ایک انقلابی خبر پہلی بار
اور یہ بہت بڑا انقلابی واقعہ ہے انارکلی جس نے سلیم کے عشق میں زندہ دفن ہونا تک گورا کیا تھا۔
اگر ہم آپ سے یہ کہیں کہ ہم نے اخبار میں ایک ''نئی بات'' پڑھی ہے تو آپ بالکل بھی نہیں مانیں گے کیونکہ یہ دنیا کے دو عظیم ''دانشوروں'' کی رائے کے خلاف بات ہو گی۔ ان میں ایک دانشور تو مغربی ہے غالباً ٹی ایس ایلیٹ نام تھا اس نے تو ادب کی دنیا میں کسی ''نئی بات'' کو ایک ملک فتح کرنے سے تعبیر کیا ہے لیکن دوسرا دانشور جس سے ہماری اکثر آئینے میں ملاقات ہوتی ہے پھر جھگڑا ہوتا ہے اور پھر ہمارے درمیان ''معاملات طے'' پا جاتے ہیں۔
اس دوسرے دانشور جو دانشور ہے تو نہیں لیکن آج کل کے فیشن کے مطابق خود کو دانشور سمجھتاہے کیونکہ اس نے سن رکھا ہے کہ ''روم'' میں وہی کرو جو ''رومن'' کرتے ہیں اور اپنے ہاں کے ''رومن'' آج کل صرف دانشوری کرتے ہیں اسلیے اس نے بھی مروجہ فیشن کے مطابق خود کو وہی سمجھ لیا ہے جو وہ نہیں ہے۔ یہ بھی آج کل ''روم'' کا فیشن ہے یعنی خود کو وہ سمجھو اور سمجھاو جو تم نہیں ہو تاکہ تم کو لوگ وہ نہ سمجھیں جو ''تم'' ہو۔
اس دوسرے دانشور نے کہا ہے کہ ادب کی طرح سیاست میں بھی کوئی ''نئی بات'' کرنا کسی بڑے ملک کو فتح کرنے سے کم نہیں لیکن ہم ان دونوں دانشوروں کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نے اخبار میں بالکل ایک نئی بات سنی ہے اور وہ بات ایک کسی الیکشن کے امیدوار نے کہی ہے کہ میں ''خدمت'' کے جذبے سے سرشار ہو کر سیاست میں آیا ہوں اور میرے سینے میں قوم کا درد جگر ہے۔ یہ یاد نہیں کہ اس نے ''سینہ'' کہا تھا یا گھٹنا۔ کیونکہ ''درد'' جہاں بھی ہوتا ''درد'' ہی کہلائے گا اور ''درد'' کے سوا کچھ بھی نہیں کہلایا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ محض ایک ضمنی بحث ہے کہ اس کا ''درد'' کہاں اٹھا تھا یا اٹھ رہا ہے جس کی وجہ سے مجبور ہو کر اور سب کچھ چھوڑ کر ''خدمت'' کے لیے آ گیا۔ یعنی
ارے چھوڑ چھاڑ کے ''اپنے سلیم'' کی گلی
انارکلی ''ڈسکو'' چلی
اور یہ بہت بڑا انقلابی واقعہ ہے انارکلی جس نے سلیم کے عشق میں زندہ دفن ہونا تک گورا کیا تھا یعنی سلیم ہی اس کا سب کچھ تھا لیکن پھر جب اس پر خدمت کا جذبہ بے اختیار شوق طاری ہو گیا تو سلیم کی ''شہنشاہیت'' کو ٹھوکر مارکر بلکہ اینٹ مارکر سیدھی ''ڈسکو'' جاکر دم لیا۔ غالباً اس زمانے میں ''عوامی خدمت'' کو ''ڈسکو'' کہا جاتا تھا۔
مطلب یہ کہ شہنشاہ اکبر کے زمانے سے لے کر آج تک ایسا کوئی اور واقعہ نہیں ہوا ہے جب انارکلی نے سلیم کی گلی چھوڑ چھاڑ کر ''ڈسکو'' کے لیے خود کو وقف کر دیا ہو یا کسی خان خوانین یا اچھے خاصے آدمی نے اپنا سارا عیش و آرام ترک کر کے ''عوام کالانعام'' کی خدمت پر ''کمر'' باندھ رکھی ہو یعنی بقول دانایان جہاں ایسا نادر وقوعہ پہلی بار ظہور میں آیا ہے۔ ہمارے علم تحقیق کے مطابق اس سے ملتا جلتا واقعہ تاریخ میں اس سے پہلے صرف ایک ''بار'' ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ صوبے کے ایک مشہور و معروف وکیل جو مزدور کسان لیڈر بھی تھے کسی بیماری کے سلسلے میں داخل اسپتال ہو گئے اور وی آئی پی ہونے کی وجہ سے ''بولٹن بلاک'' نامی حصے میں داخل کر دیے گئے جو وی آئی پی مریضوں کے لیے مخصوص ایک خاص حصہ تھا۔
غالباً انگریزوں یا شاید خود لیڈی ریڈنگ کے زمانے میں۔ انھیں عارضہ کوئی نہیں تھا صرف سرکاری خرچ پر ''وی آئی پی'' آرام کرنا چاہتے تھے۔ اتفاق سے بولٹن بلاک کا انچارج ڈاکٹر وہی تھا جس نے پشاور میں پہلی مرتبہ پرائیویٹ پریکٹس کی ابتدا کی تھی۔ یہ ابتدا سولہ روپے سے ہوئی تھی جو اس زمانے میں عام لوگوں کی مہینے بھر کی آمدنی کے برابر تھی۔ اپنے وارڈ کے دورے میں جب اس ڈاکٹر نے اس مزدور کسان لیڈر کو دیکھا تو ابتدائی علیک سلیک کے بعد ڈاکٹر نے لیڈر سے پوچھا کیوں صاحب آپ کے بال کچھ جلدی سفید نہیں ہو گئے؟ لیڈر نے کہا ہاں پر کیا کریں قوم کا غم جو ہم نے اپنے سر اٹھایا ہوا ہے۔
ڈاکٹر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ لیڈر مذکور کو گھٹنے میں کتنا درد جگر اور ایڑی میں کتنا درد گردہ ہے۔ مسکرا کر بولے۔ ہاں جناب اس قوم کی خدمت یا تو آپ نے کی ہے یا میں کر رہا ہوں لیکن یہ بڑی ناشکری قوم ہے مانتی ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر مذکور کو ہم بھی جانتے تھے اس کی ''خدمت گزاری'' کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کا نام لیتے ہوئے عوام اس کے ساتھ قصائی کا اضافہ ضرور کرتے تھے، حالانکہ وہ سرجن نہیں فزیشن تھے۔ بعد میں تو اس نے ایک بہت بڑے صنعتکار اور سیاسی خاندان میں شادی کر کے اور بھی شہرت پائی تو ہم سے تعلق ٹوٹ گیا۔ لیکن جس زمانے میں تعلق تھا تعلق کیا تھا ایک اخبار میں وہ ہمیں بھی ''خدمت قوم'' کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ایک روز اچانک ذہن میں سوال اٹھا۔ پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ جب اتنی فیس لیتے ٹیسٹ اور ایکسرے وغیرہ کرواتے ہیں اور پھر بے شمار ''مہنگی دوائیں'' لکھتے ہیں تو کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مریض کی حیثیت کیا ہے تب اس نے وہ قول زرین ارشاد فرمایا تھا۔ جو بعد میں ایک اغوا کار نے بھی ہمیں ارشاد فرمایا تھا۔ کہ جب جان پر بن آتی ہے تو انسان کسی بھی طرح بندوبست کر لیتا ہے چاہے جائیداد، رہائش، مکان یا خود کو بیچنا کیوں نہ پڑے۔
ایک مرتبہ ہماری موجودگی میں ایک بوڑھا مریض بھی زیر معائنہ تھا۔ مریض اپنی تکالیف بیان کر رہا تھا اور ڈاکٹر ہمارے ساتھ بات چیت کر رہا تھا ساتھ ہی مریض کو توجہ دیے بغیر نسخہ بھی لکھ رہا تھا۔ آخرکار مریض طیش میں آکر اونچی آواز سے بولا۔ یہ کیا آپ ادھر بھی مصروف ہیں اور میرے لیے نسخہ بھی لکھ رہے ہیں ڈاکٹر نے کہا یہ ہمارا تجربہ ہے کہ گاڑی بھی چلا رہے ہوتے ہیں اور بات چیت بھی کر رہے ہوتے ہیں مریض ایک سیدھا یک رخا اور اکھڑ آدمی تھا۔ ڈاکٹر سے اپنا نسخہ کھینچتے ہوئے بولا۔ ٹھیک ہے تو پھر گاڑی نہیں ہوں انسان ہوں۔ اور چلا گیا۔
بات خدمت سے شروع ہو کر گاڑی تک پہنچ گئی تو غلط نہیں پہنچی ہے ''خدمت کی گاڑی'' کے ساتھ کچھ ''دیگر'' مشاغل بھی رکھے جائیں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ سائیں کبیر نے بھی کہا ہے
رنگی کو ''نارنگی'' کہیں بنے دودھ کو ''کھویا''
چلتی کا نام ''گاڑی'' رکھیں دیکھ کبیرا رویا
کبیرا چاہے کتنا ہی روئے گاڑی تو گاڑی رہے گی ''چلتی'' کبھی نہیں بنے گی اور نہ ہی موٹر انسان بن پائے گی اور نہ ہی کالانعام کی ''خدمت'' کا جذبہ ختم ہو گا۔