’’ہٹ اینڈ رن‘‘ کہہ کر سلمان کوبدنام نہ کریںسلیم خان
سلمان وہاں سے بھاگا نہیں تھا، پولیس اسے نکال کر لے گئی تھی
August 05, 2013
بھارتی فلم انڈسٹری کے سابق اسکرین رائٹر اور اداکار سلیم خان کی وجہ شہرت نہ صرف ان کی اداکاری بلکہ ان کا سپر اسٹار بیٹا سلمان خان بھی ہے۔
سلیم خان نے اپنے بیٹے کے کسی بھی متنازع معاملے پر کبھی بھی تبصرہ یا انٹرویونہیں دیا ہے۔ لیکن''ہٹ اینڈ رن'' کیس میں سلمان خان پر لگنے والی فرد جرم نے انہیں لب کشائی پر مجبور کردیا ہے۔ سلیم خان نے گزشتہ دنوں ایک بھارتی جریدے کوانٹرویو دیا جسے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
٭سلیم صاحب،آپ نے آج تک کبھی سلمان کے کسی معاملے پر لب کشائی نہیں کی لیکن اب کس بات نے آپ کو بولنے پر مجبور کیا ہے ؟
یہ ایک فطری عمل ہے کہ ہر باپ اپنے بیٹے کی حمایت لیتا ہے۔ ہم اس مقام پر ہیں کہ ملک کے بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں اور مجھے اپنے عدالتی نظام پر بھی مکمل بھروسہ ہے۔ وہ گناہ گار ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن مجھے محسوس ہوا ہے کہ اب ان سب چیزوں پر بات کرنے کا وقت آگیا ہے جس کا میڈیا ہر وقت راگ الاپتا رہتا ہے۔ گرچہ کیس ابھی عدالت میں ہے لیکن ایک ذمہ دارشخص کی حیثیت سے کچھ باتیں میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہو۔
٭ یہ ہٹ اینڈ رن کیس کیاہے؟
ہٹ اینڈ رن میںبے حسی اور بزدلی کی پیچیدگیاں ہیں۔ اگر ایسی صورت حال میں آپ بھاگ جائیں تو آپ بزدل اور بے حس بن جاتے ہیں۔ وقوعے کے روز رات ڈھائی بجے سلمان کی کار پھسل کر فٹ پاتھ چڑھ گئی اور بد قسمتی سے یہ پہلا ہی دن تھا کہ وہ لوگ فٹ پاتھ پر سو رہے تھے کیوں کہ یہ ستمبر کا مہینہ تھا جس میں بس مون سون شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔ یہ حادثہ ہمارے گھر سے تقریباً سو کلومیٹر دور ہوا تھا اورگاڑی کو صبح وہاں سے ہٹایا گیا تھا۔
اتفاقاً اس دن سلمان کے ساتھ اس کی حفاطت کے لیے دیا گیا پولیس کانسٹیبل (رویندر پٹیل) تھا۔ حادثے کے بعد وہاں لوگوں کا ہجوم لگ گیا تھا اور وہ گاڑی پر پتھراؤ کر رہے تھے۔سلمان گاڑی سے اتر ان کی مدد کرنا چاہ رہاتھا لیکن اس کی حفاظت کے لیے مامورکانسٹیبل رویندر پٹیل اسے گھر لے آیا جہاںاس کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور گھر سے ہی اسیالکوحل ٹیسٹ کے لیے لے جایا گیا تھا۔ اب یہاں بھاگنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے ؟ ہٹ اینڈ رن کا مطلب تو یہی ہے کہ آپ نے اپنی کار سے کسی کو ٹکر ماری اور وہاں سے بھاگ گئے۔ اور اس رات سلمان گاڑی چلا رہا تھا یا نہیں یہ بات تو خود ایک سوالیہ نشان ہے لیکن میںاس پرکچھ نہیں کہوں گا کیوں کہ کیس ابھی عدالت میں ہے۔
یہ بات بھی بار بار کہی جاتی ہے کہ حادثے کے وقت گاڑی کی رفتارنوے کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ جس جگہ حادثہ ہوا وہاں اتنی دکانیں اور تنگ راستہ ہے کہ مائیکل شوماکر بھی اپنی فراری میں نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار نہیں چھوسکتا تو کیا سلمان کے گاڑی چلاتے وقت سب دکانیں غائب ہوگئیں تھی۔
یہ بات بھی متواتر کہی جاتی ہے کہ اس حادثے میں چار فراد زخمی ہوئے تھے۔ جب کہ حادثے میں چار نہیں بلکہ ایک شخص زخمی اور ایک جاں بحق ہواتھا ۔ اور بعد میں مجھے وہاں موجود لوگوں نے بتایا تھا کہ زخمی ہونے والا شخص گاڑی پر پتھر پھینک رہا تھا اور ایک پتھرگر نے کی وجہ سے اس کے پیر میں فریکچر ہوگیا تھا۔
٭یہ بات اکثر و بیشتر پوچھی جاتی ہے کہ آخر کیوں سلمان کو قانون سے بالا تر سمجھا جائے اور اسے کیوں رعایت دینی چاہیے؟
میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس کے ساتھ ملک کے کسی دوسرے شہری سے مختلف سلوک کیا گیا۔ اسے اٹھارہ دن کے لیے جیل میں ڈالا گیا،وہ اس کیس میں دس سال سے الجھا ہوا ہے اور اس پران دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے جو شاذو نادر اور انوکھے مقدمات میں لاگو ہوتی ہیں۔
اس پر بھوپال گیس سانحے میں لگنے والی دفعات سے زیادہ سخت دفعات لگائی گئیں ہیں۔ حکومت نے اس کا پاسپورٹ لے لیا ہے اور وہ بغیر اجازت سفر نہیں کر سکتا تو کیایہ سب مراعات ہیں؟ کیا حکومت اس سے نرم برتاؤکر رہی ہے؟ ضمانت کے وقت سلمان سے بیس لاکھ روپے جرمانہ مانگا گیا جو اس نے فوراً ادا کردیا۔
یہاں کئی حادثات ہوتے ہیں ان میں سے کتنے لوگوں پر بیس لاکھ روپے جرمانہ لگایا گیا؟ ان میں سے کتنے لوگوں کو اٹھارہ دن کے لیے جیل بھیجا گیا؟ سلمان سے غیر مساوی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ میری درخواست ہے کہ اس سے ایک عام شہری کی طرح برابری کا برتاؤ کیا جائے اور اس مسئلے کو قانونی طریقہ کار پر چلنے دیں۔ اور میڈیا لوگوں کے دماغ میں یہ سب لکھ کر تعصب پیدا نہ کرے کہ اس کے ساتھ قانون سے با لاتر سلوک کیا جارہا ہے۔
یہ بات نہیں ہے کہ میرے لیے میرا بیٹا غیر اہم ہے یا مجھے ان سب باتوں میں دلچسپی یا پریشانی نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کبھی ان معاملات پر بات نہیں کی۔ یہ معاملہ ابھی عدالت میں چل رہا ہے،لیکن میں مجبور ہو کچھ ایسی باتیں بتانے کے لیے جو بظاہر غیر اہم اور بے جا لگے گی۔ عدالتی نظام کے علاوہ مجھے اپنے وکلاء پر اعتماد ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ثابت کر دیں گے کہ سلمان بے گناہ ہے اور وہ یہ کیس نہ صرف پیشہ ورانہ بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی لڑیں گے۔
لیکن''ہٹ اور رن'' کہہ کر آپ نہ صرف سلمان کو موردِالزام ٹہرا رہے ہیں بلکہ ایک شخص کے کردار پر کلنک کا ٹیکہ بھی لگا رہے ہیں۔ میں ایسے واقعات جانتا ہو جن میں سلمان نے لوگوں کی جان بچائی ہے۔ ایک بار باندرا میں سڑک پر ہونے والے حادثے میں اس نے دو زخمی بھائیوں کو ہسپتال پہنچایا جہاں ایک کی جان بچ گئی تھی اور وہ خاندان آج تک کہتا ہے کہ ان کا ایک بیٹاسلمان کی وجہ سے زندہ ہے۔
اسی طرح ورولی میں ایک ٹرک نے ماروتی کو ٹکر ماردی تھی اور سلمان نے ماروتی میں سوار فیملی کو ہسپتال پہنچایا تھا۔ اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھائیں۔ جس رات یہ حادثہ ہوا وہ گاڑی سے اتر کر مدد کرنا چاہ رہا تھا لیکن اس کے ساتھ موجود پولیس گارڈ اسے وہاں سے نکال کر لے گئی کیوں کہ لوگ گاڑی پر پتھراؤ کر رہے تھے۔
٭ کیا آپ سلمان کے کیس میں ابھا سنگھ کے ملوث ہونے پر کوئی تبصرہ کریں گے؟
ہندوستان میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی ایک سو بیس کروڑ کی آبادی میں یہ دو لوگ ہی بچے ہیں جو ایمان دار ہیں۔ ابھا سنگھ اور وائے پی سنگھ۔ او رمیرے خیال میں سوسائٹی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں کو اسی طرح محفوظ کرلے جس طرح ہم نے تاج محل کو کیا ہے۔