بندوق میں تاویل کا کارتوس

مان لیتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی کا شاخسانہ۔ دونوں کے دونوں ہیں، امریکی۔۔۔

مان لیتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی کا شاخسانہ۔ دونوں کے دونوں ہیں، امریکی ڈراما اور پاکستان جیسے مسکین ممالک کو بھی اس میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں پچھلے بارہ برس میں بالخصوص جو تباہی پھیلی ہے، اس کی ذمے دار امریکا کی علاقائی پالیسیاں ہیں۔ جب تک پاکستان اس کرائے کی جنگ سے جان نہیں چھڑائے گا، تب تک خودکش جان نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان میں اگر امن قائم کرنا ہے تو پھر امریکا کی تھوپی اس جنگ کو مسترد کرنا ہوگا۔

پرائی جنگ اپنی کیسے بنتی ہے ؟ اس کے لیے میں آپ کو بہت دور تک نہیں بس چوہتر برس پیچھے لے جاؤں گا جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کردیا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی ممالک کہتے کہ بھئی یہ تو پولینڈ اور جرمنی کا آپس کا معاملہ ہے، ہمارا اس سے کیا تعلق۔پرمعلوم نہیں کیوں پولینڈ پر حملے کے دو دن بعد ہی فرانس اور برطانیہ نے ہٹلر کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔

لیکن اسٹالن پھر بھی پاکستان کی طرح اسی گمان میں رہا کہ یہ دنیا کا خون چوسنے والی چمگادڑوں کی آپس کی لڑائی ہے، ہم کیمونسٹوں کا اس سے کیا لینا دینا۔چنانچہ اس نے ہٹلر سے عدم جارحیت کا معاہدہ کرلیا اور پاکستان کی طرح مطمئن ہوگیا۔مگر جب ہٹلر نے پورے مغربی یورپ پر قبضہ کرلیا تو پھر اس نے مشرق کا رخ کیا اور سوویت یونین پر حملہ کردیا۔یوں اسٹالن کی پرامن بقائے باہمی کی ساری تھیوری دھری کی دھری رھ گئی اور اسے ہٹلر کے مخالف خون چوس چمگادڑی سرمایہ دار ممالک کی مدد لینی پڑ گئی۔

جو سوچ اسٹالن کی تھی کم و بیش یہی سوچ اس دور کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی تھی۔اس نے بھی یہی سمجھا کہ لڑائی تو یورپ میں ہورہی ہے سانوں کی۔۔۔۔لیکن جب ایک دن جاپانیوں نے پرل ہاربر پر ہلہ بول کر پورا بیڑہ تباہ کردیا اور امریکا کے منہ پر رکھ کے چپیڑ پڑی تب ہڑبڑاتے روزویلٹ کی بوڑھی سمجھ میں آیا کہ یہ جنگ دو ممالک یا دو اتحادوں یا دو نظریات سے زیادہ کی لڑائی ہے۔یہ جرمن اطالوی جاپانی فاشزم بمقابلہ باقی دنیا کی جنگ ہے۔

حتی کہ چین میں برسرِپیکار قوم پرست چیانگ کائی شیک اور کیمونسٹ ماؤزے تنگ بھی آپسی دشمنی ایک طرف رکھ کے جاپانی استعمار کے خلاف عارضی طور پر متحد ہوگئے۔ پھر جو بھی نتیجہ نکلا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔اگر یہ نا ہوتا تو ہوسکتا ہے، آج واشنگٹن سے ماسکو اور بیجنگ سے دلی تک جرمن اور جاپانی اور کہیں کہیں اطالوی زبان بولی جارہی ہوتی۔

اسرائیل سے عربوں نے انیس سو اڑتالیس سے آج تک جتنی بھی جنگیں لڑیں، ان میں سے کوئی جنگ عربوں نے یک سو ہو کر نہیں لڑی۔کبھی ایک روٹھ گیا تو کبھی دوسرا نیم دل ہوگیا تو کبھی تیسرے نے بروقت محاذ کھولنے میں تاخیر کردی تو کبھی دو نے سمجھ لیا کہ تیسرا جانے اور اسرائیل جانے۔ نتیجہ؟ آج تک اسرائیل اپنے سے چالیس گنا عربوں کو سیاسی و عسکری لحاظ سے دوڑا دوڑا کے مار رہا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل امریکا کے بھروسے یہ سب حرکتیں کررہا ہے۔مگر امریکا تو آدھے سے زیادہ مسلمان ملکوں اور ان کی اسٹیبلشمنٹ کا بھی پشتی بان تھا اور ہے......

دور کیوں جائیں۔ جب سوویت یونین نے کابل میں فوجیں اتاریں تو وہ بھی افغانوں اور روسیوں کی جنگ تھی۔ پاکستان ، امریکا ، سعودی عرب ، ایران اور اسرائیل سمیت باقی دنیا کو یہ پرائی جنگ گلے لگانے کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ پھر بھی نا جانے اس پرائی جنگ کے لیے پاکستان کی مذہبی جماعتیں کیوں ہلکان ہوئی جارہی تھی۔اس وقت کیوں ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ برادر ضیا الحق تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔اس وقت بھی تو ولی خان جیسے چند سرپھرے یہی کہہ رھے تھے جو آج منور حسن ، عمران خان اور فضل الرحمان الگ الگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑا کے بہت بڑی غلطی کررہا ہے۔

بھینسوں کی لڑائی میں صرف گھاس کچلی جائے گی۔لیکن اس وقت ولی خان اور ان کے ہمنوا نظریہ پاکستان کے دشمن غدار روسی ایجنٹ قرار پائے۔اس وقت روس بقول امریکی بلاک بلوچستان کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا لہذا اس کو اجتماعی طور پر روکنا بقول ریگن و مارگریٹ تھیچر پوری آزاد دنیا کی اجتماعی ذمے داری قرار پائی اور پھر پوری سرمایہ دار اور مسلمان دنیا نے مل کر روس کو پسپا کرنے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق یا اوقات سے بڑھ کے حصہ ڈالا۔تو کیا آج طالبان اور القاعدہ کا ایجنڈہ اس وقت کے روس سے مختلف ہے ؟اور کیا امریکا اس وقت اپنا عالمی ایجنڈہ دنیا پر تھوپنے سے باز آگیا تھا ؟


چلیے پھر بھی مان لیتے ہیں کہ موجودہ جنگ پاکستان پر تھوپی گئی ہے لہذا اس سے الگ تھلگ رہنا ہی بہتر ہے۔فرض کریں کل حکومتِ پاکستان اس جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کردیتی ہے تو پھر کیا ہوگا ؟ کیا خودکش بمبار جیکٹیں پھینک کر کاشتکاری اختیار کرلیں گے ؟ دیگر سرفروش لیویز اور پولیس کی بھرتی کی لائنوں میں کھڑے ہوجائیں گے ؟ کیا لشکرِ جھنگوی تحریکِ جعفریہ سے جھپی ڈال لے گا ؟ کیا سب افغان اس فیصلے پر ہار پھول لے کر پاکستان کی طرف دوڑ پڑیں گے ؟ آیاسعودی عرب بھی پرجوش خیر مقدم کرے گا کہ جس کی سرزمین سے یمن میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں ؟

کیا وہ بدستور پاکستان کو تیل تین مہینے کے ادھار پر دیتا رہے گا ؟ برادر ترکی پاکستان کی پوزیشن تسلیم کرلے گا کہ جس کے دستے افغانستان میں ناٹو کا حصہ ہیں ؟ کیا پاکستان کا ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرا دوست چین پاکستان کے اس اعلان کی مکمل حمایت کرے گا جو اس وقت بھی تربیت پا کر شنجیانگ صوبے میں جانے والے جوشیلوں کے معاملے پر پاکستان سے زیرِ لب کچھ نا کچھ کہتا رہتا ہے ؟ کیا ایران اس جرات مندانہ فیصلے پر پاکستان کی پیٹھ تھپتھپائے گا جسے بقول اس کے بلوچستان سے متحرک جنداللہ نے تنگ کررکھا ہے؟ کیا آئی ایم ایف کے منہ موڑ لینے سے جو قرضی خلا پیدا ہوگا، اسے اس جنگ کو غیر کی جنگ سمجھنے والے بھر پاویں گے ؟

اگر آج مسلم لیگ نواز ، جماعتِ اسلامی ، تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کی وفاق اور چاروں صوبوں میں دو تہائی اکثریت سے حکومت بن جائے تو کیا کل پہلا ڈرون گر جائے گا ؟ ناٹو فورسز کی سپلائی کا رخ روس کے راستے پر موڑ دیا جائے گا ؟ تحریکِ طالبان کو انیس سو تہتر کے آئین کے تحت اگلا الیکشن لڑنے پر اگلے ایک ماہ میں نہیں چھ ماہ میں نہیں سال بھر میں نہیں دوسال میں بات چیت کے ذریعے آمادہ کرلیا جائے گا ؟ کہیے نا کہ ہاں یہ سب ہوگا ؟ یا ان میں سے کچھ ہوگا اور کچھ نہیں ہوگا۔چلیے یہی بتادیں کہ وہ '' کچھ'' کیا ہے جو ہوجائے گا ؟

کیا دوسری عالمگیر جنگ ضروری تھی ؟ ہٹلر سے بات چیت بھی تو ہوسکتی تھی ؟ کیوں تین کروڑ لوگ فنا ہوگئے ؟ سوویت یونین سے بھی تو مذاکرات ہوسکتے تھے کہ وہ افغانستان سے نکل جائے ؟ کیوں دس لاکھ افغان مرگئے اور چالیس فیصد بے گھر ہوگئے ؟ اسرائیل سے بھی بات چیت ہو تو رہی ہے نا سن نوے سے ؟ پھر کیا نتیجہ نکل رہا ہے اس تئیس سالہ بات چیت کا ؟

جب محلے میں شعلے بلند ہورہے ہوں تو پہلے آگ بجھائی جاتی ہے یا یہ بحث زیادہ ضروری ہوتی ہے کہ فلاں گھر میں بجھا دو کیونکہ دوست ہے اور ساتھ والے گھر کو رہنے دو کیونکہ دشمن ہے۔اور جب تک یہ نا طے ہوجائے کہ آگ زید نے لگائی کہ بکر نے تب تک کوئی بھی احتجاجاً پانی کی بالٹی نا بھرے ؟

تو پھر یہ جنگ کس روز پرائی ہوئی جسے اعلیٰ عدلیہ کے حلف یافتہ جنرل پرویز مشرف نے اپنایا تھا ؟ کیا مشرف صاحب اس وقت کوئی امریکی کمانڈر تھے ؟ کیا انھوں نے دو ہزار دو میں وہ انتخابات نہیں کرائے تھے کہ جن میں اپنی پرائی جنگ کی بحث سجانے والی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل نے پارلیمنٹ میں ساٹھ اور صوبہ سرحد میں اکثریتی نشستیں حاصل کی تھیں ؟ اور پھر اس پرائی جنگ میں جھونکنے والے مشرف کو بھی اگلے چھ برس برداشت کیا ، اس کے ساتھ گروپ فوٹو کھچوائے اور ستہرویں ترمیم اور وردی میں صدارت کے تحفے خریدنے میں بھی کماحقہ حصہ ڈالا۔لال مسجد کے واقعے اور ڈما ڈولا میں ڈرون حملے میں پچاسی کے لگ بھگ مدرسے کے طلبا کی ہلاکت کے بعد بھی کیا صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکومت چھوڑنے اور پرائی جنگ کا بائیکاٹ کرنے کا جواز نہیں بنتا تھا ؟ اور خود ایم ایم اے کہاں سے آئی تھی اور پھر کہاں چلی گئی حضرات ؟ اور یہ اپنی پرائی جنگ کے علمبردار آج بھی ایک میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے پر کیوں تیار نہیں ؟

ویسے دنیا کی ایسی کون سی آگ اور جنگ ہے جو کسی نا کسی کی غلطی یا غلط فہمی سے شروع نا ہوئی ہو ؟ تو چونکہ آپ اس میں ابتدائی فریق نہیں تھے لہٰذا آپ کا پائنچہ اور دامن پکڑنا اس آگ کو اخلاقاً زیب نہیں دیتا ؟ کیا جنگ اور آگ اپنے پرائے کو پہچانتی ہے ؟ ہاں شائد ایسا ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے آگ اور جنگ کا یکسوئی سے سامنا کرنا پڑتا ہے اور سامنا کرنے کے لیے حوصلہ چاہیے اور حوصلہ ''چونکہ چنانچہ'' سے نہیں آتا۔ ویسے بھی اب تک کوئی بندوق ایجاد نہیں ہوئی جس میں تاویل کا کارتوس پڑتا ہو۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
Load Next Story