زبان کی مٹھاس

پچھلے چھ ماہ کے دوران معاشی بد حالی کا جو تماشہ لگا وہ بھی ہم وطنوں کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔


توقیر چغتائی March 12, 2019
فوٹوفائل

گاؤں کے ایک سادہ لوح دیہاتی کی بیوی انتقال کرگئی۔ اولاد بھی نہیں تھی اور قرب و جوار میں کسی رشتہ دارکا گھر بھی نہیں تھا ۔ رواج کے مطابق چالیس دن تک گھر میں رونے دھونے کے ساتھ طوعا وکرہا کھانے پینے کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، مگر جونہی دور دراز سے آئے شتہ دار اپنے اپنے گھروں کو سدھارے بچا بچایا کھانا بھی ایک دو دن تک ہی چلا اورگھر میں کھانے پکانے کے لالے پڑ گئے ۔ اگلی شام ڈھلی تو بے چارے رنڈوے نے اس امید پر آٹا گوندھنا شروع کیا کہ محلے کی کسی خاتون کے حوالے کرکے ایک دو روٹیاں بنوا لی جائیں گی ۔

اُس نے آٹے کے دو بڑے بڑے پیڑے بنائے اور طباق میں رکھ کر پڑوس کے گھر میں تنور کے گرد جمع محلے کی خواتین کے پاس پہنچ کر کہا کہ مجھے بھی دو روٹیاں بنا دیں۔ تنور میں روٹیاں چپکاتی اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتی خواتین کو معلوم تھا کہ اس شخص کی بیوی کا چالیس دن پہلے ہی انتقال ہوا ہے۔ اس لیے ایک خاتون نے انتہائی مروت کے ساتھ اُس کے ہاتھ سے طباق پکڑا اور پیڑوں پر پانی چھڑک کر روٹی بنانے کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ دیہاتی پر نگاہ پڑی جو اُس کی نوبیاہتا بہو کی طرف گھور رہا تھا ۔ خاتون نے انتہائی غصّے کے ساتھ دیہاتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہ'' تمہاری بیوی کا ابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا اور تم دوسروں کی بہو بیٹیوں کو گھورنے لگے، شرم نہیں آتی اور پانی سے نچڑتا آٹے کا پیڑا دیہاتی کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا '' یہاں سے دفع ہو جاؤ۔''

دیہاتی بے چارہ ہاتھوں میں گیلا آٹا لیے اگلی گلی میں مڑگیا۔ حسب معمول وہاں کی کچھ خواتین بھی تنور پر روٹیاں پکانے میں مصروف تھیں۔ جس خاتون کے گھر میں تنور لگا ہوا تھا وہ بیوہ تھی اور اُس کے صحن میں ایک خوبصورت گائے بندھی ہوئی تھی ۔ قریب ہی ایک خوب صورت سا بچھڑا بھی اچھل کود رہا تھا۔ دیہاتی نے جاتے ہی اپنا سوال دہرایا اور بیوہ خاتون نے انتہائی مروت کے ساتھ اُس کے ہاتھوں سے پگھلتا ہوا آٹا اٹھایا تاکہ روٹیاں بنا سکے مگر اسی دوران اُسے محسوس ہوا کہ دیہاتی کی نظریں گائے اور اُس کے بچھڑے پر جمی ہوئی ہیں۔ خاتون نے اُس سے سوال کیا کہ گائے کو اتنی حیرت سے کیوں گھور رہے ہو ؟

دیہاتی نے کہا '' گائے انتہائی خوبصورت ہے اور اس کا بچھڑا اُس سے بھی صحت مند اور خوبصورت، اگرگائے مر بھی گئی تو گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ اس کابچھڑا اس کا نعم البدل ثابت ہوگا اور اتنا ہی مہنگا بکے گا جتنی مہنگی یہ گائے ہے۔'' خاتون نے غصے میں آکر طباق سے گندھا ہوا آٹا اُٹھایا جسے وہ مزید گیلا کرچکی تھی اور دیہاتی کے ہاتھوں پر دھر دیا جسے لیے وہ مایوسی کے عالم میں چپ چاپ گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔ اتفاقاً اُسی وقت سامنے سے ایک محلے دار بھی گزر رہا تھا جس نے اُس کے ہاتھوں کو عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟

رنڈوے دیہاتی نے منہ لٹکا کر جواب دیا ''آٹا۔''

وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے کہ آٹا ہے مگر اس سے جو لیس دار مایع ٹپک رہا ہے یہ کیا ہے؟ محلے دار نے حیرت کے مارے اُس سے پوچھا۔

دیہاتی نے نظریں جھکا کر کہا'' یہ میری زبان کی شیرینی ہے۔''

نیا پاکستان بنانے والوں کی کابینہ میں شامل کچھ وزرا کی زبان سے بھی اُس دن ہی شیرینی ٹپکنے لگی تھی جب وہ حکومت کی تکمیل سے قبل الیکشن کی مہم کے دوران اپنے مخالفین کو ایسے القابات سے نواز رہے تھے جوکچی بستیوں کی گلی کی نکڑ پر بیٹھے لڑکے ایک دوسرے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تو'' ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز'' اور شہد سے بھی میٹھی تقاریرکا و ہ انداز مروج ہوا جس کی مثال پچھلے ستر سال کے دوران ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔

پچھلے چھ ماہ کے دوران معاشی بد حالی کا جو تماشہ لگا وہ بھی ہم وطنوں کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔ ہر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت پر خزانہ خالی کرنے کا الزام لگایا اور آنے والے دنوں میں مزید قرضے لینے کی مجبوری کا رونا رویا، مگر موجودہ حکومت نے پوری دنیا کے سامنے اپنی جیب الٹ کر رکھ دی اور یہ تک بتا دیا کہ اس میں کتنے روپے ، آنے اور پیسے موجود ہیں اور کتنے گھنٹوں ، مہینوں اور دنوں تک ہم ان کے سہارے ملک چلا سکتے ہیں ۔ مالی مجبوری اور اس کے حصول کے دنوں میں بھی اچھے اچھے مہذب حکومتی اراکین نے جس شیریں زبانی کا مظاہرہ کیا وہ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھا گیا ۔

حکومت بننے کے بعد صوبائی اور مرکزی وزرا نے مختلف مواقعے پر جو ماہرانہ اور شائستہ گفتگو کی اُس کی الگ داستان ہے ، مگر اس دوران تین چار افراد کے منہ سے جو پھول جھڑے اور زبان سے جو مٹھاس ٹپکی اُس پر میڈیا اور سوشل میڈیا سے جڑے افراد کے علاوہ عام لوگ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

پنجاب کے وزیر اطلاعات کے بہت سارے سیاسی بیانات اور ان بیانات کے دوران زبان سے بہنے والی شیرینی سے بھی ان کے مخالفین اور خود ان کی پارٹی کے لیڈران پریشان رہے۔ اس مٹھاس کا لیول شوگر کی طرح مزید بڑھا تو انھوں نے ایک مذہبی اقلیت کے خلاف انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے جس پر اُن سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا۔

اپنے عہدے سے ہٹائے جانے والے نوجوان وزیر با تدبیر کی سوچ سے اختلافات کے باوجود ہمارے خیال میں انھوں نے جوکچھ کہا اُس کی سزا انھیں اس لیے ملی کہ وہ ایک اہم عہدے پر مامور تھے۔اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں آباد مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہر دوسرا شخص اسی طرح کی باتیں کرتا ہے جو اس جذباتی نوجوان کے منہ سے سنی گئیں ۔ کسی ایک شخص یا وزیر کے بیان پر تنقید اپنی جگہ مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم جس جزیرے میں آباد ہیں وہاں کے کروڑوں افراد اور ان کے بچے اس بات سے ناواقف کیوں ہیں کہ دنیا میں کتنے مذاہب پائے جاتے ہیں۔

اُن کی تعلیمات کیا ہیں اور اُن کے ماننے والوں کا رہن سہن اور تاریخ و ثقافت کیا ہے ۔ اگر ایسا ہوجائے تو بہت ساری مشکلات کے ساتھ شاید ہمیں اُس شدت شدت پسندی سے بھی نجات مل جائے جس نے ہمارے ذہن اور زبان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بھارتی قیدی کی رہائی کے بعد حکومت کی طرف سے جس طرح بار بار قیدیوں سے رواداری اور اچھے سلوک کے مذہبی حوالے دیے گئے بالکل اسی طرح اپنی گفتگو میں بچوں اور ہم وطنوں کوایسے اقوال، احادیث اور واقعات کے حوالے دینے کی بھی ضرورت ہے جو ہمیںمذہبی اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں