شہزادی ریماامریکا میں نئی سعودی سفیر

شہزادہ محمد بن سلمان کے مرکزی دفتر میں شہزادی ریما مشیر کی خدمات بھی انجام دے چکی ہیں


Tanveer Qaisar Shahid March 11, 2019
[email protected]

یہ ایک غیر معمولی قدم ہے ۔ ایک انقلابی فیصلہ ۔آیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ سعودی عرب ایسا ملک کسی مغربی ملک میں اپنے شاہی خاندان کی ایک معزز خاتون، شہزادی ریما بنت بندرالسعود، کو سفیر مقرر کر دے؟ اور وہ بھی امریکا ایسا آزاد خیال، سیکولر اور انتہائی طاقتور ملک ۔ امریکا میں کسی تجربہ کار اور کیریئر مرد سفارتکار کو بھی سفارتکاری کے فرائض انجام دیتے ہُوئے دانتوں پسنہ آ جاتا ہے ۔ چہ جائیکہ کوئی مسلم خاتون یہ مہم انجام دینے کے لیے تعینات کر دی جائے ! سعودی عرب مگر تیزی سے جوہری طور پر منقلب ہو رہا ہے ۔

ساری دُنیا میں اِسے خوشگوار حیرت سے دیکھا جا رہا ہے ۔ سعودی عرب کے فرمانروا جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دَورِ حکومت میں خصوصاً سعودی خواتین کو غیر معمولی حقوق دیے جا رہے ہیں۔ سعودی تجارت ، صحافت اور سفارت کے میدانوں میں اہم عہدوں پر اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بخوبی اپنے فرائض انجام دیتی نظر آ رہی ہیں ۔ سعودی خواتین اخبارات کی مدیر بھی بن رہی ہیں اور ٹی وی اینکرز بھی۔ سعودیہ کی ڈاکٹر فاطمہ باؤثمین کو یہ منفرد ترین اعزاز ملا ہے کہ انھوں نے عالمِ عرب میں خاتون کی حیثیت میں پہلی بار ماڈرن آرٹیفیشل انٹیلی جنس میںپی ایچ ڈی کی ہے۔

سعودی عرب کے ایک مشہور اخبار میںاگلے ہی روز اُن کا ایک مفصل انٹرویو نظر نواز ہُوا تو عجب مسرت ملی۔ یہ بھی پہلی بار ہُوا ہے کہ ڈاکٹر فاطمہ الرشود نامی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سعودی خاتون کو حرمین کے امورِ نسواں کی معاون سیکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان اپنے والد ِ گرامی کے دستِ راست بن کر سعودی خواتین کے لیے ایک محسن بن گئے ہیں ۔ کہاں وہ وقت تھا کہ مملکتِ سعودیہ میں عورتوں کو کار چلانے کی بھی اجازت نہیں تھی اور کہاں یہ مستحسن وقت آیا ہے کہ امریکا میں ایک سعودی خاتون کو سفیر مقرر کیا گیا ہے ۔ سعودی عرب کے ممتاز انگریزی اخبار ''عرب'' نیوز میں عاصمہ عبدالمالک اور ماریہ حنیف القسیم کا ایک مشترکہ آرٹیکل شایع ہُوا ہے۔ اس مضمون کے مندرجات سے صاف عیاں ہو رہا ہے کہ عالمِ عرب کی دیگر تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین کی طرح سعودی عرب کی خواتین بھی جدید زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنے وطن کی خدمت میں خاصی پیش پیش ہیں۔

چند دن پہلے ہی(8 مارچ) دُنیا بھر میںمنائے گئے خواتین کے عالمی دن کے موقع پرواشنگٹن میں شہزادی ریما بنتِ بندر السعود کا سفیر بنایا جانا خاص اور قابلِ فخر خبر کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ خبر عالمِ عرب میں لاتعداد لوگوں کے لیے بیک وقت مسرت اور حیرت کا باعث بنی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لیے یہ معاملہ حیرانی کا ہر گز نہیں ہے ۔

ہمیں تو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عالمِ اسلام کی پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم پاکستان ہی کی تھیں ۔ ہماری دو معروف خواتین امریکا اور برطانیہ میں سفیرِ کبیر کے فرائض بخوبی انجام دے چکی ہیں۔ اِس وقت بھی ایران میں پاکستانی سفیر ایک خاتون ہی ہیں۔ ہماری تو خاتون ہی سیکریٹری خارجہ ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ شہزادی ریما بنتِ بندر السعود کامیاب سفیر ثابت ہوں گی ۔ اُن کے والد شہزادہ بندر بن سلطان السعود 20 سال سے بھی زائد عرصہ تک امریکا میں سعودی عرب کے سفیر رہے ہیں ۔ جب نائن الیون کا المناک سانحہ وقوع پذیر ہُوا ، شہزادہ بندر بن سلطان ہی اُس وقت امریکا میں سعودی سفیر تھے ۔

اس سانحے نے سعودی عرب کو بھی کسی قدر اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی تھی لیکن شہزادہ بندر بڑے احسن انداز میںاپنے ملک کو اس سنگین بحران سے نکال لے گئے ۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات کو انھوں نے مہارت سے استعمال کیا تھا ۔ شہزادی ریما صاحبہ اِنہی صاحب کی دُختر ہیں ۔انھیں شہزادہ خالد بن سلمان کی جگہ تعینات کیا گیا ہے ۔ شہزادہ خالد سعودی فرمانرواکے صاحبزادے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بھائی اور اب نائب سعودی وزیر دفاع ہیں۔ وہ سعودی فائٹر پائلٹ بھی رہے ہیں۔

شہزادی ریما بنت بندر السعود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ امریکی جامعہ ''جارج واشنگٹن یونیورسٹی'' کی فارغ التحصیل ۔ وہ قدیم انسانی تاریخ کی طالبہ اور دُنیا بھر میں بروئے کار عجائب گھروں کے علم و فن کی ماہر خیال کی جاتی ہیں ۔ وہ بزنس وومن بھی ہیں کہ سعودی عرب میں خواتین کے لیے اُن کا تیار کردہ برانڈڈ پرس نہایت مقبول بھی ہے اور گراں قیمت بھی ۔ انھوں نے اپنے ملک میں انسانیت کی بے لوث خد مت کرنے کے کئی اداروں کی بنیادیں بھی رکھی ہیں، خصوصاً خواتین کو چھاتی کے سرطان سے نجات دلانے کے لیے ۔ ریاض میں ''زہرہ بریسٹ کینسر ایسوسی ایشن'' کی سرگرم کارکن۔ ورلڈ بینک کی ایڈوائزری کونسل کی رکن بھی ہیں۔ کئی برس امریکا میں رہنے سہنے کی بنیاد پر امریکی کلچر، سیاست ، سفارت اور واشنگٹن کے نازک و حساس معاملات کو بخوبی جانتی پہچانتی ہیں۔

شائد اِسی لیے اُن سے بلند توقعات وابستہ کی گئی ہیں ۔ سعودی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یقینِ کامل ہے کہ شاہی خاندان کی یہ نجیب الطرفین اور تعلیم یافتہ خاتون امریکی دارالحکومت میں اپنے وطن کی بہترین خدمت انجام دے سکیں گی۔ چونکہ اُن کے والد صاحب سعودی عرب کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کے چیف بھی رہے ہیں، اِس ناتے سے بھی شہزادی ریما صاحبہ اپنے ملک کے حساس پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ یوں واشنگٹن میں اُن کا سنبھل سنبھل کر چلنا اُن کے لیے کوئی مشکل امر بھی نہیں ہے ۔ بطورِ سفیر نام سامنے آتے ہی شہزادی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا: ''انشاء اللہ سفیر کی حیثیت میں اپنے وطن، اپنے لیڈروں اور اپنے ملک کے بچوں کی بہترین اسلوب میں خدمت کرنے کی بھرپور سعی کروں گی۔''اُن کی اس نئی حیثیت کو، مختلف انداز میں، جانچنے اور پرکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔

مثال کے طور پر کینیڈا میں واٹر لو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی سربراہ، بسمہ مومنہ، کا کہنا ہے :'' شہزادی ریما بنت بندر سلطان السعود لائق خاتون ہیں ۔ امریکا کو اچھی طرح جانتی ہیں ۔ سعودیہ نے انھیں امریکا میں سفیر تعینات کر کے دراصل دُنیا کو دو پیغامات دیے ہیں (۱) سعودیہ اب ایک بدلا ہُوا ملک ہے ۔ خواتین اس کی ترقی کا اب جزوِ ناگزیر بن رہی ہیں(۲)یہ تعیناتی امریکی دارالحکومت میں سعودی عرب کی ساکھ مضبوط کرنے کے لیے ایک پی آر حربہ بھی ہے۔'' مغربی دُنیا میں بھی سعودی عرب کے اس فیصلے کی تحسین کی جا رہی ہے۔ یمن اور افغانستان سے امریکی فوجیں واپس ہونے والی ہیں ۔ اس کے لیے اشارے واضح ہیں ۔ اِس عالمی ماحول میں سعودی عرب کو نئے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ چنانچہ ان بدلے حالات میں واشنگٹن میں ایک بدلہ سوفٹ چہرہ سامنے لایا جانا از بس ضروری تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے مرکزی دفتر میں شہزادی ریما مشیر کی خدمات بھی انجام دے چکی ہیں۔ سعودی ولی عہد کے متعارف کردہ پروگرام ''وژن 2030ء'' کو آگے بڑھانے میں بھی اُن کا نمایاں کردار سمجھا جا رہا ہے ۔ سعودی خواتین کو اسپورٹس کے مختلف شعبوں میں سامنے لانے اور انھیں مطلوبہ تربیت فراہم کرنے میں بھی شہزادی صاحبہ کا زبردست کردار ہے ۔ سعودی خواتین تو انھیں اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہُوئے ''اسپورٹس چیمپئن'' بھی کہتی ہیں ۔

حکومت نے انھیں بار بار خواتین کے کئی اسپورٹس پروگراموں کی سربراہ بھی مقرر کیا ہے ۔ ہر بار ، ہر امتحان میں وہ پورا اُتری ہیں ۔ چونکہ وہ ایک معروف فلنتھرو پسٹ اور بزنس وومن بھی ہیں ، اس ناتے سے '' فوربس مڈل ایسٹ میگزین'' نے انھیں شرقِ اوسط کی 200 کامیاب ترین اور موثر خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔ حالیہ ورلڈ اکنامک فورم میں اُن کا خطاب بھی دلکشا اور پُر مغز تھا۔ امریکا میں سعودی سفیر کی اسائنمنٹ شہزادی ریما کے لیے نیا چیلنج ہے ۔ اُن کا ماضی شاہد ہے کہ وہ حال میں بھی کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گی۔ ہماری نیک دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں