سیاسی و معاشی استحکام

آج کل میڈیا میں یہی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کب ہوگا، کیسے ہوگا۔ اور۔۔۔


Syed Asadullah August 05, 2013

آج کل میڈیا میں یہی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کب ہوگا، کیسے ہوگا۔ اور اب تک کیوں نہیں ہوا۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ۔کہا جاچکا اور سنا جاچکا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ سال ہا سال کا سوال ہے اور ایک معمہ ہے۔

ظاہر ہے جب کسی ملک کی سیاسی و معاشی حالت زوال پزیر ہوگی تو اس طرح کی تشویش و شک و شبہات کا ابھرنا فطری عمل ہے۔ جب کسی ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال اس طرح کی ہوگی تو اس ملک کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا عبث ہے۔ ہم نے 66 سال سے کئی حکومتوں کے عروج و زوال دیکھے ہیں لیکن کسی دور میں بھی سیاسی و معاشی استحکام ہوتے نہیں دیکھا۔ پھر یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ ظاہراً تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف سیاستدانوں کی سیاست میں منفی رجحان پایا جاتا ہے اور جب سیاسی نظام ہی کو استحکام نصیب نہ ہوگا تو معاشی حالت کیسے مستحکم ہوسکتے ہیں۔

سیاستدان اور حکمران طبقات ہی منفی سیاسی رویہ اختیار کریں گے اور صرف اور صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہیں گے ۔ عوام کی خدمت اور ان کے مسائل کی جانب سے بے رخی اختیار کریں گے تو ملک کی سیاسی اور معاشی مسائل کی طرف کیسے توجہ مرکوز ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران طبقات اور سیاسی مدبرین چونکہ عوام کے منتخب نمایندے ہونے کے ناتے عوام کے مسائل کو ترجیح دیتے اور عوام کو کچھ ڈلیور کرتے ، لیکن یہاں تو بس ایک آسان نسخہ آزمایا جاتا ہے کہ ''مسائل تو ہمیں ورثے میں ملے '' ۔ کیا خوب انداز فکر ہے۔ حکومت میں آجانا الگ بات ہے حکومت چلانا الگ بات ہے۔

حکومت چلانے کے لیے قابلیت، اہلیت، منصوبہ سازی اورعوام کی فلاح و بہبود کو روبہ عمل لانے کی روایت قائم کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں ہوتا یہ ہے کہ ''آنی جانی'' لگی رہتی ہے۔ اپنا اپنا دورِ حکومت جیسے تیسے مکمل کرلیا۔ کچھ کارکردگی نہ دکھائی عوام کو کچھ ڈلیور نہ کیا اور مسائل کا انبار لگاکر بری الذمہ ہوگئے۔ واہ بھئی واہ! کیا خوب اندازِ فکر ہے، حکومت چلانے کا ۔ جب حکومت ایسی ڈگر پر چلے گی تو کیسا سیاسی و معاشی استحکام۔؟ بس نام ہی نام کے ہم نے یہ کردیا وہ کردیا۔ اتنی ترقیاتی کام کرائے۔ اتنے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن جب دورِ حکومت کا اختتام ہوتا ہے اور حقائق براندام ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہ سیاسی استحکام کے لیے کچھ کام کیا اور نہ ہی معاشی استحکام کی طرف توجہ دی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ''چل چل رے تو جوان۔ چلنا تیرا کام ہے۔ رکنا تیرا کام نہیں''۔ ہے ناکیسی مزے کی بات بس چل چلاؤ سے کام چلاؤ۔ بھئی آخر آنیوالی حکومت کے لیے بھی چھوڑنا ہے۔ ورنہ وہ بے چارے آیندہ 5 سال کیسے بتائیں گے۔ ورنہ پھر وہی راگ الاپنا ہوگا کہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ ہمارے پاس جادو کی چھڑی ہے نہیں کہ چٹکی بجاتے ہی رات ہی رات میں مسائل حل ہوجائیں گے۔ اسی کو کہتے ہیں سیاسی عدم استحکام۔ اور یہی سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کو جنم دیتا ہے۔

لیکن سوال پھر بھی وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ جب کسی مسئلہ کی بار بار گردان کی جاتی ہے تو اس کی افادیت تو آپ ہی آپ ختم ہوجاتی ہے۔ اور عوام کی نظروں میں بھی اس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور عدم مساوات کی بناء پر سیاسی نظام ٹھیک ہوتا ہے نہ معاشی نظام مستحکم ہوتاہے۔ اس کا واحد حل جو بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہی ہے کہ حکمرانوں کو اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی لیڈران کو اپنی روش بدلنی ہوگی۔

ہوتا یوں ہے کہ جب ایک حکومت ترقیاتی منصوبے پر کام شروع کرتی ہے لیکن وہ ان کے دورِ حکومت میں مکمل نہیں ہوتے تو آنے والی حکومت اس نامکمل منصوبہ کو آگے بڑھانے کے بجائے مختلف حیلوں، بہانوں سے مسترد کردیتی ہے اور پھر نئے سِرے سے اُس منصوبے کو تشکیل دینے کی جدوجہد شروع ہوجاتی ہے۔ اس میں معاشی نقصان نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ ایک طرف استعمال شدہ فنڈزکا ضیاع اور دوسری طرف نئے سِرے سے سرمایہ کاری اور مشکل مسئلہ۔ پھر کشکول اٹھاکر آئی ایم ایف کی جانب دوڑنا پڑتا ہے۔

اسی وجہ سے آدھی چھوڑ کر پوری کی طرف دوڑنے سے آدھی بھی چلی جاتی ہے اور پوری بھی۔ کیا مطلب۔ کہ آئی ایم ایف بھی ناراض ہوجاتا ہے کہ سابقہ فنڈز کہاں استعمال ہوئے کیسے استعمال ہوئے ان کا حساب کتاب دو۔ ورنہ جاؤ معاشی عدم استحکام کی طرف۔ ہم تو اب نئے قرضے تب تک نہیں دیں گے جب تک پچھلا حساب بے باق نہ ہوجائے۔ اور حساب کتاب نہ دیا تو سود کی رقم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ کیونکہ پچھلا قرضہ ابھی بے باق نہیں ہوا۔ کیجیے کیا کیجیے اس مسئلہ کا حل کیا ہوگا کیسے ہوگا۔ آسان ترکیب بھی تو ہے یار۔

پریشان ہونے کی کیا ضرورت۔ پچھلا قرضہ اتارنے کے لیے نیا قرضہ لے لیں گے۔ لیکن نیا قرضہ ملنے کے ساتھ ساتھ پچھلے قرضے کی قسط بھی تو ادا کرنا ہے۔ ایک طرف اندھیرا ہے دوسری جانب گڑھا ہے۔ اندھیرے سے نکلیں کیسے۔ گڑھے میں ہی تو گریں گے۔ پھر کس طرح معاشی استحکام کو مستحکم کریں گے۔ چلو عوام کی طرف رجوع کریں۔ نئے ٹیکسز کا اجراء کرو اور عوام تو پہلے ہی ٹیکسز کے بوجھے تلے دبی ہوئی ہے اُس پر اور بوجھ ڈال دو۔ عوام تو ویسے ہی بے بس ہے۔ آگے جائے تو مشکل پیچھے ہٹے تو مشکل۔ تو پھر ایک ہی راستہ رہتا ہے کہ ''کڑوی گولی نگلنا ہی ہوگی''۔ وزیر خزانہ نے خود بھی یہ پیغام عوام کو دیکر اور عوام دشمن بجٹ بناکر ۔ لاگو کرکے بری الذمہ ہوگئے۔

ارے ہاں! ابھی تو پوسٹ بجٹ کانفرنس ہوگی۔ اس میں بھی ایک ''منی بجٹ'' لایا جائے گا۔ دیکھا آپ نے اتنی پیچیدگیوں کے باعث معاشی استحکام کیسے قائم ہو۔ آخر انجام کیا ہوگا۔ یہی ہوگا کہ عوام تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل پیرا ہوکر سڑکوں پر نکل آئیں گے پھر وہی امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ ہڑتالیں، ریلیاں، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ۔ جانی و مالی نقصان شروع ہوجائیں گے۔ ہوگیا نہ سیاسی عدم استحکام۔ اس کو استحکام کیسے نصیب ہو۔ وہ کیا مشکل ہے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس ،ربڑ کی گولیاں ، واٹرکینن کا استعمال کس مرض کی دوا ہیں۔ یہی تو موقع ہے ان کے استعمال کا۔ شرپسند تو فرار ہوجائیں گے لیکن بے گناہ عوام گرفتار ہوگی۔ حوالات میں پہنچادی جائے گی اس کے بعد سیدھے جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔

درمیان میں جو عدالتی کارروائی ہے وہ اتنی ضروری نہیں۔ دیکھا جائے گا جب کوئی پٹیشن دائر ہوگی یا ''سوموٹو'' ایکشن لیا جائے گا۔ اس وقت تک تو سیاسی استحکام تو قائم ہوجائے گا۔ اتفاق سے ایک صوبے کے وزیر بھی تو ''قائم علی شاہ'' ہیں۔ ان کی ذمے داری بھی ہے سیاسی استحکام قائم کرنے کی۔ لیجیے سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ حل ہوگیا۔ایک پریس کانفرنس ہوگی اور وزیر اعلیٰ صاحب فرمائیں گے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔ عدم استحکام کا شور تو صرف یہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا والے شور مچارہے ہیں۔ سب کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ مگر جناب شرپسندوں ۔ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا تو کوئی دائرہ نہیں ہوتا۔ اُن کے لیے تو ''کھلا میدان'' ہوتا ہے۔ روکیے ان کو کیسے روکیں گے۔

ارے بھائی ۔ وہ عوام کی طرح نہتے نہیں ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے اور خود کش بمبار بھی۔ راکٹ بھی، میزائل بھی اور دستی بم بھی۔ لایئے انھیں کسی دائرے میں۔ ارے وہ آپ کو دائرہ بنانے کب دیں گے۔ اب تو انھوں نے عوام کے ساتھ ساتھ (بیگناہوں) قانون نافذ کرنے والوں کو بھی ہدف بنایا ہوا ہے۔ دیکھا نہیں آپ نے پولیس اہلکاروں کے علاوہ رینجرز کے اہلکاروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان قانون نافذ کرنے والوں نے اپنی ناکامی کی بندوقوں کا رخ عوام کی جانب موڑ دیا ہے۔ دہشت گردوں کو تو قابو نہ کرسکے اب بے گناہوں کو ہی اپنی گولیوں کو نشانہ بنانے لگ گئے۔ ہوگیا نہ پھر سیاسی عدم استحکام کا سوال پیدا۔ سیاسی استحکام کس طرح قائم ہوگا۔ اسی سیاسی عدم استحکام نے معاشی عدم استحکام کو جنم دیا۔

لہٰذا اب سیاسی و معاشی عدم استحکام دونوں اپنا پَھن کھولے عوام کے خون کے پیاسے سے ہوگئے ہیں۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام کو ختم کرنے والا ابھی فی الحال تو کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ ابھی ابھی تو نئی حکومت کو قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی تو ہوئے ہیں۔ ذرا صبر سے کام لیجیے، جہاں گزشتہ پانچ سال سارے مظالم صبر کے ساتھ جھیلے ہیں۔ اب ان کے 5 سال بھی تو دیکھ لیجیے۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔؟ خدا کرے کچھ بہتر ہی ہو۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام سے چھٹکارہ ملے۔ بس امید پر دنیا قائم ہے اس لیے ناامید نہ ہوجایے۔ امید کی آس لگائے رہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں