غیرروایتی بات چیت واحدحل ہے

اپریل میں ہندوستان کے الیکشن کے کیا نتائج آتے ہیں


راؤ منظر حیات March 11, 2019
[email protected]

محترم وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں چنددن قبل بہت اچھی تقریرکی۔ہندوستان سے امن کی بات۔ساتھ ساتھ ہولناک انکشاف بھی کیا۔عمران خان نے کہاکہ دوراتیں پہلے انڈیانے ہمارے ملک کے خلاف پانچ سے سات میزائل داغنے کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔فیصلہ ہوچکاتھاکہ انڈین ائیرفورس کے دوطیارے گرانے کابدلہ لیا جائیگا۔ بقول وزیراعظم عمران خان،پاکستان کویہ اطلاع بروقت مل گئی۔

ہماراعسکری جواب مکمل طورپردرست تھا۔ ہندوستان کے مقابلے میں دگنازیادہ میزائل داغنے کافیصلہ کرلیا۔یعنی اگر ہندوستان ہمارے چارپانچ شہر،تباہ کرتا توہم اس کے دس سے پندرہ اہم ترین شہرفناکردیتے۔سادہ سامطلب یہ کہ اس خطہ میں دوکروڑسے لے کرچھ کروڑانسان مارے جاتے۔ یہ جنگ قطعی طورپرمحدودنہ رہتی اوراس کے بعدجوکچھ بھی ہوتا، اندازہ لگانااَزحدمشکل اورخوفناک ہے۔ذاتی رائے میں انڈیا کویہ پاگل پن والی حرکت کی ابتداء نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مگر باربارعرض کررہاہوں کہ آرایس ایس کا تربیت یافتہ وزیراعظم نریندرمودی کسی طورپربھی متوازن شخص نہیں ہے۔اس سے کچھ بھی بعیدنہیں ہے۔ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سفرمکمل طورپرغیرمعتدل رہا ہے۔آرایس ایس کے نزدیک پاکستان کاوجودانتہائی غلط ہے اوراسے ختم کردینا چاہیے۔1947ء سے لے کرآج تک آرایس ایس کے ہمارے ملک کے متعلق منفی خیالات مکمل طورپرایک جیسے ہیں۔

کیاآپکواندازہ ہے کہ اس ہولناک منصوبہ کی خبر پاکستان کوکس نے دی۔ہندوستان کوہمارے ردِعمل سے کس نے آگاہ کیا۔لازم ہے یہ وہی طاقتورملک کرسکتے ہیں جنکے پاس وہ ٹیکنیکل صلاحیت موجودہے کہ برصغیرکے متعلق درست معلومات بروقت دستیاب ہوں۔جنکے سیارے خلاء میں ہمہ وقت موجودرہتے ہوں۔اس میں امریکا صف اوّل میں ہے اوراس کے بعدچین۔ان دوممالک کے علاوہ کسی بھی ریاست کے وسائل اجازت نہیں دیتے کہ پوری دنیاکے معاملات پر کڑی نظررکھے۔جب ان ممالک کواندازہ ہواکہ ہندوستان کاایک انتہائی غیرذمے دارانہ رویہ ایک ایسے ردِعمل کوجنم دے سکتاہے جس سے اَسی فیصد دنیا پر ابتر اثرات پڑینگے تووہ دیوانہ واردونوں ممالک کے درمیان صلح کی کوشش کرنے لگے۔میزائل داغنے کافیصلہ توخیروقتی طور پر ختم ہوگیا یا موخر ہوگیا۔

بہرحال کشیدگی میں تھوڑی سی کمی لائی گئی۔مگرآرایس ایس کی موجودگی میں نکتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہمسایہ ملک پاکستان کے خلاف کچھ بھی کرسکتا ہے۔نریندرمودی آٹھ برس کی عمرسے آرایس ایس سے منسلک ہے۔اس لیے اس کے ذہن کوسمجھناہرگزہرگزمشکل کام نہیں ہے۔مسلم دشمن ہے اور مرتے دم تک رہیگا۔ طالبعلم کے نزدیک دنیاکی سب سے بڑی،مضبوط اور غیر ذمے داردہشتگردجماعت آرایس ایس ہے۔جسکے پاس ایک بہت بڑے ملک کی حکومت بھی ہے۔ بی جے پی، دراصل آرایس ایس کاسیاسی چہرہ ہے۔ دیکھا جائے تو چنددن قبل برصغیرمیں اجتماعی خودکشی کوبیرونی عوامل نے روکا۔یہ مثبت کام بیرونی طاقتوںنے ہماری محبت میں نہیں کیا۔ انھیں اندازہ تھااورہے کہ ان دوممالک کے درمیان روایتی یاغیرروایتی جنگ سے خطہ کی نہیں،پوری دنیامیں ایسی تباہی پھیل جائے گی جسکے اثرمیں وہ خودبھی آسکتے ہیں۔

مگرکیایہاں یہ بنیادی نکتہ پیدا نہیں ہوتاکہ جواہم کام بیرونی طاقتوں نے ہم دونوں ملکوں سے منوایا،وہ ہمسایہ ملک بذاتِ خودکیوں نہیں کرسکتے۔آخروہ کیامسئلہ ہے کہ دوایٹمی قوتیں اپنے مسائل باہمی بات چیت سے حل نہیں کرسکتیں۔ اتنی دشمنی،اتنی قتل وغارت کی باہمی خواہش،ایک دوسرے سے قیامت خیزنفرت کیسے ہوئی،کیونکرہوئی اوراس انتہاپرکیسے پہنچ گئی۔اس پرکوئی لیڈر،دانشورقطعی بات نہیں کرتا۔ دونوں ممالک برملااعلان کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کو مکمل طورپرتباہ کرسکتے ہیں۔اس پرفخریہ اندازمیںبات کرتے ہیں۔اپنی تباہی کو Collateral Damageقراردیکرخوش ہوتے ہیں۔دوسری یاتیسری ایٹمی اسٹرائیک کی صلاحیت کے متعلق بات کرتے ہیں۔ خوفناک سچ یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے مسائل کوباہمی طورپرمذاکرات کے ذریعے حل نہیں کر سکتے۔یہ ایک اجتماعی ناکامی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

اندرونی عوامل پرگزارش کرنے سے پہلے ذہن میں بیرونی محرکات پرگزارش کرونگا۔امریکا،روس،برطانیہ،چین اورفرانس وہ ممالک ہیں جوہمارے جیسے فارغ العقل ممالک کواَسی سے نوے فیصداسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ اور اس قدرمنافع کماتے ہیں کہ آپ تصوربھی نہیں کرسکتے۔یہ اربوں نہیں، کھربوں ڈالرکے مالی فوائدہیں۔یہ ممالک ایک حیرت انگیز کھیل کھیل رہے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ ہم جیسی ریاستوں کے لوگ جذباتی ہیں،ماضی میں رہ رہے ہیں۔اس لیے وہ بڑی دانائی سے ہمارے امن کی کوششوں کواپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔دوبارہ عرض کرتاہوں کہ بڑی قوتیں، خلفشار کو مستقل ختم نہ کرنے کے لیے،تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔انکابیانیہ انتہائی منافقانہ ہے۔ بڑے آرام سے کہتے ہیں کہ پاکستان اورہندوستان کو ہولناک جنگ سے پرے پرے کردیا۔نہیں،یہ بالکل غلط ہے۔

مضبوط طاقتیں بالکل نہیں چاہتیں کہ ہمارے درمیان دوستی ہو۔برصغیرمیں امن ہو۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے مذاکرات کریں۔ کیوں۔ صرف اس لیے کہ پاکستان اورہندوستان کی باہمی نفرت کی بنیادپرانکی جنگی صنعت چل رہی ہے۔اگرہم دونوں ممالک میں صلح ہوگئی توانکی موت پھیلانے کی انتہائی فائدہ مند انڈسٹری بندہوجائے گی۔اوریہ وہ ہونے نہیں دینگے۔یہ لایعنی بات ہے کہ مہذب دنیاکے ممالک نے دونوں ملکوں کو جنگ سے روک دیاہے۔ہمیں تواسی صورتحال میںلائے ہی یہ ممالک ہیں۔ ہماراامن،ان ملکوں کی وارانڈسٹری کے لیے زہر قاتل ہے۔یہ جنگ کے شعلوں کوخودہوادیتے ہیں۔ بجھنے نہیں دیتے۔مگراس اَمر کا اہتمام بھی کرتے ہیں کہ اس جنگی جنون سے ان کے عوام مکمل طورپرمحفوظ رہیں۔ یہ بات ہم لوگ سمجھنے سے قاصرہیں۔

چلیے،مان لیجیے،کہ پاکستان اورہندوستان کے بڑے بڑے شہرصفحہِ ہستی سے ختم ہوجاتے ہیں۔لاہور،دہلی،فیصل آباد،اَمرتسر،سیالکوٹ،مدراس جیسے شہرتباہ ہوجاتے ہیں۔ تو کیاواقعی ان اسلحہ مہیاکرنے والے ممالک کی صحت پرکوئی فرق پڑیگا۔ہرگزنہیں۔قطعاًنہیں۔نیویارک،بیجنگ،ماسکو، پیرس اورلندن اسی طرح دمکتے رہینگے جیسے آج ہیں۔صر ف ہم لوگ اورہمارے جیسے کروڑوں لوگ چندمنٹوں میں جہانِ فانی سے اتنہائی تکلیف دہ حالات میں کوچ کر جائینگے۔اَن گنت لاشوں کونوچنے کے لیے پرندے بھی مرچکے ہونگے۔یعنی بربادی بھی ہماری ہی ہے۔موت بھی صرف اور صرف ہمارے گھروں کاطواف کریگی۔اس ممکنہ تباہ کاری کے اثرات سے نہ پاکستان کبھی بھی باہرآسکتاہے اورنہ کبھی ہندوستان۔ تصور فرمائیے کہ برصغیرمیں اَن گنت لاشوں کے انبارلگے ہوں۔ شہروں کاوجودہی نہ رہے تونقصان کس کاہوا۔صرف اور صرف ہمارا۔جنگ کون جیتا ،کوئی بھی نہیں۔ہاراکون،دونوں ملک کے عوام ہارگئے بلکہ دونوں ملک ہی ہارگئے۔یہ وہ امکانات ہیں جس پرہماری قیادتوں کوغوروفکرکرنے کی ضرورت ہے۔

جس دن انڈین ائیرفورس نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی،اس وقت سے لے کرٹھیک اگلے دن تک،جب تک ان کے دوطیارے مارنہیں گرائے گئے۔ پورے ہندوستان میں جشن کاسماں تھا۔جس دن سے پاکستان نے دوطیارے تباہ کیے ہیں۔ہم لوگ بہت خوش ہیں۔کوئی بھی ذی شعوریہ نہیں کہہ رہاکہ یہ تورونے کامقام ہے۔یہ تواس امرکاعملی ثبوت ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو برباد کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔یہ منفی جذبہ دونوں طرف ہے۔مگرہندوستان میں بی جے پی اورآرایس ایس کی حکومت نے بذاتِ خودمزیدگہرااورمضبوط کیا ہے۔

جو انتہاپسندی جنرل ضیاء الحق نے ہمارے ملک میں پھیلائی تھی۔وہ سب کچھ گزشتہ پانچ برس میں نریندر مودی نے ہندوستان میں بڑی کامیابی سے کیا ہے۔ حقیقت کی آنکھ سے دیکھاجائے تو نریندر مودی، ہندوستان کاضیاء الحق بن چکاہے۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت کسی بھی صورت میں پائیدارامن کے لیے مثبت نہیں ہے۔مگرالمیہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوتیں بی جے پی کوکبھی بھی حکومت سے باہرنہیں جانے دینگی۔ دیکھیے۔ اپریل میں ہندوستان کے الیکشن کے کیا نتائج آتے ہیں۔

سوچناتویہ ہے کہ اب کیاکیاجائے۔دشمنی کوکم یاختم کرنے کااختیاربھی صرف اورصرف دونوں ملکوں کے مقتدر طبقے کے پاس ہے۔عوام تودونوں طرف سے مارے گئے ہیں۔ غیرمعمولی صورتحال میں غیرمعمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ فیصلے حددرجہ نامقبول بھی ہوسکتے ہیں۔جب تک ہندوستان میں آرایس ایس کی حکومت ہے،نریندرمودی بات چیت کی طرف نہیں آئیگا۔وہ امن کی بات کریگا تو اس کا پانچ برس کا تشکیل شدہ منفی بیانیہ ختم ہوجاتاہے۔

یہ موقعہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت،ہندوستان کی ان سیاسی قوتوں سے مذاکرات کرے جواعتدال پسندہیں۔راہول گاندھی اوراس جیسی سوچ کے سنجیدہ لوگوں سے بات چیت ہونی چاہیے۔دونوں طرف امن پسند لوگوں، لکھاریوں، فنکاروں، شاعروں،مذہبی علماء،سول سوسائٹی،این جی اوزاورتھنک ٹینکس کوایک دوسرے سے مکالمے کرنے کی بھرپوراجازت ہونی چاہیے۔ امن پسنداقدامات کوموثربنانے کے لیے ذمے دارلوگوں کوویزے میں سہولتیں فراہم کی جانی چاہییں۔یہ واحدطریقہ ہے جس سے امن کاکوئی راستہ نکل سکتا ہے۔ شائدیہ آخری کوشش بھی ہو۔اگریہ ناکام ہوگئی توپھرجنگ ہوگی۔ اَن گنت لوگ مارے جائیں گے۔ مذاکرات تواس کے بعدبھی کرنے پڑیںگے۔اگرتباہی کے بعدبھی وہی کچھ کرناہے تواب کیوں نہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں