مسئلہ کشمیر اور بدلتے عالمی حالات
ہمیں اپنے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو حب الوطنی اور عدم تشدد کی اقدار کی جانب راغب کرنا ہوگا۔
پلوامہ حملوں میں چالیس سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت، جن میں زیادہ تر سکھ تھے، کے بعد مودی کی نام نہاد ''سرجیکل اسٹرائیک'' اور اس پر پاکستان کے نپے تُلے ردعمل سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ بھارتی دعوؤں کو نہ صرف پاکستان نے ردکیا بلکہ سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے مغربی میڈیا نے بھی اس افسانے کو مسترد کردیا۔ اس صورت حال میں ہمیں عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل ہوئی۔
ہم جذباتی ردعمل کی تاریخ رکھتے ہیں ، اس کے باوجود حکومت نے اعلیٰ عسکری قیادت سے مسلسل مشاورت کرکے جذباتیت کو فیصلہ سازی پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ امن کی دعوت دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اس جانب اشارہ کیا کہ ''محدود جنگ'' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی اور کوئی بھی جنگی اقدام ایٹمی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے مذاکرات کی دعوت کے ساتھ پلوامہ سے متعلق تحقیقات میں تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی۔ زیر حراست بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے نے امن کے لیے ہمارے عزم کا واضح ثبوت دیا۔
مودی کے جنگی جنون سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا اور پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف جو باہم دست و گریبان تھی یک آواز ہوگئیں، اسی طرح کشیدگی کے ماحول میں پاکستان کے طرز عمل کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی۔ اس پوری صورت حال میں وزیر خارجہ کی او آئی سی کے اجلاس میں عدم شرکت ایک کوتاہی تھی، اس کے نتیجے میں بھارت کو براہ راست جواب دینے کا ایک موقع ضایع کیا گیا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے او آئی سی کے اجلاس میں بھی کشمیر اٹوٹ انگ کا رٹا رٹایا سبق سنایا۔ او آئی سی کی جانب سے تنازعہ کشمیر اور وہاں جاری ظلم و ستم سے متعلق دو ٹوک قرار داد کی منظوری کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو عالمی اور خاص طور پر اپنے ملک کے اندر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ چوں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عرب امارات نے براہ راست سشما سوراج کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، اس لیے اس قرار داد کو او آئی سی کے اعلامیے میں شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو اس سے سبق سیکھتے ہوئے بھارت سے متعلق کسی معاملے میں عربوں کی غیر مشروط حمایت کی خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہیے۔ دوسری جانب ترکی کی حمایت دو ٹوک اور واضح ہے۔
اب بات کہاں تک جائے گی؟ پلوامہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جب استبداد کے شکار لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ٹالا جائے تو ایک وقت آتا ہے کہ صورت حال ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور تشدد کو راستہ ملتا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ1947میں کھڑا ہوا اور اب تک دنیا بہت بدل چکی ہے۔ عالمگیریت نے بعداز جنگ اتحادوں اور طاقت کے توازن کو ختم کردیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی۔ منڈیاں اور مالیاتی ادارے عالمگیر ہوگئے اور بین الاقوامی قوانین وجود میں آگئے جس کے بعد قومی ریاستوں کی سرحدیں بھی کم زور ہوئیں۔ بتدریج قوم پرستی کی جگہ عالمی ترقی کے تصور نے اپنی جگہ بنالی۔
کشمیر کا معاملہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے لیے زیادہ حساس ہے۔ قومی ریاست کے لیے اپنی حدود اور سرحدوں کا تقدس مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ صدر مشرف ایل او سی کو عارضی سرحد تسلیم کرنے کی پیش کش کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد وہ پاکستان کے کشمیر پر دعوے سے متعلق مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ بھارت میں برسراقتدار سخت گیر بی جے پی کے لیے ناممکن تھا۔ پاکستان نے ہمیشہ سرحدی تنازعات میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا آغاز بھی اس وقت ہوا تھا جب پاکستان نے اپنی حدود سے کچھ علاقہ(جو اس وقت عملی طور پر ہمارے کسی کام کا نہیں تھا) چین کو دیا، بھارت کبھی یہ فیصلہ نہیں کرتا۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی اختلاف کے باوجود پاکستان نے اسے کبھی ''ہارڈ بارڈر'' نہیں بنایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد بدلنے والے حالات کے باعث اس سرحد پر باڑ لگا کر ہمیں اسے ہارڈ بارڈر میں تبدیل کرنا پڑا۔ رن آف کچھ اور سیاچن بھی پاک بھارت سرحدی تنازعات میں شامل ہیں۔ ان محاذوں پر بھی دونوں ممالک کی افرادی اور مالی قوت صرف ہوتی ہے، دونوں ممالک صرف اور صرف قومی ریاست ہونے کی بنا پر یہ سب برداشت کرتے ہیں۔ ایسی قوم پرستی حالیہ بحران میں بھی ایک مسئلہ ثابت ہوئی۔
حالیہ بحران جو چاچا مودی کے پاگل پن کی وجہ سے خوں ریزی میں بدل سکتا تھا، اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمسائیگی جنگی برتری سے زیادہ اہم ہے۔ ایسے بحران معیشت کو برباد کردیتے ہیں، پروازیں منسوخ ہوجاتی ہیں اور بے ثمر جذباتیت کو ہوا ملتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت سیاسی کے بجائے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ایسی کسی بھی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے جو تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہو۔ پاکستان صرف اسی صورت میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکتا ہے جب ہماری معیشت منظم ہوجائے گی اور عوام کو تعلیم و صحت کی فراہمی کی شکل میں اس کے ثمرات سامنے آئیں گے، اسی وقت عالمی برادری میں ہمارا وقار بلند ہوگا۔ بھارت کے ساتھ امن کی بات کرنے میں مسئلہ وہی ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
مودی کے طرز عمل کو خود بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے واضح طور پر مودی کے جنگی جنون کو آڑے ہاتھوں لیا اور امن کی بات کی۔ انتخابات کے لیے مودی کا شروع کیا گیا تماشا بری طرح ناکام ہوا، بھارتی فوج بھی رسوا ہوئی اور سفارتی سطح پر بھارت کا اعتبار کم ہوا۔ بین الاقوامی تعلقات میں رونما ہونے والے تغیرات کھلے دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کا تقاضا کرتے ہیں۔
او آئی سی میں بھارت کی شرکت سے ہمیں رنج ضرور ہوا لیکن وہیں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہاں کم و بیش ہماری آبادی کے برابر مسلمان آباد ہیں۔ وہ بھی پاکستانی مسلمانوں کی طرح امت مسلمہ کا حصہ ہیں اور او آئی سی میں نمایندگی کا حق رکھتے ہیں۔ ایک جانب جہاں خلیجی ریاستیں مشترکہ معاشی مفادات کی وجہ سے بھارت کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں اور یہ جھکاؤ سیاسی سطح پر قربت میں تبدیل ہوتا ہے، وہیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس قربت کی صورت میں بھارت کو بھی مسلمانوں کے خلاف اپنے مظالم کے باعث اس اسلامی فورم پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
او آئی سی سشما سوراج کے شعلہ بیانی کے باوجود پاکستان اور کشمیر کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے وزیر خارجہ کو اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں پسپائی دکھانے کے بجائے نپا تُلا جواب دے کر عمران خان کی حکومت نے تدبر کا مظاہرہ کیا۔ پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے کئی اور نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔دہشت گردی کا سیاسی، معاشی اور نظریاتی ہر سطح پر مقابلہ ہونا چاہیے۔ ہماری حکومت ایسے قوانین بنا رہی ہے، جن کا نفاذ ہوا تو، اس جنگ میں مدد ملے گی۔
2015میں نیشنل ایکشن پلان بھی اسی تصور کی بنیاد پر شروع کیا گیا تھا، لیکن اس کا نفاذ سست روی سے ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنھیں اس پر عمل درآمد کروانا تھا وہ پوری طرح اس کے بارے میں یکسو نہیں تھے۔ اپنی تربیت، خاص مذہبی تصورات اور جارحانہ مزاج کی وجہ سے وہ تبدیل ہونے والی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت نہیں کرتے لیکن اس کے نفاذ کو مؤخر کرتے رہے۔ اب ہمیں وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو حب الوطنی اور عدم تشدد کی اقدار کی جانب راغب کرنا ہوگا۔ سابق شدت پسندوں کی از سر نو تعلیم کے بعد انھیں معاشرے کا حصہ بناکر اس سلسلے میں بعض اقدامات کیے گئے ہیں۔ تاہم ہمیں تعلیمی اداروں، جامعات، میڈیا اور سوشل میڈیا کی سطح پر اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسلام کی حقیقی روح جنگ کے حالات میں بھی امن کی بات کرنا ہے، طے شدہ دفاعی حکمت عملی باقاعدہ فکری بنیاد ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے۔ اس طرح عالمگیریت کے تمام پہلوؤں کا سامنا کرنے میں مدد ملے گی، کیوں کہ اسلام عالم گیر ہے اور دنیا کو بھی یہی پیغام ملنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
ہم جذباتی ردعمل کی تاریخ رکھتے ہیں ، اس کے باوجود حکومت نے اعلیٰ عسکری قیادت سے مسلسل مشاورت کرکے جذباتیت کو فیصلہ سازی پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ امن کی دعوت دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اس جانب اشارہ کیا کہ ''محدود جنگ'' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی اور کوئی بھی جنگی اقدام ایٹمی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے مذاکرات کی دعوت کے ساتھ پلوامہ سے متعلق تحقیقات میں تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی۔ زیر حراست بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے نے امن کے لیے ہمارے عزم کا واضح ثبوت دیا۔
مودی کے جنگی جنون سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا اور پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف جو باہم دست و گریبان تھی یک آواز ہوگئیں، اسی طرح کشیدگی کے ماحول میں پاکستان کے طرز عمل کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی۔ اس پوری صورت حال میں وزیر خارجہ کی او آئی سی کے اجلاس میں عدم شرکت ایک کوتاہی تھی، اس کے نتیجے میں بھارت کو براہ راست جواب دینے کا ایک موقع ضایع کیا گیا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے او آئی سی کے اجلاس میں بھی کشمیر اٹوٹ انگ کا رٹا رٹایا سبق سنایا۔ او آئی سی کی جانب سے تنازعہ کشمیر اور وہاں جاری ظلم و ستم سے متعلق دو ٹوک قرار داد کی منظوری کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو عالمی اور خاص طور پر اپنے ملک کے اندر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ چوں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عرب امارات نے براہ راست سشما سوراج کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، اس لیے اس قرار داد کو او آئی سی کے اعلامیے میں شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو اس سے سبق سیکھتے ہوئے بھارت سے متعلق کسی معاملے میں عربوں کی غیر مشروط حمایت کی خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہیے۔ دوسری جانب ترکی کی حمایت دو ٹوک اور واضح ہے۔
اب بات کہاں تک جائے گی؟ پلوامہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جب استبداد کے شکار لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ٹالا جائے تو ایک وقت آتا ہے کہ صورت حال ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور تشدد کو راستہ ملتا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ1947میں کھڑا ہوا اور اب تک دنیا بہت بدل چکی ہے۔ عالمگیریت نے بعداز جنگ اتحادوں اور طاقت کے توازن کو ختم کردیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی۔ منڈیاں اور مالیاتی ادارے عالمگیر ہوگئے اور بین الاقوامی قوانین وجود میں آگئے جس کے بعد قومی ریاستوں کی سرحدیں بھی کم زور ہوئیں۔ بتدریج قوم پرستی کی جگہ عالمی ترقی کے تصور نے اپنی جگہ بنالی۔
کشمیر کا معاملہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے لیے زیادہ حساس ہے۔ قومی ریاست کے لیے اپنی حدود اور سرحدوں کا تقدس مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ صدر مشرف ایل او سی کو عارضی سرحد تسلیم کرنے کی پیش کش کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد وہ پاکستان کے کشمیر پر دعوے سے متعلق مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ بھارت میں برسراقتدار سخت گیر بی جے پی کے لیے ناممکن تھا۔ پاکستان نے ہمیشہ سرحدی تنازعات میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا آغاز بھی اس وقت ہوا تھا جب پاکستان نے اپنی حدود سے کچھ علاقہ(جو اس وقت عملی طور پر ہمارے کسی کام کا نہیں تھا) چین کو دیا، بھارت کبھی یہ فیصلہ نہیں کرتا۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی اختلاف کے باوجود پاکستان نے اسے کبھی ''ہارڈ بارڈر'' نہیں بنایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد بدلنے والے حالات کے باعث اس سرحد پر باڑ لگا کر ہمیں اسے ہارڈ بارڈر میں تبدیل کرنا پڑا۔ رن آف کچھ اور سیاچن بھی پاک بھارت سرحدی تنازعات میں شامل ہیں۔ ان محاذوں پر بھی دونوں ممالک کی افرادی اور مالی قوت صرف ہوتی ہے، دونوں ممالک صرف اور صرف قومی ریاست ہونے کی بنا پر یہ سب برداشت کرتے ہیں۔ ایسی قوم پرستی حالیہ بحران میں بھی ایک مسئلہ ثابت ہوئی۔
حالیہ بحران جو چاچا مودی کے پاگل پن کی وجہ سے خوں ریزی میں بدل سکتا تھا، اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمسائیگی جنگی برتری سے زیادہ اہم ہے۔ ایسے بحران معیشت کو برباد کردیتے ہیں، پروازیں منسوخ ہوجاتی ہیں اور بے ثمر جذباتیت کو ہوا ملتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت سیاسی کے بجائے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ایسی کسی بھی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے جو تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہو۔ پاکستان صرف اسی صورت میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکتا ہے جب ہماری معیشت منظم ہوجائے گی اور عوام کو تعلیم و صحت کی فراہمی کی شکل میں اس کے ثمرات سامنے آئیں گے، اسی وقت عالمی برادری میں ہمارا وقار بلند ہوگا۔ بھارت کے ساتھ امن کی بات کرنے میں مسئلہ وہی ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
مودی کے طرز عمل کو خود بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے واضح طور پر مودی کے جنگی جنون کو آڑے ہاتھوں لیا اور امن کی بات کی۔ انتخابات کے لیے مودی کا شروع کیا گیا تماشا بری طرح ناکام ہوا، بھارتی فوج بھی رسوا ہوئی اور سفارتی سطح پر بھارت کا اعتبار کم ہوا۔ بین الاقوامی تعلقات میں رونما ہونے والے تغیرات کھلے دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کا تقاضا کرتے ہیں۔
او آئی سی میں بھارت کی شرکت سے ہمیں رنج ضرور ہوا لیکن وہیں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہاں کم و بیش ہماری آبادی کے برابر مسلمان آباد ہیں۔ وہ بھی پاکستانی مسلمانوں کی طرح امت مسلمہ کا حصہ ہیں اور او آئی سی میں نمایندگی کا حق رکھتے ہیں۔ ایک جانب جہاں خلیجی ریاستیں مشترکہ معاشی مفادات کی وجہ سے بھارت کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں اور یہ جھکاؤ سیاسی سطح پر قربت میں تبدیل ہوتا ہے، وہیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس قربت کی صورت میں بھارت کو بھی مسلمانوں کے خلاف اپنے مظالم کے باعث اس اسلامی فورم پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
او آئی سی سشما سوراج کے شعلہ بیانی کے باوجود پاکستان اور کشمیر کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے وزیر خارجہ کو اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں پسپائی دکھانے کے بجائے نپا تُلا جواب دے کر عمران خان کی حکومت نے تدبر کا مظاہرہ کیا۔ پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے کئی اور نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔دہشت گردی کا سیاسی، معاشی اور نظریاتی ہر سطح پر مقابلہ ہونا چاہیے۔ ہماری حکومت ایسے قوانین بنا رہی ہے، جن کا نفاذ ہوا تو، اس جنگ میں مدد ملے گی۔
2015میں نیشنل ایکشن پلان بھی اسی تصور کی بنیاد پر شروع کیا گیا تھا، لیکن اس کا نفاذ سست روی سے ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنھیں اس پر عمل درآمد کروانا تھا وہ پوری طرح اس کے بارے میں یکسو نہیں تھے۔ اپنی تربیت، خاص مذہبی تصورات اور جارحانہ مزاج کی وجہ سے وہ تبدیل ہونے والی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت نہیں کرتے لیکن اس کے نفاذ کو مؤخر کرتے رہے۔ اب ہمیں وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو حب الوطنی اور عدم تشدد کی اقدار کی جانب راغب کرنا ہوگا۔ سابق شدت پسندوں کی از سر نو تعلیم کے بعد انھیں معاشرے کا حصہ بناکر اس سلسلے میں بعض اقدامات کیے گئے ہیں۔ تاہم ہمیں تعلیمی اداروں، جامعات، میڈیا اور سوشل میڈیا کی سطح پر اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسلام کی حقیقی روح جنگ کے حالات میں بھی امن کی بات کرنا ہے، طے شدہ دفاعی حکمت عملی باقاعدہ فکری بنیاد ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے۔ اس طرح عالمگیریت کے تمام پہلوؤں کا سامنا کرنے میں مدد ملے گی، کیوں کہ اسلام عالم گیر ہے اور دنیا کو بھی یہی پیغام ملنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)