آپ کو آپ سے چرا لیا گیا ہے
ہم دیکھنے میں انسان لگتے ہیں، پر ہمیں تیزی سے روبوٹ بنایا جا رہا ہے
بس ایک بڑی خبر مل جائے جو شارک کی طرح باقی مچھلیوں کو کھا جائے۔ پسند کی شادی کی خواہش مند اطالوی نژاد پاکستانی بچی ثنا چیمہ کو دھوکے سے پاکستان لا کر قتل کرنے کے الزام میں اطالوی میڈیا میں برپا ہونے والے شور کی بدنامی سے خوفزدہ ہو کر حرکت میں آنے والی پولیس نے ثنا کے والد ، بھائی اور چچا کو حراست میں لیا۔ زیریں عدالت نے تینوں ملزموں کو ناقص ثبوت کی بنا پر بری کردیا اور ریاست اس فیصلے کو چیلنج کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔
ہم میڈیائی معذرت خواہ ہیں کہ ثنا چیمہ قتل کیس ملزموں کی بریت پندرہ فروری کو ہوئی۔اگر اس سے ایک روز پہلے پلوامہ کے خودکش حملے میں چوالیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت نہ ہوتی تو میڈیا یہ خبر ضرور دیتا۔اب دینے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پرانی ہو گئی ہے۔
بڑی بدقسمتی ہے کہ ایبٹ آباد کے گلیات میں اپنی سہیلی کو پسند کی شادی کے بعد گاؤں سے فرار کروانے کے شبہے میں جس سولہ سالہ بچی نورین ریاست کو ایک پندرہ رکنی مقامی جرگے کے فیصلے کے مطابق قتل کر کے سوزوکی میں ڈال کر جلا دیا گیا۔اس جرگے کو ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ناقص ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا۔ بدقسمت نورین کی مزید بدقسمتی کہ یہ عدالتی فیصلہ بائیس فروری کو سامنے آیا جب پوری ریاست اور پوری قوم اور پورا میڈیا بھارتی جنگی عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنا ہوا تھا۔ایسانہ ہوتا تو ہم اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں نبھاتے ہوئے نورین کیس کی کوریج ضرور کرتے۔ اس فیصلے کو بھی تین ہفتے گذر گئے اب کوئی فائدہ نہیں۔ نورین کے باپ ریاست علی کے پاس تو گاؤں سے ایبٹ آباد شہر تک جانے کے لیے ویگن کا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا چنانچہ ریاست علی کی طرف سے ریاستِ پاکستان اس فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کرے گی یا نہیں ؟ اگر ایسی کوئی خبر آئی تو انشااﷲ ہم ضرور آپ تک پہنچائیں گے بشرطیکہ بھارت نے مزید بدمعاشی نہ دکھائی۔
کوہستان وڈیو کیس میں پانچ بچیوں اور تین لڑکوں کی جرگے کے فیصلے کے مطابق ہلاکت کا انکشاف کرنے والا آخری بنیادی گواہ افضل کوہستانی بھی پانچ روز پہلے ایبٹ آباد میں دن دھاڑے قتل کر دیا گیا۔آپ کو یاد تو ہوگا کہ افضل کے قتل کی خبر دو تین نیوز بلیٹنز میں ضرور چلائی گئی تھی۔مگر آپ سات برس پر محیط اس پورے کیس میں ریاست کے ہر ادارے کی لاچاری اور بے حسی پر اگر پورے پورے ٹاک شو یا آٹھ کالمی سرخی کی توقع کر رہے ہیں تو یہ ہم سے نہ ہوگا۔
افضل کوہستانی کی جرات اور شہادت کو ضرور سلام مگر عمران خان کی گڈ گورننس، نواز شریف کی بیماری ، آصف زرداری کے مقدمات کی سماعت اور آئی ایس پی آر کی بریفنگ کی کوریج کے بعد اتنی جگہ اور وقت کہاں بچتے ہیں کہ ہم افضل کوہستانی کو تحفظ فراہم کرنے میں ریاست کے ہر ادارے کی ہر مرحلے پر بری طرح ناکامی کا بھی برابری سے ذکر کریں۔
مگر میں آپ کو اس کان پھاڑ غوغائی ماحول میں کیا بتانا چاہ رہا ہوں؟ شاید اس وقت میری کیفیت بقولِ یوسفی یوں ہے کہ اس محفل میں اس قدر شور تھا کہ اپنے منہ سے نکلی بات بھی پلے نہیں پڑ رہی تھی اور سامنے والے سے پوچھنا پڑ رہا تھا کہ میں نے ابھی ابھی کیا کہا ؟
سنسر کا سب سے جدید اور موثر طریقہ شور ہے۔ اتنا شور مچاؤ کہ لوگ اصل بات بھول کر اپنے کان بچانے میں لگ جائیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو آپ سے چوری کر لیا گیا ہے۔آپ کے دماغ پرڈاکہ پڑ چکا ہے، پر آپ کو خبر تک نہیں۔ ہم دیکھنے میں انسان لگتے ہیں، پر ہمیں تیزی سے روبوٹ بنایا جا رہا ہے، ہماری سوچ مختلف رنگ برنگی اسکرینز کی قیدی بنا دی گئی ہے۔ انگلیاں وٹس ایپ نے، ٹویٹر نے اور فیس بک نے ٹیڑھی کر ڈالی ہیں۔
آپ کہیں گے یہ کیا سٹھیائی ہوئی باتیں کر رہا ہوں، ہم تو آج بھی ہم ہی ہیں، دل دھڑکتا ہے، دماغ سوچتا ہے، اپنی مرضی سے جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔بس یہی تو خوبی ہے اس ڈاکے کی جو پڑ چکا، اس دماغ کی کہ جس کی جیب کاٹی جا چکی، اور ایک ہی رنگ اور سائز کے وہ کپڑے کہ جو مجھے آپ کو پہنائے جا چکے ہیں۔اور سب اتنی صفائی سے ہوا ہے کہ مجھے آپ کو محسوس تک نہیں ہو رہا۔
اچھا اے سڑک چھاپ لوگو۔ایک ٹیسٹ کر لیتے ہیں۔یہ جو ہر شام سات سے رات بارہ بجے تک سیکڑوں اسکرینوں پر مختلف رنگوں کے طوطے ہم اور آپ پلک جھپکائے بنا دیکھتے رہتے ہیں۔کبھی دھیان دیا کہ ان سب کی ٹیں ٹیں ایک ہی جیسی ہوتی ہے ، اگر اس کا نام ہی بولنے کی آزادی ہے تو ذرا اس ٹیں ٹیں کے مقابلے میں آپ چند منٹ کے لیے ذرا چھت پر چڑھ کر تو چیخئے کہ شٹ اپ۔ میری بات سنو ،میں کچھ الگ سے کہنا چاہتا ہوں ؟پتہ ہے اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ کے گھر والے نہ سہی آپ کے آزو بازو والے ضرور کہیں گے اس کی عقل سرک گئی ہے، یہ پاگل ہو گیا ہے۔اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔
آپ بدلے میں کہہ کر دیکھیں کہ عقل میری نہیں ان طوطوں کی سرک گئی ہے جو روزانہ ٹی وی پر الگ الگ شکلیں اور نام سجائے ایک ہی راگ کورس میں گا رہے ہیں۔اور اتنا اونچا گا رہے ہیں کہ ہمیں کچھ اپنا اور الگ سے سوچنے کی مہلت ہی نہ ملے اور اگر سوچ بھی لیں تو اس شور میں دوسرے کو کیا خود اپنے کانوں کو اپنی ہی کہی بات بھی سنوا نہ پائیں۔آپ ذرا کہہ کہ تو دیکھیں کہ پاگل میں نہیں یہ ہیں جو ہم سب کو ایک ہی سوچ کے سانچے میں ڈھالنا چاہ رہے ہیں تاکہ ہم کوئی سوال نہ اٹھا سکیں۔اس ٹیں ٹیں سے الگ ہو کر کسی کو چیلنج نہ کر سکیں۔ڈاکٹر کے پاس مجھے نہیں انھیں بھیجو۔
مگر اے بھولے بادشاہ تمہاری کون سنے گا۔ یہ سیکڑوں طوطے اپنی مرضی سے تھوڑا کورس میں ٹیں ٹیں کر رہے ہیں۔انھیں اس کے بہت پیسے ملتے ہیں۔کون کتنے لاکھ لوگوں کو کتنی دیر میں،کتنی دیر تک پاگل بنا کے رکھ سکتا ہے۔آس پاس کتنے ٹن بے یقینی یا ایجنڈائی گند پھیلا سکتا ہے،کتنے افراد اور گروہوں، قومیتوں، فرقوں اور طبقات کو عدم تحفظ میں مبتلا کر سکتا ہے۔کتنے کروڑ لوگوں کو نئے ڈھنگ سے پرانے سپنوں کی اترن بیچ سکتا ہے کہ جن کی سچائی پر کوئی سوال کرے تو اسے باقی لوگ پتھر ماریں۔جو جتنا جعلی مال بیچ سکے اس کا کمیشن، اس کا انعام اتنا ہی زیادہ۔
کیا اس سب کاروبار سے نجات مل سکتی ہے؟ ہاں مل سکتی ہے۔مگر نجات چاہتا کون ہے؟ ایک پولیس مقابلے، یا بم دھماکے یا حادثے کے سبب ہلاکتوں پر سڑک جلتے ٹائروں سے بند کرنے یا لاش سڑک پر رکھ کے احتجاج کرنے والے روزانہ کروڑوں دماغوں میں آلودہ اطلاعات و لیبارٹری میں تیار تجزیے ٹھونسنے والوںکے خلاف کتنی بار سڑک پر آئے یا آئیں گے؟ کیسے آئیں گے۔دماغ تو چرائے جا چکے، دلوں پر ڈاکہ تو پڑ چکا، جو چند اس ریلے میں بچ گئے ہیں انھیں پاگلوں اور غداروں کے خانے میں رکھا دیا جاتا ہے۔
کیا آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل کے سائلنسر یا کارخانے کی چمنی سے پیدا ہونے والا دھواں ہی مضرِ صحت ہے۔ کبھی سوچا کہ ٹی وی اسکرین سے نکلنے والا دھواں کتنا نقصان دہ ہے۔باقی دھوئیں تو میرا جسم گلا رہے ہیں۔ٹی وی اور سوشل میڈیاسے نکلنے والی تابکار شعائیں تو ہمارا دماغ پگھلا رہا ہے۔یہ بھارت میں رام نام ست کے جاپ اور پاکستان میں اناللہ وانا الیہ راجعون کے ورد کا وقت ہے اور ہم نعرہ لگا رہے ہیں آزاد ، سچی اور غیر جانبدار خبر کی جے ہو۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)