آئی ایم ایف… باعث رحمت یا زحمت
1930 میں عالمی کساد بازاری میں کئی ممالک نے اپنی اپنی کرنسیوں کی قیمت کم کردی تھی اور بہت سی تجارتی اور مالی۔۔۔
1930 میں عالمی کساد بازاری میں کئی ممالک نے اپنی اپنی کرنسیوں کی قیمت کم کردی تھی اور بہت سی تجارتی اور مالی پابندیوں کا سہارا لیا تو اس سے عالمی سطح پرکئی مالیاتی اور تجارتی مسائل پیدا ہوگئے، جنھیں سلجھانے کے لیے 1945میں عالمی مالیاتی فنڈ کا وجود عمل میں لایا گیا جو اقوام متحدہ کے ایک اہم ادارے کے طور پرکام کررہا ہے۔آئی ایم ایف کے بانیوں کا خیال تھا کہ یہ ادارہ دنیا میں سابقہ کساد بازاری کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دے گا اور عالمی سطح پر لین دین اور تجارت کے معاملات ہموار طریقے سے چلیں گے۔
آئی ایم ایف ممبر ممالک کی توازن ادائیگی بہتر بنانے اور بجٹ خسارے کی مشکلات کو دور کرنے میں قرض کی صورت میں مدد فراہم کرتا ہے۔پاکستان نے 1950 میں آئی ایم ایف میں شمولیت اختیار کیا اور 1952 سے قرض لے رہا ہے۔ 1994, 1988, 1980 اور 1997 میں حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 4بڑے معاہدے کیے اور اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرضے حاصل کیے۔
یہ قرضے بلا شرط نہیں ہوتے، اور آئی ایم ایف قرض لینے والے ملک کو اپنے مشاورتی نسخے بھی دیتاہے مثلاً GDPکی شرح بڑھاؤ، بجلی اور پیٹرول کے دام بڑھا کر وسائل پیدا کرو،کرنسی کی قدرکم کرو،سبسڈی ختم کرو وغیرہ ۔ حکومت پاکستان کو یہ قرض حاصل کرنے کے لیے اکثر وبیشتر بجلی مہنگی کرنا پڑی،پیٹرول کے ریٹ بڑھانے پڑے اورکرنسی کی قدر بھی کم کرنا پڑی وغیرہ وغیرہ۔ البتہ دیگر شرائط ٹیکسوں کی وصولی میں وسعت، دستاویزی معیشت ، بجٹ خسارہ کو کم کرنا وغیرہ شاذ و نادر ہی پوری ہوئی ہیں ۔
1997 میں تو آئی ایم ایف نے حد ہی کردی ، حکومت پاکستان کو بینکوں اور مالیاتی اداروں سے فالتو اسٹاف نکالنے کے لیے مجبور کیا، اس وقت اس حکومت نے آئی ایم ایف کے اعلیٰ افسران کو بہت سمجھایا کہ اس سے بیروزگاری پھیلے گی۔ معاشی اور سماجی نیز امن و امان کے مسائل پیدا ہونگے اب اس لیے ہم یہ نہیں کریں گے۔ لیکن آئی ایم ایف کی انتظامیہ نے دھمکی دی کہ اگر ایسا نہیں کروگے تو قرضہ روک دیں گے۔ اس لیے مجبوراً بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ہزاروں ملازمین کو فارغ کرنا پڑا جس سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہوئے۔
2003-04 کے بجٹ کے موقعے پر اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے کہا تھا کہ ہم اس سال آخری قرضہ لیں گے اور آیندہ کے لیے کشکول کلچر ختم کردیا ہے اور اپنے وسائل کے مطابق چلیں گے لیکن وائے حسرت !ایسا نہ ہوسکا اور پاکستان کے فنانشل مسائل آج تک حل نہیں ہوئے اور توازن ادائیگی کی پوزیشن بہتر نہ ہوسکی اور حکومت کو بار بار قرض لینے کے لیے عالمی اداروں سے رجوع کرنا پڑا۔
2008 میں بھی آئی ایم ایف کے دروازے پر قرضے کا کشکول لے کر جانا پڑا تو مانیٹرنگ فنڈ نے 7.6بلین ڈالر قرضہ منظور کیا۔ اب اس قرضے کی پچھلی قسط ادا کرنے کے بعد ہمارے پاس صرف 5 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر بچے تھے جو آیندہ 2-3ماہ کے امپورٹ بل کی ہی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔
ہمیں موجودہ سال 2013-14میں آئی ایم ایف کی 3ارب 5کروڑ ڈالر کی قسط بھی ادا کرنی ہیں ، نیز چونکہ ہمارے ذخائر کم ترین سطح پر آگئے ہیں، اس لیے کرنسی کی قدر پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے۔ اس لیے اس صورتحال سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے پھر قرضے کی درخواست کرنا پڑی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم کی کوششوں سے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے افسران 6.6بلین ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
اب بورڈ کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں اس کی منظوری مل جائے گی یہ منظور ی بھی سابقہ قرضوں کی طرح مثلا بجلی کی قیمت بڑھانے، 3سال میں سبسڈی ختم کرنے، ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور دستاویز معیشت اختیار کرنے، خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور نجکاری ، بینکوں کے مارک اپ میں اضافہ وغیرہ سے مشروط ہے۔ نیز کونسل آف کامن انٹرسٹ جس میں چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ شامل ہیں کی رضامندی ضروری قرار دی گئی ہے ۔
آئی ایم ایف کی طرف سے نیا قرضہ ملنے سے ہمارے ڈیفالٹر ہونے کی پوزیشن ختم ہوجائے گی ۔ نیز ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سے بھی قرضے ملنے کی اُمید ہوجائے گی ۔ اس طرح ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر جو کم ہوگئے ہیں بہتر ہوجائیں گے اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر بھی رُک جائے گی۔
بین الاقوامی اداروں سے قرضے صرف شارٹ ٹرم ضرورت کے لیے ہوتے ہیں جن کا اصل زربمعہ سود واپس کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے وسائل آمدنی بڑھائیں امیر طبقات سے پورا ٹیکس وصول کریں ، بجلی اور گیس کی چوری روکیں اور اپنے اخراجات اپنی آمدنی کے مطابق رکھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور خود انحصاری اختیار کریں تاکہ ہمیں کہیں سے قرضے کے لیے بھیک نہ مانگنا پڑے۔
آئی ایم ایف کی کارکردگی،طریقہ حساب کتاب سے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک مطمئن ہیں البتہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک نالاں ہیں ۔کیونکہ ایک تو آئی ایم ایف ضرورت سے بہت کم مدد دیتا ہے اور دوسرے بھاری سود وصول کرتا ہے ۔ اصل زرکی قسطوں اور بھاری سود کی ادائیگی سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر بُرے اثرات پڑتے ہیں اور وہاں مہنگائی بیروزگاری افراط زر نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ان کی کمزور معیشت کی تباہی کا سبب بن رہا ہے ۔
شروع میں جب آئی ایم ایف سے قرضہ مل جاتا ہے تو ملک وقتی طور پر مالی مشکلات اور گرداب سے نکل جاتا ہے چونکہ یہ قرضے شارٹ ٹرم کے لیے ہوتے ہیں اور پسماندہ ممالک اس رقم کو اگرکسی ترقیاتی منصوبے کو مکمل کرنے میں استعمال کریں تو اس کی واپسی کی ادائیگی مشکل نہیں ہوتی لیکن زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک اپنی روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لیتے ہیں۔
اس لیے اس قرضے کی ادائیگی کے وقت بڑی مشکل پیدا ہوتی ہے ، لہٰذا اس کے قرضے کی قسطیں ادا کرنے کے لیے نئے قرض کی درخواست دینی پڑتی ہے تاکہ نادہندگی کے خطرے سے بچاجاسکے۔ عالمی مانیٹرنگ فنڈ اپنے ممبر ممالک کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے پہلے سے کڑی شرائط پر قرضہ جاری کرتا ہے، اس طرح وہ ملک آئی ایم ایف کی غلامی میں آجاتا ہے اور اس کی ناجائز اور نا قابل قبول شرائط ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔