اسپیکٹرم کی تجدید تاخیر پر ٹیلی کام کمپنیوں کو تحفظات

لائسنس کی مدت ختم ہونے میں ڈھائی ماہ رہ گئے، تجدیدی فریم ورک تشکیل نہ دیا جاسکا

450ملین ڈالر فی لائسنس فیس وصول کرنے کی تیاریاں، ٹیلی کام کمپنیوں کا اظہار تشویش۔ فوٹو : فائل

ٹیلی کام کمپنیوں نے اسپیکٹرم لائسنس کی تجدید کی قیمت 2014میں کی جانے والی تجدید کے برابر رکھنے کی صورت میں اضافی اسپیکٹرم خریدنے کی پیشکش کردی۔

اسپیکٹرم کی تجدید اور اضافی اسپیکٹرم کی فروخت سے حکومت کو 2ارب 20کروڑ ڈالر کی آمدن ہوسکتی ہے۔ اسپیکٹرم کی مہنگی تجدید سے آمدن ایک ارب 30کروڑ ڈالر تک محدود ہوگی اور مارکیٹ میں مسابقت کا ماحول متاثر ہونے کے ساتھ ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری اور خدمات کا معیار بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ٹیلی کام ریگولیٹر اسپیکٹرم لائسنس کی بین الاقوامی شرائط پوری کرنے میں ناکام ہوگیا۔ ملک میں ٹیلی کام خدمات فراہم کرنے والی 2 کمپنیوں کا اسپیکٹرم 25مئی کو ختم ہورہا ہے جس کی تجدید کیلیے حکومت کو کم از کم 30ماہ قبل دسمبر 2016میں درخواستیں ارسال کردی گئی تھیں۔

حکومت کو پی ٹی اے کی سفارشات اور شراکت داروں کی مشاورت سے درخواستیں وصول ہونے کے 3 ماہ کی مدت میں تجدیدی فریم ورک تشکیل دینے کی پابند تھی تاہم لائسنس کی مدت ختم ہونے میں ڈھائی ماہ کا عرصہ رہ جانے کے باوجود یہ فریم ورک سامنے نہ آسکا جس کی وجہ سے ٹیلی کام آپریٹرز کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔


ٹیلی کام انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت لائسنس کی تجدید کیلیے 450ملین ڈالر فی لائسنس فیس وصول کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں جس پر ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے تحفظا ت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ 25مئی کو ختم ہونے والے لائسنس کیلیے مجموعی طور پر 13.6میگا ہرٹز اسپیکٹرم کی تجدید کیلیے 2 ٹیلی کام کمپنیوں کی درخواستوں پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ 450ملین ڈالر کی تجدیدی فیس موجودہ حالات میں موزوں نہیں ہوگی ، تجدیدی فیس کا موازنہ اسپیکٹرم کی نیلامی میں دی جانے والی بولیوں سے نہیں کیا جاسکتا اس لیے کمپنیوں کی جانب سے حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ 2014میں کی جانے والی تجدید کی قیمت کو ہی بنیاد بنایا جائے تاکہ کسی ایک کمپنی کی مارکیٹ پر اجارہ داری کے امکان کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ٹیلی کام کمپنیوں کے مطابق تجدیدی لائسنس کی منہ مانگی قیمت طلب کرنے سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو دھچکا پہنچے گا کیونکہ پاکستانی روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ڈالر کی شکل میں سرمایہ کاری کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔

تجدیدی فیس ادا کرنے والی کمپنیاں پاکستانی روپے میں ریونیو کماتی ہیں جبکہ فیس ڈالر میں وصول کی جائیگی۔ ٹیلی کام انڈسٹری کے مطابق اس وقت ملک میں ڈیٹا کے استعمال کا رجحان انتہائی حد تک بڑھ چکا ہے اس لیے موجودہ کمپنیوں کو اضافی اسپیکٹرم کی بھی ضرورت ہے۔

 
Load Next Story