لاہور میں اسمگل شدہ بھارتی لہسن کی دوبارہ فروخت شروع

کشمیر کے راستے مال بارٹر سسٹم کے تحت آتا ہے اس لیے اس اقدام کی مخالفت نہیں کرتے، چوہدری اکرم گجر


March 08, 2019
بھارتی سبزیوں کی گاڑیاں مبینہ طور پر کسٹم حکام کو رشوت دے کر لائی جاتی ہیں، جنرل سیکریٹری تاجر (فوٹو : ایکسپریس)

لاہور سبزی منڈی میں اسمگل شدہ بھارتی لہسن کی دوبارہ فروخت شروع ہوگئی۔

پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین کشمیر کے راستے ہونے والی تجارت کا پہیہ بھی رک گیا تھا تاہم چند روز پہلے سری نگر اور چکوٹھی آزاد کشمیر کے راستے تجارت بحال ہونے سے بھارتی ٹماٹر اور لہسن کے ٹرک راولپنڈی اور لاہور کی سبزیوں منڈیوں میں بھی پہنچنا شروع ہوگئے۔

بادامی باغ سبزی منڈی ذرائع کے مطابق بھارتی لہسن کے دو ٹرک صبح یہاں لائے گئے جن میں 50 کلو کے 200 بیگ تھے، سبزی منڈی کے ایک آڑھتی نے غیرقانونی طریقے سے بھارتی لہسن یہاں منگوایا جس سے مقامی آڑھتیوں میں تشویش پیدا ہوگئی۔

لاہور کی سبزی منڈی میں ایک طرف انجمن آڑھتیاں کی طرف سے بھارت مخالف نعروں کے بینرز درج ہیں اور دوسری طرف چند آڑھتی ناجائز منافع کے لیے بھارتی اسمگل شدہ سبزیاں فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔

بادامی باغ سبزی و فروٹ منڈی میں تاجروں کی تنظیم کے جنرل سیکریٹری چوہدری خالد محمود نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر آنے والے پھل اور سبزیاں اسمگل ہو کر پنجاب کی منڈیوں میں لائے جاتے ہیں، وہ اس بارے میں متعدد بار تحریری طور پر چیف کلکٹر کسٹم سمیت دیگر حکام کو بتاچکے ہیں لیکن اس کی روک تھام نہیں ہوسکی، بھارتی سبزیوں کی گاڑیاں مبینہ طورپر کسٹم حکام کو رشوت دے کر منڈی تک لائی جاتی ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون اور پرائس کنٹرول ٹاسک فورس کے سربراہ چوہدری اکرم گجر نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں بارٹر سسٹم کے تحت سامان کی تجارت ہوتی ہے، مقبوضہ کشمیر سے جو پھل اور سبزیاں آزاد کشمیر لائی جاتی ہیں وہ کشمیریوں کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کی وہاں کھپت نہیں ہوپاتی ہے، اس وجہ سے وہ مال لاہور سمیت مختلف منڈیوں میں پہنچ جاتا ہے۔

چوہدری اکرم گجر نے بتایا کہ واہگہ کے راستے وہ بھارت سے تجارت کے مخالف ہیں تاہم کشمیر کے راستے مال چونکہ بارٹر سسٹم کے تحت آتا ہے اس لیے وہ اس اقدام کی زیادہ مخالفت نہیں کرتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سے آلو بارٹر سسٹم کے تحت مقبوضہ کشمیر بھیجا جارہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں