عورت بااختیار اور مستحکم پاکستان
عورتوں کی ترقی کا مسئلہ محض پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورتوں کی ترقی کا عمل مردوں کی ترقی کے مقابلے میں پیچھے ہے۔ بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک میں اگر عورتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو وہ سیاسی ،سماجی اور معاشی محرومی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔اس کی بنیادی وجہ ہماری جیسی ریاستوں کی ترجیحات کا ہے جہاں عورتوں کے مسائل کو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ان کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے ۔
اس برس2019میں بھی ہر برس کی طرح 8مارچ کو عورتوں کا عالمی دنیا بڑے جوش وخروش سے منایا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اب اس دن کی اہمیت کے پیش نظر خود ریاست، حکومت اور اداروں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگ بڑی شان وشوکت سے اس دن کا اہتمام کرکے عورتوں کے ساتھ اپنی سیاسی کمٹمنٹ اور اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک اور اہم پہلو یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب مردوں کی بھی ایک بڑی تعداد عورتوں کے مسائل کے بارے میں اپنی سنجیدگی دکھاتی اور ان کے حق میں کھڑے ہوکر آواز بلند کرتی ہے ۔ یہ امر خوش آئند ہے کیونکہ عورتوں کے حقوق یا ان کے مسائل کے حل میں اگر واقعی مرد بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں تو یہ قوم کی ایک مثبت تصویر کی عکاسی بھی کرتی ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بھی دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح بہت سے اہم چیلنجز عورتوں کو اپنی ترقی کے حوالے سے درپیش ہیں ۔ ان میں تعلیم ، صحت، روزگار، ماحول ، تحفظ ، انصاف ، غربت جیسے سنگین مسائل موجود ہیں ۔ ان مسائل کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں۔
اول ملک میں عورتوں کے حق میں موثر قانون سازی موجود ہے یا بعض قوانین میں سقم بھی ہیں لیکن مجموعی طور پر ان قوانین پر عملدرآمد کا نظام یا نگرانی کے عمل کا کمزور ہونا ۔ دوئم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بجٹ میں عورتوں کا محدود حصہ یا جو بجٹ ہوتا بھی ہے اس میں بھی کٹوتی جیسے مسائل کا ہونا۔ سوئم عورتوں کے لیے بغیر کسی ڈر اور خوف کے سازگار ماحول کا نہ ہونا اور عدم تحفظ یا تشدد کا احساس ، چہارم ادارہ جاتی عمل کا کمزور ہونا یا اداروں تک عورتوں کی محدود رسائی ، پنجم سیاسی ، سماجی اور مذہبی رویہ کی بنیاد پر تعصب اور تفریق کے مسائل یا ان کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل نہ کرنا، ششم قومی مسائل کی درجہ بندی میں ترجیحات کاغیر اہم ہونا ، ہفتم قانونی تحفظ اور انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کا ہونا او ر عورتوں کی کمزور معاشی حیثیت اس کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے استحصالی رویے اہم ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم عملی طور پر عورت کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں ۔ بااختیار بنانے سے ہماری مراد کیا ہے ۔ عملی طور پر جب عورت کے بااختیار ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد اس کی تعلیم ، صحت،روزگار ، اپنے فیصلے خود کرنے ، تحفظ جیسے امور ہوتے ہیں۔اگر ہم پاکستان کی سطح پر عورتوں سے جڑے تعلیم ، صحت ، روزگار کے سرکاری اعدادو شمار کو دیکھیں تو ہم عالمی اور جنوبی ایشائی درجہ بندی میں بہت پیچھے کھڑے ہیں ۔ اگرچہ ہم نے عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پیش کرتے ہوئے کئی عالمی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں ، ان دستخط کا مقصد دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوتی ہے کہ ہم ریاستی وحکومتی سطح پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کو یقینی بنا کر ان کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کریں گے۔
عورتوں کی ترقی کے حوالے سے ایک فکری مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ شائد عورتوں کے حق یا تحریک کا بات کرنے کا مقصدکسی عالمی ایجنڈے کی تکمیل ہے ۔حالانکہ جو مسائل اٹھائے جارہے ہیں وہ بنیادی نوعیت کے حقوق سے جڑے ہیں اور ان کی ضمانت ہمارا دین اور قانون دیتا ہے ۔ 1973کے آئین میں بنیادی حقوق کا باب اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہم قانون کے پیش نظر عورتوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں ۔
عورتوں کی ترقی کے تناظر میں پاکستان بہت پیچھے کی طرف نہیں کچھ آگے بھی بڑھا ہے ۔ اب ہماری عورتیں پاکستان میں موجود ہر شعبہ میں ایک فعال اور متحرک فریق کے طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔سیاست کی سطح پر عورتوں کی فعالیت بہت سود مند ہے اور فیصلہ ساز اداروں میں ان کی موجودگی یقینی طور پر عورتوں کے تحفظ کے عمل کو یقینی بناسکتی ہے۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے قومی ترقی کے اہداف 2015-30 پر عالمی معاہدے کے تحت دستخط کیے ہوئے ہیں۔اس معاہدے کے تحت ہمیں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل میں عورتوں کے مسائل کے حل کو موثر انداز میں آگے بڑھانا ہے ۔لیکن یہ کام تن تنہا ریاست یا حکومت نہیں کرسکتی ۔ اس کے لیے حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر عورتوں کے حقوق کی ایک ایسی جنگ لڑے جو عملی طور پر عورتوں کو بااختیار اور ان کو مستحکم کرکے قومی ترقی کے دھارے میں حصہ دار بنائے ۔
پنجاب میں ریاستی و حکومتی سطح پرعورتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ ہورہا ہے ۔ عورتوں کے حقوق سے متعلق صوبائی وزیر بیگم آشفہ ریاض فتیانہ، صوبائی سیکریٹری ارم بخاری اور صوبائی کمیشن برائے حقوق نسواں فوزیہ وقار کی موجودگی میں عورتوں کے حقوق کی بحث نہ صرف درست سمت میں آگے بڑھی ہے بلکہ کئی نئی قانون سازی اور پہلے سے موجود قانون سازی پر عملدرآمد کے نظام کو بھی موثر اور شفاف بنایا جارہا ہے ۔بقول صوبائی وزیر آشفہ ریاض اور سیکریٹری ویمن ڈویلپمنٹ ارم بخاری کے، حکومت کی بڑی توجہ عورتوں کو معاشی سطح پر زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی میں عورتوں کا اپنا پارلیمانی فورم بھی ہے جس کا مقصد عورتوں سے جڑے مسائل پر کام کرنا ہے اسے زیادہ فعال ہونا چاہیے ۔ اس لیے اب وقت ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت اور ان سے جڑے ذمے داران عورتوں کو بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے موثر عملی اقدامات کی طرف پیش رفت بڑھائیں ۔ اس کے لیے یقینا حکومت ، ادارے اورسول سوسائٹی کے درمیان مضبوط اشتراک کار کی ضرورت ہے ۔اصل مسئلہ عورتوں سے جڑے مسائل پر ایک بڑی سیاسی ، سماجی اور معاشی سرمایہ کاری کا ہے۔ سرمایہ کاری سے مراد ریاستی اورحکومتی ترجیحات میں عورتوں کے مسائل بنیادی اہمیت کے ہونے چاہیے ۔ یہ کام محض لفاظی یا عورتوں کے عالمی دن تک محدود ہونے کی بجائے ہماری قومی سیاست اور اس میں ہونے والے اہم فیصلوں میں بھی موثر نظر آنا چاہیے ۔
تعلیم ، صحت اور معاشی روزگار جیسے بنیادی نوعیت سے جڑے مسائل پر عملی طور پر ایک بڑی ایمرجنسی لگانی چاہیے ۔ پنجاب جیسے بڑ ے صوبہ میں بھی تعلیم اور صحت جیسے معاملات پر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر عورتوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لڑکیاں پڑھ لکھ کر عملا میدان میں آرہی ہیں ان کے لیے معاشی مواقع کا نہ ہونا خود ایک بڑا مسئلہ ہے ۔مائیکرو انٹرپنیور شپ جیسے پروگرام اور اس میں زیادہ سے زیادہ عورتوں کو دیہی اور چھوٹے شہروں کی سطح پر معاشی سہولیات فراہم کرکے ہی ہم ان کو مستحکم کرسکتے ہیں ۔