہے... اب نئے دور کا چلن یہ ہے کہ دس پندرہ ہزارکرائے پربڑے بڑے بل بورڈ حاصل کیے جائے اور رمضان کی مناسبت سے مہنگی شیروانی میں ملبوس، چمک دار چہرے کے ساتھ زکوۃٰ فطرے کی آبرومندانہ اپیل کی جائے۔

کسی بھی سگنل پہ چلے جائیں، ایک طرف دیکھیے گا کہ ایک صاحب کالی شیروانی پہنے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔انھیں زکوۃٰ چاہیے،اپنے اسپتال کے لیے۔ دوسری طرف دل گردے کے اسپتال والے اپیل کر رہے ہیں،ایک اور جانب کسی اور ادارے کا اشتہار لگا ہے، ہم ہیں اس کے صحیح مستحق۔اور ہاںہر اشتہار،ہر بل بورڈ پر ایک غریب بچہ بھی موجود ہے جس کا گنجا ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہنا بھی بہت ضروری ہے تا کہ تأثر میں کمی نہ ہو اور نرم دل پسیج جائیں۔ان سے نگاہ ہٹائیے تو کئی ہاتھ آپ کا دامن تھامے اپنے ننگ دھڑنگ بچوں کے واسطے فطرہ زکوۃٰ کی اپیل کر رہے ہوں گے... ان سے بھی بچ جائیں تو اس پرچی سے کیسے بچیں گے جو مسجد سے نکلتے ہوئے آپ کو تھما دی جائے گی اور تھمانے والے کے چہرے پر التجا نہیں بلکہ ایک دھمکاتی ہوئی کمینی سی مسکراہٹ ہو گی... آپ بھی کون سے تیس مار خان ہیں، جواباً زبردستی مسکرائیں گے اور پرچی کو پُر کر دیں گے!

مہمان جانے والا ہے...ایک طرف مسجدوںمیں آہ و فغان کی صدائیں بلند ہو رہی ہیںتودوسری طرف ٹی وی پررمضان سیزن کمانے کے لیے ہر چینل ایکٹر اورایکٹریسوںکے ساتھ رنگین و سنگین 'مقدس 'پروگرام پیش کرکے لوگوں کے دینی جذبات برانگیختہ کر رہا ہے...اِدھر دکانداردکان سجائے ھل من مزید کی آواز لگا رہے ہیں۔ٹیمپو تیز ہو رہا ہے... اور تیز... اور لوگوں پر ایک جنون طاری ہو رہا ہے۔
Load Next Story