ذرا اس طرف توجہ دیں۔۔۔
والدین میں جھگڑا اور آئے روز تلخ کلامی بچوں کو اعتماد سے محروم کر دیتی ہے
اولاد قدرت کا انمول تحفہ اور نعمت ہے۔ اس کی نگہداشت، پرورش اور بہترین تربیت کرنا اہم ذمہ داری ہے۔ والدین بچوں کی صحت، ان کی تعلیم اور ہر چھوٹی بڑی خوشی کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں بعض اوقات ہماری کوتاہی، عدم دل چسپی، کمی یا غفلت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
بچے اپنے ماں باپ اور اہلِ خانہ کے رویے، برتاؤ اور ان کی باتوں کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ جب والدین کسی چیز یا شخص کے بارے میں بچوں کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا کسی کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں تو بچے اسے بہت دھیان سے سنتے ہیں اور اس کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو ان کے ذہن پر جیسے نقش ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب ماں باپ آپس میں کسی بات پر اختلاف کرتے ہیں اور اس دوران بات بڑھ کر جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو بچہ اس کا بھی گہرا اثر لیتا ہے۔ یاد رکھیے بچے نہایت حساس اور جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ والدین کے جھگڑوں اور تلخ جملوں سے جہاں سہم جاتے ہیں، وہیں بعض اوقات یہ سب ان کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرسکتا ہے اور ان کی شخصیت مسخ ہو سکتی ہے۔
پھولوں کی طرح کھلے ہوئے چہرے ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑا دیکھ کر کمھلا جاتے ہیں۔ انجانا خوف ان کے ذہن اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ماں باپ کے درمیان لڑائی اور تلخ کلامی یا علیحدگی کا بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
امریکی سائنس دانوں کی ایک تحقیق کے مطابق ماں باپ کے جھگڑوں سے صرف سمجھ دار بچے ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور جذبات کے اظہار کی طاقت نہ رکھنے والے بچے بھی اس کا نہایت منفی اثر لیتے ہیں۔ والدین کو تکرار کرتا دیکھنے والے بچوں کی نیند متاثر ہوسکتی ہے اور وہ پُرسکون نظر نہیں آتے۔ بچپن ہی سے اپنے والدین کو جھگڑتا دیکھنے والے بچوں میں اشتعال انگیزی بڑھ جاتی ہے۔ وہ بے جا بحث، تکرار اور جھگڑا کرنے کو درست اور ہر مسئلے کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔
لڑکے تو چیخ کر، جھگڑ کر اپنا مسئلہ نمٹا لیتے ہیں، لیکن لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں تو اعصابی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں اور سہمی ہوئی رہتی ہیں۔کیوں کہ ایک خاص عمر تک تو وہ اسی دباؤ میں رہتی ہیں ان کا اپنے بھائیوں کی طرح چیخ کر اور بلند آواز بالکل برداشت نہیں کی جائے گی اور وہ سنتی رہتی ہیں کہ عورتوں کی آواز گھر سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ بچپن سے والدین میں لڑائی جھگڑا دیکھنے والی بچی جب اپنے بہن بھائیوں یا دوستوں پر برہم ہوتی ہے تو ایک خاص ایج تک تو خوب غصہ کرتی ہے مگر بعد میں وہ اپنے آپ کو ایک خول میں گویا قید کر لیتی ہیں۔ اس کا ان کی مجموعی ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ والدین کے جھگڑوں کی وجہ سے بچوں کی طبیعت میں ایک چڑچڑا پن آجاتا ہے، وہ تمام لوگوں سے اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔ کسی سے جلدی مانوس نہیں ہوتے، ایسے بچے خود کسی کے قریب جاتے ہیں اور نہ ہی کسی کے سوالات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گھر آئے مہمان یا کہیں بھی رشتے دار ہو یا اجنبی اس سے بات چیت اور اس کے سوالات کا سامنا کرنے گریز کرتے ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ ایسے بچے کوشش کرتے ہیں کہ اس جگہ سے ہٹ جائیں جہاں ان سے یا ان کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔ اسی طرح جو بچے اپنی ماؤں پر جسمانی تشدد دیکھتے ہیں، آگے چل کر خود بھی اسی روش کو اپناتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ والدین جو اپنے بچوں کو خوش گوار ماحول فراہم کرتے ہیں، ان کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں اور بچوں کے سامنے جھگڑنے سے اجتناب کرتے ہیں تو ایسے ماحول میں نشوونما پانے والے بچے کی شخصیت میں توازن اور اعتماد نظر آتا ہے۔ وہ منفی سوچ اور طرزِ عمل کے حامل نہیں ہوتے، وہ صلح جُو اور شائستہ آداب ہوتے ہیں جس کا معاشرے پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ میاں بیوی میں تلخی اور اختلافات فطری بات ہے، لیکن اس پر شائستہ، منطقی اور لحاظ و مروت کے ساتھ ردعمل دینا الگ بات ہے جب کہ اس پر تشدد، بدکلامی اور غیرمہذب انداز اپنانا ایک منفی رویہ ہے جس کا نہ صرف ایک کنبے پر اثر پڑتا ہے بلکہ یہ معاشرے کے لیے بھی خرابیوں کا باعث ہوتا ہے۔
جب بچے اپنے گھر کو میدان جنگ اور اپنے والدین کو دشمنوں کی طرح ایک دوسرے سے الجھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں، کسے صحیح سمجھیں اور کون غلط ہے۔ ذرا سوچیے، ایک معصوم کے لیے وہ کتنا کڑا موقع ہو گا جب اسے ماں یا باپ میں سے ایک کی طرف جھکاؤ رکھنے اور صحیح سمجھنے کا فیصلہ کرنا ہو۔ ایسا موقع آتا ہے تو اس کے جذبات بری طرح مجروح ہوتے ہیں۔
ایک جانب ماں کی ممتا کھو دینے کا ڈر اور دوسری طرف باپ کی شفقت سے محروم ہونے کا خدشہ اسے چڑچڑا اور بدتہذیب بنا دیتا ہے۔ اس کشمکش سے بچنے کے لیے وہ گھر کے بجائے باہر وقت گزارنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی موجودگی میں کمرے سے باہر رہنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے کسی جھگڑے اور لڑائی کو دیکھنے کا موقع نہ ملے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے تمام اختلافات کو شائستگی اور مناسب انداز سے حل کریں اور اپنے جگر گوشوں کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کریں کہ ان کی جذبات مجروح نہ ہوں۔ بچوں کے سامنے اپنا رویہ درست رکھیں اور کسی بات پر اختلاف ہو تو تہذیب و شائستگی کے ساتھ منطق اور دلیل سے بات کریں۔
بچے اپنے ماں باپ اور اہلِ خانہ کے رویے، برتاؤ اور ان کی باتوں کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ جب والدین کسی چیز یا شخص کے بارے میں بچوں کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا کسی کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں تو بچے اسے بہت دھیان سے سنتے ہیں اور اس کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو ان کے ذہن پر جیسے نقش ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب ماں باپ آپس میں کسی بات پر اختلاف کرتے ہیں اور اس دوران بات بڑھ کر جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو بچہ اس کا بھی گہرا اثر لیتا ہے۔ یاد رکھیے بچے نہایت حساس اور جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ والدین کے جھگڑوں اور تلخ جملوں سے جہاں سہم جاتے ہیں، وہیں بعض اوقات یہ سب ان کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرسکتا ہے اور ان کی شخصیت مسخ ہو سکتی ہے۔
پھولوں کی طرح کھلے ہوئے چہرے ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑا دیکھ کر کمھلا جاتے ہیں۔ انجانا خوف ان کے ذہن اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ماں باپ کے درمیان لڑائی اور تلخ کلامی یا علیحدگی کا بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
امریکی سائنس دانوں کی ایک تحقیق کے مطابق ماں باپ کے جھگڑوں سے صرف سمجھ دار بچے ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور جذبات کے اظہار کی طاقت نہ رکھنے والے بچے بھی اس کا نہایت منفی اثر لیتے ہیں۔ والدین کو تکرار کرتا دیکھنے والے بچوں کی نیند متاثر ہوسکتی ہے اور وہ پُرسکون نظر نہیں آتے۔ بچپن ہی سے اپنے والدین کو جھگڑتا دیکھنے والے بچوں میں اشتعال انگیزی بڑھ جاتی ہے۔ وہ بے جا بحث، تکرار اور جھگڑا کرنے کو درست اور ہر مسئلے کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔
لڑکے تو چیخ کر، جھگڑ کر اپنا مسئلہ نمٹا لیتے ہیں، لیکن لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں تو اعصابی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں اور سہمی ہوئی رہتی ہیں۔کیوں کہ ایک خاص عمر تک تو وہ اسی دباؤ میں رہتی ہیں ان کا اپنے بھائیوں کی طرح چیخ کر اور بلند آواز بالکل برداشت نہیں کی جائے گی اور وہ سنتی رہتی ہیں کہ عورتوں کی آواز گھر سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ بچپن سے والدین میں لڑائی جھگڑا دیکھنے والی بچی جب اپنے بہن بھائیوں یا دوستوں پر برہم ہوتی ہے تو ایک خاص ایج تک تو خوب غصہ کرتی ہے مگر بعد میں وہ اپنے آپ کو ایک خول میں گویا قید کر لیتی ہیں۔ اس کا ان کی مجموعی ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ والدین کے جھگڑوں کی وجہ سے بچوں کی طبیعت میں ایک چڑچڑا پن آجاتا ہے، وہ تمام لوگوں سے اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔ کسی سے جلدی مانوس نہیں ہوتے، ایسے بچے خود کسی کے قریب جاتے ہیں اور نہ ہی کسی کے سوالات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گھر آئے مہمان یا کہیں بھی رشتے دار ہو یا اجنبی اس سے بات چیت اور اس کے سوالات کا سامنا کرنے گریز کرتے ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ ایسے بچے کوشش کرتے ہیں کہ اس جگہ سے ہٹ جائیں جہاں ان سے یا ان کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔ اسی طرح جو بچے اپنی ماؤں پر جسمانی تشدد دیکھتے ہیں، آگے چل کر خود بھی اسی روش کو اپناتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ والدین جو اپنے بچوں کو خوش گوار ماحول فراہم کرتے ہیں، ان کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں اور بچوں کے سامنے جھگڑنے سے اجتناب کرتے ہیں تو ایسے ماحول میں نشوونما پانے والے بچے کی شخصیت میں توازن اور اعتماد نظر آتا ہے۔ وہ منفی سوچ اور طرزِ عمل کے حامل نہیں ہوتے، وہ صلح جُو اور شائستہ آداب ہوتے ہیں جس کا معاشرے پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ میاں بیوی میں تلخی اور اختلافات فطری بات ہے، لیکن اس پر شائستہ، منطقی اور لحاظ و مروت کے ساتھ ردعمل دینا الگ بات ہے جب کہ اس پر تشدد، بدکلامی اور غیرمہذب انداز اپنانا ایک منفی رویہ ہے جس کا نہ صرف ایک کنبے پر اثر پڑتا ہے بلکہ یہ معاشرے کے لیے بھی خرابیوں کا باعث ہوتا ہے۔
جب بچے اپنے گھر کو میدان جنگ اور اپنے والدین کو دشمنوں کی طرح ایک دوسرے سے الجھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں، کسے صحیح سمجھیں اور کون غلط ہے۔ ذرا سوچیے، ایک معصوم کے لیے وہ کتنا کڑا موقع ہو گا جب اسے ماں یا باپ میں سے ایک کی طرف جھکاؤ رکھنے اور صحیح سمجھنے کا فیصلہ کرنا ہو۔ ایسا موقع آتا ہے تو اس کے جذبات بری طرح مجروح ہوتے ہیں۔
ایک جانب ماں کی ممتا کھو دینے کا ڈر اور دوسری طرف باپ کی شفقت سے محروم ہونے کا خدشہ اسے چڑچڑا اور بدتہذیب بنا دیتا ہے۔ اس کشمکش سے بچنے کے لیے وہ گھر کے بجائے باہر وقت گزارنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی موجودگی میں کمرے سے باہر رہنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے کسی جھگڑے اور لڑائی کو دیکھنے کا موقع نہ ملے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے تمام اختلافات کو شائستگی اور مناسب انداز سے حل کریں اور اپنے جگر گوشوں کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کریں کہ ان کی جذبات مجروح نہ ہوں۔ بچوں کے سامنے اپنا رویہ درست رکھیں اور کسی بات پر اختلاف ہو تو تہذیب و شائستگی کے ساتھ منطق اور دلیل سے بات کریں۔