گھر ٹوٹنے سے بچ جائے گا

رمضان کے آخری عشرے میں عدالتوں میں ایک جنگ ہوتی ہے، فیملی کورٹس میں عموماً بیوی سے علیحدہ رہنے۔۔۔


[email protected]

ISLAMABAD: رمضان کے آخری عشرے میں عدالتوں میں ایک جنگ ہوتی ہے، فیملی کورٹس میں عموماً بیوی سے علیحدہ رہنے والے شوہر اپنے بچوں سے عید کے دن ملاقات کی درخواست دیتے ہیں، ایک بنا ہوا گھر ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے یا ٹوٹ چکا ہوتاہے،میاں بیوی اور بچے ایک ساتھ رہ رہے ہوں تو اسے گھر کہتے ہیں۔ اگر بچوں کے ماں باپ کے اختلافات ہوجائیں تو ؟معصوم سے پھول کملانے لگتے ہیں اور کچھ کچھ مرجھائے سے بھی نظر آتے ہیں، ہم تین برسوں سے عید کے موقعے پر اسی ایک موضوع کو لے کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟ عید خراب کرنے کے لیے؟ اس مزے کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے؟ نہیں بالکل نہیں۔ ممکن ہے عین عید کے روز والا کلام آپ کا منہ میٹھا کردے لیکن آج یہ کڑوی دوائی پی لیجیے، صحت مند رہنے کے لیے اور اس لیے کہ ہر بچہ ماں باپ کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہے،اس لیے کہ جب میاں بیوی کی علیحدگی اور اختلافات انھیں عدالتوں میں لے آتے ہیں تو سب سے زیادہ گھاٹے میں کون رہتاہے؟ آپ جانتے ہیں وہ کون سا فریق ہوتاہے، کوئی فریق ہو یا نہ ہو سب سے زیادہ نقصان میں بچے رہتے ہیں۔

عید کا موقع ہو اور ماں باپ کی علیحدگی عدالتوں تک پہنچ جائے تو دو باتیں ہوتی ہیں۔ جنگ اور امن۔ عدالتی جنگ میں میاں بیوی ایک دوسرے سے لڑتے نظر آتے ہیں تو عید کے موقعے پر ایک فریق بچوں سے ملنے کا خواہش مند ہوتاہے۔ یہ معاملہ انھیں امن (Peace) پر مجبور کرتاہے۔ جنگ کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ ایک فریق بچوں سے دوسرے کو بدظن کرنے کی کوشش کرتا ہے اس جنگ میں نقصان اگر بچوں کا ہے تو اصل نقصان ان کے ماں باپ کا ہی ہوا۔ اعلیٰ ظرف والدین اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اپنی جنگ خود تک محدود رکھیں۔

عدالتوں میں عید سے پہلے کرمنل سائیڈ کے وکلاء کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کچھ ملزمان کی ضمانت کی امید ہے تو وہ عید سے پہلے ہوجائے تاکہ ملزم خوشی کا یہ موقع اہل خانہ کے ساتھ گزارے۔ دوسری طرف سول سائیڈ کے وکلاء کو بچوں کی تحویل والے مقدمات میں بچوں کی عید کے موقعے پر عموماً والد سے ملاقات کی درخواست دینی ہوتی ہے۔ عدالت موقعے کی مناسبت سے ایک یا دو دن دوسرے فریق کو دیتی۔ اس میں دن اور وقت پر میاں بیوی اور ان کے وکلا میں تکرار نظر آتی ہے۔ عدالت کوئی درمیانی راستہ نکال کر یہ طے کرتی ہے کہ کس وقت کہاں سے بچوں کو لیاجائے گا اور کس وقت کس دن واپس کیاجائے گا۔ بعض اوقات عدالت، بچوں کو لے جانے والے فریق سے ضمانت بھی طلب کرتی ہے، کبھی کبھار پاسپورٹ اور اصلی شناختی کارڈ تک عدالتی تحویل میں ہوتے ہیں، ہر سال کے نئے مقدمات، نئے لوگ اور نئے واقعات ہوتے ہیں، شاید قارئین کچھ نئے ہوں لیکن سبق تو وہی پرانا ہے۔

شبیر اور ندا کے دو بچے ہیں۔ سات سالہ احمد اور پانچ سالہ دعا ۔ دونوں اسکول میں جاتے ہیں۔ ہم ندا کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کررہے ہیں۔ دونوں بچے ماں کی تحویل میں ہیں۔ شبیر کے ایک جاننے والے ہمارے بھی دور کے رشتے دار نکل آئے، ان کا کہنا تھا کہ خلع نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارا بھی یہی جواب تھا۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے۔ چونکہ اس وقت یہ معاملہ بالکل نیا تھا اس لیے ایک برس پہلے کے کالم میں اس کا ذکر نہیں تھا۔ رمضان ہی کے دنوں میں شبیر کا فون آیا۔ وہ اپنا گھر بسانے کا خواہش مند تھا۔ میں نے کہاکہ عید کے بعد Pretrialہوگا جس میں جج صاحبہ دونوں میاں بیوی کو اپنے چیمبر میں سمجھائیںگی۔ میں نے اس سے کہاکہ تم ایسا کام کرو کہ بیوی کا دل تمہاری طرف سے نرم ہوجائے۔ شبیر کے مالی (financial) معاملات خراب تھے۔ لیکن اب وہ قرض داروں کی رقم واپس کرکے کچھ بحال ہوا تھا۔

میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے عید کے موقعے پر کچھ جوتے کپڑے کھلونے اور رقم منی آرڈر کردے۔ کتنی رقم؟ یہ شبیر کا سوال تھا۔ میں نے جواب دیا کہ پانچ ہزار دس ہزار۔ بیس ہزار پچاس ہزار۔ جتنی تمہاری گنجائش۔ ایک اچھا موقع جو بیوی کو منانے یا دل نرم کرنے کا تھا جو شوہر نے خواہ مخواہ گنوادیا۔ رقم اس کے پاس تھی لیکن وہ اسے اپنی کمزوری سمجھ کر جھکنا نہیں چاہتاتھا۔ بعد میں عید پر بچوں سے ملاقات بھی ہوئی اور مہینے میں دو ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں، شبیر اپنے بچوں کے لیے معقول رقم عدالت میں جمع بھی کرواتاہے جسے ندا ہر دو چار مہینے بعد عدالت سے کیش کروالیتی ہے۔ علیحدگی کے بعد عدالتی طلاق اس جوڑے کا مقدر رہی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ندا مان رہی تھی اور نہ شبیر جھکنے کو تیار ہوا۔ خلع کے بعد بھیگی آنکھوں سے جج کے چیمبر سے نکل کر ٹوٹ گیا لیکن جھکا نہیں۔ اب تقریباً تمام معاملات طے ہوچکے ہیں۔ گھر بکھر چکا ہے، یقین جانیے کوئی بھی خوش نہیں۔

احمد اور ریما کی شادی کو دو سال ہوئے ہیں اب میاں بیوی عدالت میں خلع کے علاوہ بچے کی تحویل کے مقدمے میں الجھ چکے ہیں۔ پہلے ہم نے لیگل نوٹس بھجوایا کہ احمد اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ برادری کے بزرگوں نے اس دوران لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ریما اب تک نہیں مان رہی۔ ان کا ایک سالہ بیٹا ماں کے پاس ہے۔ احمد کی وکیل ایک خاتون ایڈووکیٹ ہیں اور وہ ریما سے مل کر اسے گھر بسانے پر آمادہ کرنا چاہتی تھیں۔ ہر وکیل کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر بسا رہے۔ عدالت تک اس ضمن میں کوشش کرتی ہیں کہ میاں بیوی اپنے گھر کے ہوجائیں۔ ریما اپنے والد کے ساتھ اپنے مقدمے کو حتمی شکل دینے ہمارے دفتر آئی وہ کوئی بات سننے کو تیار نہ تھی۔ میں نے احمد کی خاتون وکیل کے فون کا ذکر کیا۔

ریما کے والد سلمان صاحب سے گزارش کی کہ بیٹی کا گھر بچانے کی کوشش کے طورپر ہمیں ان کے شوہر کی وکیل سے بات کرنی چاہیے۔ اگر بات بن گئی تو ٹھیک ورنہ احمد کو اپنی بیوی کے خیالات کا پتہ چل جائے گا۔ ریما کے والد کو اس میٹنگ کے لیے اپنی بیٹی کو راضی کرنے کے لیے ایک ماہ لگا۔ دو خواتین کو آمنے سامنے بٹھادیاگیا۔ ریما نے شوہر، ساس، نند کی شکایات کیں۔ وہ کسی صورت میں ماننے کو تیار نہ تھی، آخری کوشش دو مردوں کی تھی۔ میں نے اور سلمان صاحب نے ریما کو پھر سمجھایا۔ میں نے انھیں ان درجنوں مقدمات کی فائلیں دکھائیں جو زیر تصفیہ ہیں۔ سیکڑوں مقدمات کی فائلیں الماریوں میں ہیں اگر کبھی سابقہ موکلین سے ملاقات ہوتی ہے تو خوش کوئی نہیں۔ بڑی مشکل سے ریما کو سوچنے پر رضامند کیا گیاہے۔ وہ عید کے دس دن بعد اپنا فیصلہ بتائے گی۔ وکلا نے مقدمات کی رفتار کو دھیما کردیاہے۔ دیکھیں کیا ہوتاہے؟ کوششیں رنگ لائیںگی اور گھر ٹوٹنے سے بچ جائے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔