مُسکراہٹ کی جگہ ہونٹوں پر ’’عمران ہَٹ‘‘ کا وظیفہ

’’جعلی حکومت کو مزید برداشت نہیں کر سکتے، ہم جلد حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔‘‘

’’جعلی حکومت کو مزید برداشت نہیں کر سکتے، ہم جلد حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔‘‘فوٹو: فائل

متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بہت امن پسند اور صلح جو ہیں، الیکشن لڑنے کے سِوا انھیں کبھی لڑتے نہیں دیکھا گیا۔

ان کی انتخابی لڑائی بھی بس انتخابات تک ہوتی ہے، یوں کہیے کہ ان میں بچوں جیسی معصومیت ہے، جو آپس میں لڑنے کے بعد''آؤ گڈو مل کر کھیلیں'' کہہ کر اگلی لڑائی تک کھیل میں مگن ہوجاتے ہیں۔ مولانا کی صلح جوئی کی سب سے واضح نشانی ان کی مُسکراہٹ ہے، عمران خان کسی دن مسکرادیں اور مولانا فضل الرحمٰن کسی روز نہ مسکرائیں تو یہ خبر ہوتی ہے۔

وہ اتنا مسکراتے ہیں کہ ہمارا باربار پوچھنے کو دل چاہا۔۔۔تم اتنا ''کیوں'' مسکرا رہے ہو۔ اپنی دوستانہ طبیعت کے باعث مولانا کسی سے بھی ہاتھ ملالیتے ہیں، جن سے برسوں دودو ہاتھ کیے ہوں ان سے بھی، اور اگر وہ ہاتھ شیروانی کی آستین میں ہو تو پوری گرم جوشی سے اس طرح ملاتے ہیں کہ پھری نئی حکومت آنے تک نہیں چھوڑتے۔ مگر گذشتہ انتخابات میں مولانا سے ہاتھ ہوگیا اور وہ ہاتھ ملانے کے بہ جائے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب ان کے ہونٹوں پر لفظوں کی گرماہٹ، تلملاہٹ، جھنجلاہٹ، اُکتاہٹ اور ''ہٹ'' ہے، مُسکراہٹ غائب ہوچکی ہے، اور وہ ''ہَٹ عمران ہَٹ'' کا وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔

کچھ دنوں پہلے مولانا کو کچھ زیادہ ہی جلال آیا ہے اور انھوں نے فرمایا ہے


''جعلی حکومت کو مزید برداشت نہیں کر سکتے، ہم جلد حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔''

سچ کہیں تو جس حکومت میں مولانا نہ ہوں وہ ہمیں بھی جعلی ہی لگتی ہے۔ ہمارے نزدیک حکومت کے اصلی ہونے کا پیمانہ مولانا ہیں۔ اصلی شہد اور سونے کو جانچنے کا تو ہم کوئی طریقہ نہیں جانتے، لیکن اصلی حکومت اُسے ہی سمجھتے ہیں جس میں مولانا شامل ہوں۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل ہم اُسے ہی قرار دیتے ہیں جو مولانا میں شامل ہو۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہم نے کافی عرصے سے ہر حکومت میں مولانا کا آنا دیکھا ہے۔

اس لیے اُن کے عادی ہوگئے ہیں۔ چناںچہ مولانا کے بغیر حکومت ایسی لگتی ہے جیسی کوئی خاتون بالوں کے بغیر، گھر کی تقریب سالیوں سالوں کے بغیر، کھچڑی چٹنی کے بغیر اور گھر پَتنی کے بغیر۔ حکومت میں جو کچھ شامل ہے اس میں اگر مولانا کا بھی اضافہ کرلیا جاتا تو کیا حرج تھا۔ کہنے والے بس اتنا ہو تو کہتے کہ یوٹرن لیتے لیتے خان صاحب چورنگی گھوم گئے۔ ایسا کرنے کے دو فائدہ ہوتے، ایک تو حکومت ''جعلی'' کے بہ جائے اصلی لگتی، دوسرے مولانا پھر ہنسنے لگتے۔ خیر ہم حکومت کے کیا لگتے ہیں جو وہ ہماری مانے گی۔

انتخابات ہوتے ہی مولانا کی خواہش اور کوشش تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے منتخب ارکان اسمبلیوں میں نہ جائیں، وہ سمجھاتے رہے کہ ۔۔۔بھائیو! میرے سِوا ایواں میں رکھا کیا ہے، مگر کسی نے نہ سُنی۔ پھر وہ حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف متحد اور صف آراء کرنے کے لیے کوشاں ہوئے، لیکن سب نے کہہ دیا،''پھر کسی اور وقت مولانا''گویا حکومت ہو یا حزب اختلاف سب نے مولانا کا خون کھولانا فرض سمجھ لیا۔ یعنی اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، ان اُلٹی تدبیروں کو دیکھ کر ہی مولانا کو حکومت کا تختہ اُلٹنے کا خیال آیا ہوگا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم تختے پر نہیں کرسی پر براجمان ہیں۔ مولانا اپنی غلط فہمی کی بنا پر خواہ مخواہ کسی غریب خوانچہ فروش کا تختہ اُلٹ دیں گے اور سمجھیں گے حکومت گئی، پھر خوشی سے جھومتے اُلٹے قدموں واپس آجائیں گے۔ مولانا! آپ مذہبی راہ نما ہیں، ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ وظیفہ اُلٹ جائے تو کیا ہوتا ہے، اس لیے اُلٹنے پلٹنے کا وظیفہ چھوڑ دیں۔ ویسے بھی آپ کو معلوم ہے کہ تختی پر لکھا سبق رٹنے والی حکومت کا تختہ اُلٹنا ممکن نہیں۔
Load Next Story