بھارت کی منافقانہ پالیسی

پاکستان کا مثبت رویہ دیکھ کر بھی ہندوستان اسی طرح دراندازی کرنے سے باز نہیں آرہا ہے۔

nasim.anjum27@gmail.com

بھارتی حکومت کی جارحیت نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو محض اپنے مفاد کے لیے نشانہ بنایا بلکہ اپنے ملک کی فوج اور عوام کا جینا بھی دوبھرکردیا ہے۔ ان حالات میں ان کے اپنے لوگ تنقید کر رہے ہیں، دنیا بھر کے ممالک پاکستان کے مثبت رویے اور انسانیت پسندی کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں، جب سے پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا ہے، ہندوستان کی دشمنی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

وہ بہت سے نئے محاذ کھول لیتا ہے اور جنگ لڑنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے، وہ عقل سے پیدل ہے اسی لیے کہ متعصب ذہن میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ وہ اگر چند لوگوں کو شہید اور املاک کو برباد کرے گا تو کیا اس کا حریف خاموش بیٹھا رہے گا ؟ اور وہ اپنے ملک کے تحفظ کے لیے اسے نہیں للکارے گا، بھارت کو یہ بات ٹھنڈے دل سے سوچنی چاہیے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور جب کہ جاپان کے ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے نقصانات سے پوری دنیا اچھی طرح واقف ہے، اس بار تباہی دونوں طرف ہوگی، خون، آگ، دھواں اور لاشوں کا تعفن اس کا پسندیدہ منظر اور ماحول ہے بھارت کو اس بات کا بھی اعادہ کرتے رہنا چاہیے کہ افواج پاکستان پوری دنیا میں اپنی شجاعت اور جنگی مہارت کی بنا پر اول نمبر پر ہے۔

ان کے فولادی سینوں میں جذبہ جہاد اور ایمان کی روشنی پنہاں ہے، وہ اسلام کا جھنڈا اٹھائے سنگلاخ چٹانوں، خارزار میدانوں اور بلند و بالا پہاڑوں پر چڑھ کر '' اللہ اکبر'' کا نعرہ لگاتے ہیں اور میدان کارزار میں کود جاتے ہیں، وہ اس رب کے ماننے والے ہیں جو واحد، یکتا اور دنیا کا تخلیق کار ہے اور جس کے لیے دنیا وجود میں آئی وہ اس کے نبی احمد مجتبیٰ محمدﷺ ہیں۔ بھلا نبیؐ کے امتی کیونکر اپنے وطن کے استحکام سے منہ موڑ سکتے ہیں، لیکن بھارت بار بار منہ کی کھاتا ہے۔ لیکن اپنے مذموم مقاصد سے باز نہیں آتا ہے، اسے صرف اور صرف اپنا مفاد اور جیت عزیز ہے۔

انسانیت کیا چیز ہے اسے نہیں معلوم۔ ہم گرفتار پائلٹ ابھی نندن کو عزت کے ساتھ رخصت کرتے ہیں اور سنت رسولؐ پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، بدرکے قیدیوں پر رسول پاکؐ اور صحابہ کرامؓ کا سلوک اور شفقت یاد کرلیتے ہیں ۔اس طرح وزیراعظم عمران خان سفارتی جنگ جیت چکے ہیں ۔

بھارت کی خواہش ہے کہ وہ سیاچن گلیشیر پر قبضہ کرکے پاک چین دوستی میں رکاوٹ کا باعث بنے اس کی خاص وجہ شاہراہ ریشم ہے جو سیاچن گلیشیر کو کنٹرول کرتی ہے۔ 1949 کے معاہدہ جنگ بندی اور شملہ معاہدہ 1972 کیمطابق لائن آف کنٹرول کی نشاندہی دونوں ملکوں سے صلاح و باہمی مشورے سے ہونا باقی تھا لیکن ہندوستان نے مذاکرات سے اپنا دامن بچایا وہ جانتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے وہ بہت کچھ کھو سکتا ہے، دلائل اسے لاجواب کر دیں گے اسی لیے وہ ہمیشہ سے ہی مذاکرات یا مکالمے کی فضا کو پروان چڑھانے سے گریزکرتا رہا ہے، جب کہ پاکستان کا معاملہ بالکل برعکس ہے، ہندوستان نے آج تک اپنے وعدوں کا پاس نہیں کیا، کشمیر کے حوالے سے بارہا وعدے کیے گئے لیکن اب تک رائے شماری کا وعدہ پورا نہ کرسکا۔ بھارت نے طے شدہ معاہدوں کے خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاچن میں اپنی فوجیں اتاردیں اور 15 فروری 1984 میں ہندوستان کے فوجی دستوں نے اس وقت فائرنگ کی جب پاک آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر سیاچن گلیشیر کے علاقے پر دیکھ بھال کی غرض سے پرواز کر رہا تھا۔


یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی فوجیں دو دروں ''بلافون لا'' اور ''سیالا'' پر دھڑلے سے اتر گئی تھیں، چنانچہ پاکستانی افواج نے انھیں پیچھے ہٹانے کے لیے ڈٹ کر مقابلہ کیا، سیاچن گلیشیر میںہندوستان نے فوجی مداخلت کرکے بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں بکھیر دیں اور اس طرح پاکستان پر جنگ مسلط کردی۔ ہندوستان ایسی گھٹیا حرکتیں بارہا کرچکا ہے۔ بھارت کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ طاقت کے بل پر سیاچن کے محاذ پر پاک فوج کو زیر کرلے گا لیکن ایسا کیسے ممکن تھا، پاک فوج اللہ کی مدد سے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی، اس طرح افواج پاکستان کی جواں مردی نے بھارتیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور پاکستان نے بھارت سے قائد پوسٹ واپس لے لی جس پر بھارت نے قبضہ کرلیا تھا۔

اسی طرح پاکستان جب ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا اس وقت کے وزیر اعظم واجپائی اور لیڈر لال کرشن ایڈوانی پاکستان کو مسلسل دھمکیاں دے کر اپنی برتری ثابت کر رہے تھے لیکن جب پاکستان کی طرف سے 28 مئی کو دھماکے کیے گئے اور فضاؤں میں اللہ اکبر کے نعرے گونجنے لگے اور پاکستان پہلا ایٹمی اسلامی ملک بن گیا تو اس وقت ہندوستان نے بھیگی بلی کا کردار ادا کیا اور اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے سامنے رونا شروع کر دیا۔

کارگل کے حقائق بھی دنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستانی فوج کے کارناموں اور شجاعت کی داستانوں سے پوری دنیا واقف ہے ، کارگل بھارتی مقبوضہ کشمیر میں واقع ہے اور نئی سرحد بندی کے تحت1971 میں ہندوستان کا حصہ بن گیا تھا پر پہنچ گئے اور اپنا سامان خور و نوش بھی پہنچا دیا چونکہ اس پہاڑی علاقے میں بلا کی سردی ہوتی ہے، مسلمان اللہ کے حکم سے ہر موسم برداشت کرلیتا ہے، وہ موت سے نہیں ڈرتا ہے وہ اپنے رب کی مدد سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کافر کی زندگی اس کے ارادے، سوچ، سب کچھ برعکس ہے لہٰذا ماہ اکتوبر میں ہر سال دونوں ممالک کی فوجیں ان بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے واپس آجاتی ہیں اس بار جب بھارتی فوجی سردیاں گزارنے گرم مقام پر گئے یہ بات 1998 کی ہے، تو مجاہدین نے سخت ترین سردی اور پہاڑوں پر جمی برف اور برفانی ہواؤں کے موسم میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے کا فیصلہ کرلیا اور یہ سلسلہ پانچ ماہ تک جاری رہا15 ہزار فٹ کی بلندی پر جانا آسان کام نہ تھا، لیکن انھوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے برفانی تودوں اور پہاڑی چٹانوں کا سینہ چیر کر راستہ ہموار کیا اور اپنا سفر شروع کردیا۔

رات کے اندھیرے، پرخطر راستوں کا سفر جان لیوا ہو سکتا ہے لیکن حالات اور ہندوستانی حکومت کے جبر نے انھیں ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کردیا وہ جانتے تھے کہ شہادت ہوسکتی ہے جو بہت بڑا مرتبہ ہے یا پھر غازی کا تاج سر پر سجانے کا موقع ہاتھ آجائے گا، مومن کے سامنے دنیا حقیر ترین ہے، ایک حدیث مبارکہ کیمطابق مومن کے لیے یہ دنیا قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے ۔ مجاہدین کے لیے برف کی سلوں پر رینگنا ہرگز آسان نہ تھا لیکن وہ ایسے راستوں پر سفر کرتے رہے حتیٰ کہ اپنے پانچ چھ ساتھیوں سمیت فوجی پکٹوں پر قابض ہوگئے یہ وہ جگہ تھی جہاںسے بھارتی فوجیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا اور جب کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدین کے قبضے کی خبر دنیا میں پھیلی تو گویا بھونچال آگیا۔

بھارتی فوجیوں کی جابجا لاشیں پڑی تھیں جن سے بدبو اور تعفن اٹھ رہا تھا، بھارت نے اپنے فوجیوں کی نہ لاشیں اٹھائیں اور نہ اس خبر کو طشت ازبام کیا۔ کارگل کے علاقے میں ایک اندازے کیمطابق چار ہزار بھارتی فوجی مارے جاچکے تھے۔ بھارت کا جنگی جنون کشمیر اور پاکستان دونوں کے لیے ہی پریشانی اور نقصان کا باعث ہے لیکن اسے اس بات کا احساس نہیں ہے، کشمیر میں اس کی دہشتگردی نے امریکی، ہندوستانی اور دوسرے ممالک کے پارلیمنٹیرین، سیاستدانوں، ریٹائرڈ فوجیوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے۔ آج حالات اس نہج پر آگئے کہ عالمی قوتیں کشمیریوں کے درد کو شدت سے محسوس کر رہی ہیں ہمارے ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ جو کشمیر کو فتح کرے گا، آزادی دلائے گا، نوبل انعام کا وہ حقدار ہوگا۔

بے شک بات سو فیصد درست ہے پاکستان کا مثبت رویہ دیکھ کر بھی ہندوستان اسی طرح دراندازی کرنے سے باز نہیں آرہا ہے وہ پاکستانی کی لاش بھیجتے ہیں اور وہ بھی شریف اور نیک دل انسان کی، جس کی کوئی غلطی نہیں کس قدر شقی القلب ہے۔ ہندوستانی حکومت اور فوج۔ آخر کشمیریوں کی کیا خطا ہے؟ کیا جرم کیا ہے انھوں نے؟ یہ محض طاقت کا استعمال کرکے اپنی درندگی کو خون پلاتے اور قوت بخشتے ہیں اور انتخابات کے موقعے پر ایک ڈرامہ رچاتے ہیں جس میں قاتل بھی ان کے اور مقتول ان کے ان سے بڑا کوئی اور دہشتگرد ہوسکتا ہے ،عالمی تنظیمیں انھیں بلیک لسٹ کریں جنھوں نے جنت نظیر کشمیر کو آگ میں جھونک دیا اور شہریوں کو سر راہ تہہ تیغ کردیا گیا۔
Load Next Story