او آئی سی میں ہماری شکست لمحہ فکریہ

پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ عرب ممالک سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے


[email protected]

او آئی سی (تنظیم تعاون اسلامی) (Organisation of Islamic Cooperation)تنظیم 58 اسلامی ممالک پر مشتمل ہے۔ جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔

اس تنظیم کو اقوام متحدہ میں باضابطہ نمایندگی دی گئی ہے اور اس کا نما یندہ وفد اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں موجود رہتا ہے۔ تنظیم کے تمام اسلامی ممالک دنیا کے مختلف خطوں یا حصوں مثلاً مشرق وسطیٰ، براعظم افریقہ، وسطی ایشیا، حطنہ بلقان، جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں واقع ہیں۔ چھ ممالک کو اس تنظیم میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔

ان میں بوسنیا، جمہوری وسطی افریقہ، شمالی قبرص، تھائی لینڈ، روس اور سربیا۔ تنظیم کی تشکیل کا پس منظر یہ ہے کہ یو رشلم، بیت المقدس(فلسطین، اسر ائیل) میں مسلمانوں کے متعدد مقدس مقامات چھین لیے گئے۔1969ء میں 21اگست کو ایک انتہائی ناخو شگوار اور سنگین واقعہ پیش آیا۔ اسرائیلی نے مسلمانوں کی مقدس زیارات کو نقصان پہنچایا۔ جس پر عالم اسلام میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعہ کے بعد عالم اسلام کے رہنما اور سربراہان مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے۔ جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمان ممالک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں متحد کر نے کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی ممالک کی اسلامی ممالک کی کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

25ستمبر 1969ء کو او آئی سی ممالک کی کانفرنس کے نا م سے وجود میں آ گئی۔اکتو بر 1973ء میں عرب ممالک اور اسرائیل جنگ ہو ئی۔ جس کے تقریباً چھ ماہ بعد 1974ء میں لاہور میں تنظیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں فلسطینیوں کی تنظیم آزادی کو پہلی بار فلسطینیوں کی واحد قانونی نمایندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے بعد بھی اس تنظیم کا اجلاس منعقد کیا جا تا رہا جس میں موقعے کی مناسبت سے اقدامات کیے جاتے رہے مگر اس تنظیم میں عرب ممالک کے ''مفادات'' کو خاصی اہمیت حاصل رہی ۔ اور پاکستان جیسے ممالک کے مسائل (مسئلہ کشمیر) پر محض مذمتی قراردادیں ہی منظور کی جاتی رہیں۔لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جب تک پاکستانی حکمران کرپشن کی دلدل میں نہیں گرے تھے تب تک پاکستان کو اس تنظیم میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔

اب گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات نے یکم مارچ کو ابو ظہبی میں منعقد ہونے والی اسلامی تعاون کی تنظیم OIC کے وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس میں ہندوستان کی وزیر خارجہ ششما سوراج کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی ، متحدہ عرب امارات نے ہندوستان کو شرکت کی دعوت دینے کا فیصلہ پلواما کے حملہ سے پہلے 4 فروری کو کیا تھا۔ پاکستان نے بھارت کی شرکت پر کہا کہ اگر بھارت کو بلایا گیا تو پاکستان شرکت نہیں کرے گا۔ مگر کچھ نہیں ہوسکا۔ ماضی میں رباط میں جو پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس بلائی گئی تھی اس میں بعض عرب ممالک کی تجویز پر ہندوستان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ہندوستان کے وزیر فخر الدین علی احمد رباط پہنچ گئے تھے۔

پاکستان کے اس وقت کے صدر یحییٰ خان نے سربراہ کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شاہ فیصل، مراکش کے شاہ حسن ، اردن کے شاہ حسین، مصری صدر سادات اور دوسرے عرب رہنماؤں نے یکے بعد دیگرے صدر یحییٰ خان سے ملاقاتیں کیں اور ان پر زور ڈالا کہ وہ بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیں لیکن یحییٰ خان اپنے فیصلہ پراٹل رہے اور آخر کار عرب سربراہوں نے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس فیصلہ کے بعد ہندوستان نے کئی عرب ممالک سے احتجاجا ً اپنے سفیر واپس بلالیے تھے۔لیکن اس بار حالات پاکستان کے حق میں دکھائی نہیں دیے۔ پاکستان کی مایوسی کا اندازہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے جمعے کو پارلیمنٹ میں دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت او آئی سی کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہے اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ او آئی سی ممالک، خصوصاً مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے رشتے بہت خوشگوار ہیں۔ یو اے ای کے ساتھ گزشتہ کچھ سال میں ہندوستان کے رشتوں میں مزید مضبوطی آئی ہے اور قطرنے 2002ء میں پہلی بار ہندوستان کو آبزرور کا درجہ دینے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ علاوہ ازیں ترکی اور بنگلہ دیش تو ہندوستان کو او آئی سی کا رکن بنائے جانے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔ چونکہ اس بار دعوت نامہ یو اے ای نے بھیجا تھا اور وہاں کی آبادی میں ایک تہائی ہندوستانی موجود ہیں، تو اسے کینسل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سعودی عرب، یو اے ای، قطر ہو یا پھر ترکی و بنگلہ دیش وغیرہ، ان سب کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات تو ہیں ہی، ان ممالک میں سرمایہ کاری بھی بہت زیادہ ہے۔

پاکستان کے لیے یہ پوری سرگرمی ایک سبق کے مترادف ہے۔ کیوں کہ اس بار ہندوستان کو ایک بانی ملک پر ترجیح دی گئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سشما سوراج نے تقریب میں شرکت کی اور دہشت گردی کے بہانے بغیر نام لیے پاکستان کو خوب کھری کھوٹی سنا ڈالی۔ بلاشبہ بعد میں او آئی سی نے اپنے اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کا ذکر کیا لیکن اس کے باوجود اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ او آئی سی کا فیصلہ پاکستان کے لیے ایک جھٹکا ثابت ہوا ہے، یہ درد کافی مدت تک پاکستان کو تکلیف دیتا رہے گا۔

اس لیے پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ عرب ممالک سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے، یقینا عمران خان کی قیادت میں حکومت اس ملک کے مثبت امیج کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر عرب ممالک نے 430 ارب ڈالر کا زر مبادلہ رکھنے والے ملک بھارت کو محض اس کی معیشت کی وجہ سے اہمیت دی ہے اور 14ارب ڈالر زرمبادلہ رکھنے والے پاکستان (جس میں سے 6ارب ڈالر تو دوست ممالک کے امانتاََ پڑے ہوئے ہیں) کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جب بات روپے پیسے کی ہو تو سب لوگوں کا ایک ہی مفاد ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ برادر اسلامی ممالک نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیا۔ اس لیے ہمیں اپنے روپے کو بھی مضبوط کرنے کی جانب توجہ دینی ہے تاکہ دنیا ماضی کی طرح پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں