کشیدگی میں کمی

ایشیا پیسیفک گروپ کے شریک سربراہ بھارتی ہونے کی وجہ سے متعصب ہیں


Editorial March 11, 2019
ایشیا پیسیفک گروپ کے شریک سربراہ بھارتی ہونے کی وجہ سے متعصب ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی ماحول میں کسی حد تک کمی آئی ہے اور معاملات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔گو تناؤ کی کیفیت موجود ہے لیکن جنگ جیسی صورتحال نہیں رہی ہے۔ اب پاکستان کے پالیسی ساز بھی دیگر امور کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے صدر مارشل بلنگ سلیہ کو لکھے گئے ایک خط میں ان سے مطالبہ کیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک جوائنٹ گروپ کے بھارتی سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے' ان کی جگہ کسی اور کو شریک چیئرمین مقرر کیا جائے' پاکستان کے کیس ریویو پروسیس کو غیر جانبدار بنانے کے لیے بھارت کی عدم موجودگی ضروری ہے کیونکہ ایشیا پیسیفک گروپ کے شریک سربراہ بھارتی ہونے کی وجہ سے متعصب ہیں۔

بھارت کی پاکستان سے عداوت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ ہر عالمی فورم پر پاکستان کو بدنام کرنے اور اسے زک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے' کھیل کا میدان ہو' معاشی منڈی ہو یا امن و امان کے حوالے سے کوئی عالمی فورم ہو بھارت نے ہر موقع پر پاکستان کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ یواین او کے اجلاس میں بھی پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے اس کی سازشیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ مولانا مسعود اظہر کے معاملے کو تو اس نے بالخصوص دہشت گردی سے نتھی کر کے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی ہر ممکن بھاگ دوڑ کی۔

بھارت نے پاکستان کا علاقائی اور جغرافیائی طور پر گھیراؤ کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ افغانستان کے راستے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارتی ہاتھ کا متعدد بار انکشاف ہوا' بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کے بھارتی ثبوت پاکستان نے اقوام متحدہ اور امریکا کو پیش کیے مگر امریکا اور اقوام متحدہ نے بھارت کے خلاف ہلکی سی بھی لب کشائی نہیں کی۔ گزشتہ دنوں دہشت گردی کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور پوری دنیا کو یہ بتایا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے، اس سازش کے پس منظر میں اس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اس نے دہشت گردوں کے کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے سفارتی محاذ پر بھرپور جنگ لڑی۔ جس کا اعتراف بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں بھی ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ بھارت کا90گھنٹے کا تصادم اچانک عجیب انداز میں شطرنج کی طرح اختتام پذیر ہوا جو کہ بھارت کی شکست ہے۔

پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کا فوری سیاسی مقصد یہ تھا کہ وہ پاکستان میں کہیں بھی دہشت گردی سے متعلقہ اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے پیشگی حملہ کرے جس میں اس کا مقصد پاکستان کی پراکسی وار کا جواب دینا بھی تھا جب کہ پاکستان کی سیاسی اور دفاعی حکمت عملی نے بھارتی دفاعی اسٹرٹیجی کے بارے میں کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بی بی سی نے بھی بالاکوٹ حملے کے بارے میں بھارتی دعوؤں کو جھوٹ قرار دیدیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر مملکت گری راج سنگھ کی طرف سے ٹویٹر پر شیئر کی گئی تصاویر جن کے بارے میں انھوں نے اور بعدازاں ایک بھارتی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بالا کوٹ کے گاؤں جابا میں بھارتی فضائی حملے کا نشانہ بننے والی عمارت کی ہیں۔

عمارت کی چھت والی تصویر 23فروری جب کہ بغیر چھت کے تصویر26فروری کو حملے کے بعد کی ہے۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ انٹرنیٹ صارفین نے اس عمارت کو ایک نیا نام دینے کی کوشش کی اور اسے جیش کا مدرسہ اور تربیتی اسکول قرار دے دیا۔ بی بی سی کے مطابق یہ تصاویر ممکنہ طور پر جابا میں ہی گرلز ہائر سیکنڈری اسکول کی ہیں اور برسوں پرانی ہیں۔ بی بی سی کی تحقیق کے دوران ان تصاویر کو جب گوگل پر ریورس امیج سرچ کی مدد سے جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر حملے کے بعد کا منظر دکھانے والی تصویر انٹرنیٹ پر اس کارروائی سے برسوں پہلے سے موجود ہے۔ پاکستان پر فضائی حملے کے بعد بھارتی طیاروں نے ایک بار پھر جارحانہ کارروائی کی تو اس بار پاکستان نے اس کا طیارہ مار گرایا اور پوری دنیا کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا۔ اس وقت حالات اس نہج پر جا پہنچے کہ کسی بھی لمحے پاک بھارت جنگ چھڑنے کے خدشات محسوس کیے جانے لگے۔

پاکستانی حکومت نے بڑی دانشمندی سے ان مشکل حالات کو سنبھالا جس میں وہ سرخرو ہوئی۔ پوری دنیا پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مذموم عزائم عیاں ہو گئے یہاں تک کہ بھارت کے اندر بھی مودی کے خلاف بھرپور احتجاج ہوا۔ اب بھارت کی بھرپور کوشش ہے کسی طرح پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے تاکہ عالمی سطح پر اس کے اقتصادی مفادات کو بھرپور نقصان پہنچایا جا سکے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے مراسلے میں یہ کہا گیا ہے بھارتی وزیر خزانہ نے 18فروری کو آئی سی آر جی کے اجلاس میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا اور بلیک لسٹ کرنے کا بیان دیا تھا، بھارت ایف اے ٹی ایف کو سیاسی پلیٹ فارم بنانا چاہتا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، بھارت پاکستانی کے اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، پاکستان کے کیس ریویوپروسیس کو غیر جانبدار بنانے کے لیے بھارت کی عدم موجودگی ضروری ہے۔

خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بھارت کے بجائے مشترکہ گروپ کا شریک سربراہ کسی اور رکن ملک کو تعینات کیا جائے' اسد عمر نے ایف اے ٹی ایف کے صدر کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف/آئی سی آر جی اور مشترکہ گروپ کے ساتھ کام کرنے اور ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسد عمر کے اس خط پر ایف اے ٹی ایف کے صدر بھارت کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں لیکن ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ بھارت ہر عالمی فورم پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے پریشان کن ہے جس سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے دوست اور مسلم ممالک کو اعتماد میں لے تاکہ عالمی سطح پر بھارت کی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔

پاکستان نے اب تک بھارت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ایشو پر بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ہونا تو یہ چاہیے کہ بھارت سرحدوں پر کشیدگی کم کرے تاکہ اس خطے میں دائمی امن قائم ہوسکے ۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آچکی اور بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر نے اپنی ذمے داریاں بھی سنبھال لی ہیںجب کہ پاکستان میں بھارتی سفیر اجے بساریہ بھی بھارت میں مشاورتی عمل مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد میں پہنچ چکے ہیں۔یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی معاملات معمول کے مطابق چل پڑے ہیں اور امید یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید بہتری کی طرف گامزن ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں