حکومتی عہدے تحریک انصاف اور عثمان بزدار کے درمیان تناؤ
معلوم ہوتا ہے کسی شخصیت نے کہا ہوگا کہ عمران خان کو ’’ع‘‘ والوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو الیکشن سے چند ماہ قبل بتا دیا گیا تھا کہ ان کی پارٹی کے پاس الیکشن جیتنے والے امیدواروں کی شدید قلت ہے اور ان کے بل بوتے پر انتخابات میں برتری حاصل نہیں ہو سکتی۔
تحریک انصاف کی اسی اندرونی کمزوری کی وجہ سے کپتان کو بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز''گفٹ''کیئے گئے۔ جنوبی پنجاب محاذ کی تحریک انصاف میں شمولیت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ ایک حکمت عملی کے تحت پہلے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے لوگوں پر مشتمل جنوبی پنجاب محاذ بنایا گیا اور پھر چند ہفتوں بعد اسے تحریک انصاف میں ضم کردیا گیا۔کہنے کو تو یہ لوگ دستاویزی طور پر تحریک انصاف کا حصہ ہیں لیکن درحقیقت تحریک انصاف کے حقیقی رہنما اور جنوبی محاذ والے ایک دوسرے کو ایک ہی جماعت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعلی سردار عثمان بزدار بھی جنوبی پنجاب محاذ کا حصہ ہیں ۔ عشق کا تو ایک''ع'' ہے لیکن تحریک انصاف کے تین ''ع'' ہیں،عمران خان، عارف علوی اور عثمان بزدار، معلوم ہوتا ہے کسی شخصیت نے کہا ہوگا کہ عمران خان کو ''ع'' والوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ الیکشن میں تحریک انصاف کے ''اپنے'' امیدوار بھی بڑی تعداد میں صوبائی الیکشن جیتے تھے لیکن عمران خان نے '' کس'' کے کہنے پر عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا، یہ راز ابھی تو نہیں کھل سکا لیکن ایک دن ضرور آشکار ہو جائے گا۔
فی الوقت تو قیاس آرائیاں ہی کی جاتی ہیں، جہانگیر ترین واضح کر چکے ہیں کہ عثمان بزدار کو انہوں نے قطعاً نامزد نہیں کیا تھا، شاہ محمود قریشی بھی ''اونر شپ'' نہیں لیتے جبکہ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ مبینہ طور پر خاتون اول نے عثمان بزدار کا نام تجویز کیا تھا ۔ اس وقت اصل پرابلم یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار اور تحریک انصاف ایک پیج پر دکھائی نہیں دے رہی ہیں ۔
سردار عثمان بزدار جو کہ اپنی سست کارکردگی اور موثر انتظامی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شدید تنقید کا شکار ہیں انہیں تحریک انصاف کی جانب سے بھی حمایت میسر نہیں ہے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد یہ موقف رکھتی ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کو اس وقت ناقص حکومتی کارکردگی کے حوالے سے جس تنقید کا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں کیونکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں حکومت کی کارکردگی وفاق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومتی عہدوں پر تقرریوں کے حوالے سے تحریک انصاف اور وزیر اعلیٰ کے درمیان سرد جنگ ہو رہی ہے۔ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں بالخصوص ''الیکٹ ایبلز''کی وجہ سے الیکشن ٹکٹ سے محروم رہنے والوں کو قوی امید تھی کہ عمران خان انہیں حکومتی عہدوں پر اکاموڈیٹ کریں گے، حکومت بننے کے بعد کئی ماہ تک عمران خان کو شدید معاشی بحران کا سامنا رہا جس کی وجہ سے تقرریوں کا معاملہ لٹکا رہا لیکن اب گزشتہ دو ماہ سے یہ معاملہ دھڑے بندی اور تنظیمی و حکومتی عہدیداروں کے درمیان رسہ کشی اور سرد جنگ کی وجہ سے موخر ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل ارشد داد کی سربراہی میں کمیٹی نے تمام رہنماوں سے مشاورت کے بعد محکموں میں موجود غیر سرکاری عہدوں پر تقرریوں کیلئے ایسے رہنماوں اور کارکنوں کے نام تجویز کیے تھے جو خالصتا تحریک انصاف کے اپنے تھے، یہ فہرست تقریباً دو ماہ قبل بنائی گئی تھی اور اس پر عمران خان کو بریف بھی کیا گیا اور ان سے رہنمائی بھی حاصل کی گئی تھی ۔گو کہ اس فہرست پر بھی پارٹی کے اندر تنقید ہو رہی ہے اور بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بعض نامزدگیاں درست نہیں ہیں یا میرٹ پر نہیں ہیں لیکن جب عہدے کم ہوں اور امیدوار زیادہ تو سب کو خوش رکھنا ممکن نہیں ہوتا لہذا ارشد داد کو بھی جو بہتر لگا وہ انہوں نے کیا۔
پنجاب کیلئے ابتدائی فہرست تقریباً 22 عہدوں کے لئے تھی جس میں سے 6 یا 7 پر تقرریاں ہو چکی ہیں اور یہ تقرریاں لسٹ کے مطابق نہیں ہوئی ہیں بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا اپنایا گیا ہے۔ جس کے پاس جتنی بڑی سفارش تھی اس نے اتنا ہی اچھا عہدہ حاصل کر لیا، اب باقی رہ جانے والے عہدوں پر بھی رسہ کشی ہو رہی ہے، تحریک انصاف کے اندر بھی ایک جنگ جاری ہے تو دوسری جانب وزیر اعلی اور تحریک انصاف کے درمیان بھی معاملات نارمل نہیں ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعلی عثمان بزدار چاہتے ہیں کہ تمام عہدے تحریک انصاف میں نہ تقسیم کیئے جائیں بلکہ کچھ عہدے ان کے حوالے کئے جائیں تا کہ وہ اراکین اسمبلی کو بھی اکاموڈیٹ کر سکیں ۔
عثمان بزدار نے یہ تجویز عمران خان کے سامنے بھی پیش کی ہے جس کی وجہ سے اس وقت تحریک انصاف کے تنظیمی عہدیداروں اور وزیر اعلی کے درمیان تناو موجود ہے، دوسری جانب تحریک انصاف کے اندر اپنی حکومت کے وزراء اور بیوروکریسی کے رویے کی وجہ سے مایوسی پھیل رہی ہے، حکومتی وزراء اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداروں کو لفٹ نہیں کرو ا رہے، ان کے فون نہیں سنتے اور اگر ملاقات کر بھی لیں تو ان کے چھوٹے موٹے کام بھی نہیں کرواتے جس کی وجہ سے ٹکٹ ہولڈرز شدید پریشان اور بددل ہو رہے ہیں ۔
بیوروکریسی بھی ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ نامناسب رویہ رکھے ہوئے ہے، گزشتہ دنوں لاہور کے بعض صوبائی ٹکٹ ہولڈرز نے ق لیگی رہنما اور مشیر وزیر اعلی چوہدری اکرم کے ساتھ ملاقات کی تو ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا، اس ملاقات کو تحریک انصاف کے عہدیداروں نے پسند نہیں کیا اور گزشتہ روز سیکرٹری جنرل ارشد داد نے ہنگامی طور پر ٹکٹ ہولڈرز کا اجلاس طلب کر کے ان کے مسائل دریافت کیئے ہیں ۔ عمران خان کی حکومت تو بن گئی لیکن اسے شدید مشکلات درپیش ہیں۔
سرحدوں پر بھارت کے ساتھ کشیدگی انتہائی حد پر ہے تو دوسری جانب شدید مہنگائی اور گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے عوام پریشان اور غیر مطمئن ہیں، اپوزیشن بھی حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے ایسے میں اشد ضروری ہے کہ تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت بہت متحرک، متحد اور موثر رول نبھائے، اس کے علاقائی رہنما مطمئن ہو کر لوگوں سے رابطے میں رہیں، تحریک انصاف کی تنظیم سازی بھی غیر معمولی تاخیر کا شکار ہے، عمران خان کو چاہیے کہ حکومتی امور میں سے کچھ وقت نکال کر اپنی پارٹی کی تنظیم سازی پر بھی توجہ دیں کیونکہ تحریک انصاف مضبوط ہو گی تو آئندہ الیکشن کی تیاری ہو گی۔
تحریک انصاف کی اسی اندرونی کمزوری کی وجہ سے کپتان کو بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز''گفٹ''کیئے گئے۔ جنوبی پنجاب محاذ کی تحریک انصاف میں شمولیت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ ایک حکمت عملی کے تحت پہلے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے لوگوں پر مشتمل جنوبی پنجاب محاذ بنایا گیا اور پھر چند ہفتوں بعد اسے تحریک انصاف میں ضم کردیا گیا۔کہنے کو تو یہ لوگ دستاویزی طور پر تحریک انصاف کا حصہ ہیں لیکن درحقیقت تحریک انصاف کے حقیقی رہنما اور جنوبی محاذ والے ایک دوسرے کو ایک ہی جماعت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعلی سردار عثمان بزدار بھی جنوبی پنجاب محاذ کا حصہ ہیں ۔ عشق کا تو ایک''ع'' ہے لیکن تحریک انصاف کے تین ''ع'' ہیں،عمران خان، عارف علوی اور عثمان بزدار، معلوم ہوتا ہے کسی شخصیت نے کہا ہوگا کہ عمران خان کو ''ع'' والوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ الیکشن میں تحریک انصاف کے ''اپنے'' امیدوار بھی بڑی تعداد میں صوبائی الیکشن جیتے تھے لیکن عمران خان نے '' کس'' کے کہنے پر عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا، یہ راز ابھی تو نہیں کھل سکا لیکن ایک دن ضرور آشکار ہو جائے گا۔
فی الوقت تو قیاس آرائیاں ہی کی جاتی ہیں، جہانگیر ترین واضح کر چکے ہیں کہ عثمان بزدار کو انہوں نے قطعاً نامزد نہیں کیا تھا، شاہ محمود قریشی بھی ''اونر شپ'' نہیں لیتے جبکہ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ مبینہ طور پر خاتون اول نے عثمان بزدار کا نام تجویز کیا تھا ۔ اس وقت اصل پرابلم یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار اور تحریک انصاف ایک پیج پر دکھائی نہیں دے رہی ہیں ۔
سردار عثمان بزدار جو کہ اپنی سست کارکردگی اور موثر انتظامی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شدید تنقید کا شکار ہیں انہیں تحریک انصاف کی جانب سے بھی حمایت میسر نہیں ہے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد یہ موقف رکھتی ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کو اس وقت ناقص حکومتی کارکردگی کے حوالے سے جس تنقید کا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں کیونکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں حکومت کی کارکردگی وفاق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومتی عہدوں پر تقرریوں کے حوالے سے تحریک انصاف اور وزیر اعلیٰ کے درمیان سرد جنگ ہو رہی ہے۔ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں بالخصوص ''الیکٹ ایبلز''کی وجہ سے الیکشن ٹکٹ سے محروم رہنے والوں کو قوی امید تھی کہ عمران خان انہیں حکومتی عہدوں پر اکاموڈیٹ کریں گے، حکومت بننے کے بعد کئی ماہ تک عمران خان کو شدید معاشی بحران کا سامنا رہا جس کی وجہ سے تقرریوں کا معاملہ لٹکا رہا لیکن اب گزشتہ دو ماہ سے یہ معاملہ دھڑے بندی اور تنظیمی و حکومتی عہدیداروں کے درمیان رسہ کشی اور سرد جنگ کی وجہ سے موخر ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل ارشد داد کی سربراہی میں کمیٹی نے تمام رہنماوں سے مشاورت کے بعد محکموں میں موجود غیر سرکاری عہدوں پر تقرریوں کیلئے ایسے رہنماوں اور کارکنوں کے نام تجویز کیے تھے جو خالصتا تحریک انصاف کے اپنے تھے، یہ فہرست تقریباً دو ماہ قبل بنائی گئی تھی اور اس پر عمران خان کو بریف بھی کیا گیا اور ان سے رہنمائی بھی حاصل کی گئی تھی ۔گو کہ اس فہرست پر بھی پارٹی کے اندر تنقید ہو رہی ہے اور بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بعض نامزدگیاں درست نہیں ہیں یا میرٹ پر نہیں ہیں لیکن جب عہدے کم ہوں اور امیدوار زیادہ تو سب کو خوش رکھنا ممکن نہیں ہوتا لہذا ارشد داد کو بھی جو بہتر لگا وہ انہوں نے کیا۔
پنجاب کیلئے ابتدائی فہرست تقریباً 22 عہدوں کے لئے تھی جس میں سے 6 یا 7 پر تقرریاں ہو چکی ہیں اور یہ تقرریاں لسٹ کے مطابق نہیں ہوئی ہیں بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا اپنایا گیا ہے۔ جس کے پاس جتنی بڑی سفارش تھی اس نے اتنا ہی اچھا عہدہ حاصل کر لیا، اب باقی رہ جانے والے عہدوں پر بھی رسہ کشی ہو رہی ہے، تحریک انصاف کے اندر بھی ایک جنگ جاری ہے تو دوسری جانب وزیر اعلی اور تحریک انصاف کے درمیان بھی معاملات نارمل نہیں ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعلی عثمان بزدار چاہتے ہیں کہ تمام عہدے تحریک انصاف میں نہ تقسیم کیئے جائیں بلکہ کچھ عہدے ان کے حوالے کئے جائیں تا کہ وہ اراکین اسمبلی کو بھی اکاموڈیٹ کر سکیں ۔
عثمان بزدار نے یہ تجویز عمران خان کے سامنے بھی پیش کی ہے جس کی وجہ سے اس وقت تحریک انصاف کے تنظیمی عہدیداروں اور وزیر اعلی کے درمیان تناو موجود ہے، دوسری جانب تحریک انصاف کے اندر اپنی حکومت کے وزراء اور بیوروکریسی کے رویے کی وجہ سے مایوسی پھیل رہی ہے، حکومتی وزراء اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداروں کو لفٹ نہیں کرو ا رہے، ان کے فون نہیں سنتے اور اگر ملاقات کر بھی لیں تو ان کے چھوٹے موٹے کام بھی نہیں کرواتے جس کی وجہ سے ٹکٹ ہولڈرز شدید پریشان اور بددل ہو رہے ہیں ۔
بیوروکریسی بھی ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ نامناسب رویہ رکھے ہوئے ہے، گزشتہ دنوں لاہور کے بعض صوبائی ٹکٹ ہولڈرز نے ق لیگی رہنما اور مشیر وزیر اعلی چوہدری اکرم کے ساتھ ملاقات کی تو ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا، اس ملاقات کو تحریک انصاف کے عہدیداروں نے پسند نہیں کیا اور گزشتہ روز سیکرٹری جنرل ارشد داد نے ہنگامی طور پر ٹکٹ ہولڈرز کا اجلاس طلب کر کے ان کے مسائل دریافت کیئے ہیں ۔ عمران خان کی حکومت تو بن گئی لیکن اسے شدید مشکلات درپیش ہیں۔
سرحدوں پر بھارت کے ساتھ کشیدگی انتہائی حد پر ہے تو دوسری جانب شدید مہنگائی اور گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے عوام پریشان اور غیر مطمئن ہیں، اپوزیشن بھی حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے ایسے میں اشد ضروری ہے کہ تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت بہت متحرک، متحد اور موثر رول نبھائے، اس کے علاقائی رہنما مطمئن ہو کر لوگوں سے رابطے میں رہیں، تحریک انصاف کی تنظیم سازی بھی غیر معمولی تاخیر کا شکار ہے، عمران خان کو چاہیے کہ حکومتی امور میں سے کچھ وقت نکال کر اپنی پارٹی کی تنظیم سازی پر بھی توجہ دیں کیونکہ تحریک انصاف مضبوط ہو گی تو آئندہ الیکشن کی تیاری ہو گی۔