ریاست کہاں ہے

رات ابھی اپنی ابتدا میں ہے۔ گھڑی کی سوئی کو گیارہ کا ہندسہ پار کیے بیس منٹ سے اوپر ہوچکے ہیں۔۔۔


Sana Ghori August 04, 2013
[email protected]

FAISALABAD: رات ابھی اپنی ابتدا میں ہے۔ گھڑی کی سوئی کو گیارہ کا ہندسہ پار کیے بیس منٹ سے اوپر ہوچکے ہیں۔ اچانک کوچوں اور درجنوں موٹرسائیکلوں کی آواز سکوت کو توڑ دیتی ہے۔ اور پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں کی گرج میں خوف کا ایک ایسا منظر تشکیل پاتا ہے جس کے سائے دراز ہوتے چلے جاتے ہیں۔

پیر 29 جولائی اور منگل 30جولائی کی درمیانی شب ڈیرہ اسمعٰیل خان کی سینٹرل جیل پر ہونے والا حملہ پاکستان کے باسیوں کے بے اماں روز و شب کی ایک اور کہانی سنا گیا۔ بھاری ہتھیاروں، دستی بموں اور راکٹوں سے لیس ڈیڑھ سو افراد کا کوچوں اور درجنوں موٹرسائیکلوں پر مشتمل جلوس کی صورت سینٹرل جیل ڈی آئی خان پر ہلہ بولنا اور 248 قیدیوں کو چُھڑا کر لے جانا، ہر پاکستانی کے لیے ایک دہشت انگیز اور خوف ناک واقعہ ہے۔ بھاری اسلحے اور گولابارود سے لیس افراد کی اتنی بڑی تعداد کا گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر آنا اور اپنے مقصد میں کام یابی حاصل کرکے کامیابی سے واپس چلے جانا ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا گیا اور ان کی ساکھ مجروح کر گیا ہے۔

مگر جناب! کیسا سوالیہ نشان اور کیسی ساکھ، ایسا کوئی پہلی بار، تھوڑی ہوا ہے، ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہمارا ملک برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، سیکیورٹی ہمارا اولین مسئلہ ہے، بدامنی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بیماری ہے، لیکن ہم اس مسئلے کا حل نکالنا تو درکنار اس حوالے سے کوئی موثر منصوبہ بندی کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ سال پندرہ اپریل کو خیبرپختون خوا ہی کے شہر بنوں پر اسی نوعیت کا حملہ کیا گیا تھا اور حملہ آوروں نے اپنے ساتھیوں سمیت دیگر بہت سے قیدیوں کو فرار کرایا تھا۔ ایسے حملوں کا امکان پہلے بھی تھا اور ایسے واقعات آیندہ بھی متوقع ہیں، مگر بنوں کی جیل پر ہونے والے حملے سے ہمارے حکم رانوں اور امن وامان کی فراہمی پر مامور اداروں نے کیا سبق سیکھا؟

اپنی کم زوریوں پر کتنی توجہ دی؟ جیلوں کی سیکیورٹی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ اس طرح کی یلغار رکوانے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟

ان سب سوالات کا واضح اور مایوس کُن جواب ڈیرہ اسمعٰیل خان کی سینٹرل جیل پر ہونے والے حملے کی صورت میں عوام کے سامنے آگیا ہے۔

ایک ایسی جیل جہاں ریاست اور ریاستی اداروں سے برسرپیکار اور خودکش حملوں اور دہشت گردی میں ملوث گروہ سے وابستہ ملزمان قید ہوں، اس کی نگرانی اور حفاظت تو کسی اور مقام کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہتمام اور انتظام کی متقاضی ہے، لیکن اس جیل کی حساسیت کے تقاضے نہیں نبھائے گئے۔

اس واقعے سے متعلق یہ خبریں دل و دماغ کو اضطراب میں مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ متعلقہ اداروں کو اس حملے کی باقاعدہ اطلاع نہیں تو سُن گُن ضرور مل چکی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ڈیرہ اسمعٰیل خان کی سینٹرل جیل پر ہونے والے حملے کی جو رپورٹ وزیراعظم نوازشریف کو ارسال کی گئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے دہشت گردوں کے اس حملے سے متعلق بروقت وارننگ دی تھی۔ وارننگ کال ملنے پر خیبرپختون خوا کی صوبائی حکومت کے متعلقہ حکام نے جیل کا دورہ بھی کیا اور سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد اس سلسلے میں اجلاس بھی ہوئے۔ اس سب کے باوجود دہشت گرد اپنے مقاصد میں کام یاب رہے اور انھیں بروقت وارننگ روک پائی، نہ دورے اور انتظامات ان کی راہ کا پتھر بن سکے۔

عسکریت پسند اور دہشت گرد اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی، عوام کے دلوں پر اپنی دھاک بٹھانے اور حکومتی اداروں کی سبکی کے لیے ان جیلوں پر حملے کرسکتے ہیں جن میں ان کے ساتھی قید ہیں، اس حقیقت سے آشنائی اور آگاہی کے لیے نہ افلاطونی عقل کی ضرورت ہے نہ کوئی ''اینٹیلیجنس'' درکار ہے۔ دہشت گردی کے کسی ہونے والے واقعے کی اطلاع پاکر بھی اسے روک نہ پانا تو بہت بڑی ناکامی ہے، مگر ایسے واقعات کے سدباب کے لیے پیش بندی نہ کرنا خود ایک ناکامی ہے۔ اور یہ خبریں اور اطلاعات خوف اور اندیشوں کو مزید مہیب بنارہی ہیں کہ باقی حراستی مراکز کو تو چھوڑیے، جن جیلوں میں انتہائی مطلوب قرار پاکر گرفتار ہونے والے قیدی رکھے گئے ہیں، ان کے سیکیورٹی انتظامات بھی ناقابل اعتماد ہیں۔

اس ضمن میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسمعٰیل خان کی سینٹرل جیل پر دہشت گردوں کی یلغار کے بعد حساس اداروں نے وزارت داخلہ کو جو رپورٹ بھیجی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اپریل2000 میںوفاقی حکومت نے چاروں صوبوں میں جیلوں کے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا حکم دیا تھا، اس کے باوجود ملک کی کسی بھی جیل کے باہر کلوز سرکٹ کیمرے اور موبائل جیمرز نصب نہیں کیے گئے، جب کہ صرف چار جیلوں میں بم پروف بنکرز بنائے جاسکے ہیں۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ جیلوں کے مرکزی دروازوں پر نصب کیمرے قیدیوں اور ان سے ملنے آنے والوں کو تو مانیٹر کرسکتے ہیں، مگرسو میٹر سے آگے کی مانیٹرنگ کے لیے یہ کیمرے ناکارہ ہیں۔

ایک ایسا ملک جو دہشت گردی کا عذاب تواتر سے جھیل رہا ہو، وہاں سیکیورٹی کے انتظامات کے معاملے میں ایسی بے توجہی حیرت انگیز بھی ہے اور خوف ناک بھی۔ یہ بے توجہی کس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے؟ کیا حکمرانوں اور متعلقہ اداروں میں صورت حال کا ادراک کرنے کی بھی صلاحیت نہیں، کیا جان بوجھ کر یہ بے اعتنائی برتی گئی اور برتی جارہی ہے؟ جواب جو بھی ہو، عام پاکستانی کے لیے یہ سب کچھ بہت دہشت ناک ہے۔ عدالت سے قیدیوں کے فرار سے جیل پر حملے تک ریاستی اداروں کی ہر ناکامی عام پاکستانی کے دل میں اپنی جان، مال اور عزت وآبرو سے متعلق خوف اور اندیشوں کو دوچند کرجاتی ہے۔ تحقیقات کا اعلان کرکے عوام کو دلاسہ دیا جاتا ہے، مگر پھر کوئی اگلا خوف ناک واقعہ پچھلے واقعے یاد اور اس کی تحقیقات کو ذہنوں سے محو کردیتا ہے۔ کاش ہمارے حکمراں اور ادارے سینٹرل جیل ڈیرہ اسمعٰیل خان پر حملے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے پیش بندی کرسکیں اور ایسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے، کہ ایسے واقعات اداروں کی ناکامی کے ساتھ یہ سوال بھی سامنے لے آتے ہیں کہ ریاست کہاں ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔