پاک بھارت پائیدار امن کیلئے عالمی طاقتوں کو کردار ادا کرنا ہو گا
افسوسناک بات یہ ہے کہ پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان میں بھارتی دراندازی کی کسی عالمی طاقت نے کھل کر مذمت نہیں کی۔
پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں جاری کشیدگی میں وقتی طور پر کمی ضرور ہوئی ہے تاہم محاذ آرائی بڑھنے کا خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور کشمیریوں کو ان کے حقوق نہیں ملتے اس وقت تک پاکستان اور انڈیا کے مابین مکمل امن کا قیام ممکن نہیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی، پرائیویٹ ڈپلومیسی یا مذاکرات کے ذریعے عارضی طور پر سیز فائر ہو سکتی ہے۔
امن قائم ہو سکتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر اس خطے میں مستقل امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ یہ بات طے ہے کہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے، عالمی طاقتوں کے دباو کے ذریعے وقتی طور پر جنگ کا خطرہ ٹل چکا ہے لیکن اگر مسئلہ کشمیر کا مستقل اور دیرپا حل تلاش نہ کیا گیا تو پلوامہ جیسے واقعات، سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات، اڑی حملے جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور یہ واقعات پھر دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لے آئیں گے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان میں بھارتی دراندازی کی کسی عالمی طاقت نے کھل کر مذمت نہیں کی۔ اگرچہ پلوامہ واقعے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقیں آج بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ اگر چاہے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے ۔
اگر آج پاکستان اور انڈیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہیں تو اس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ اگر انڈیا کی پاکستان سے دشمنی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کو اپنا شہ رگ قرار دیتا ہے اور عالمی سطح پر کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے جو انڈیا سے برداشت نہیں ہوتا ۔ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے مابین اب تک تین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور اس وقت دونوں ممالک ایک بار پھر ایٹمی جنگ کے دہانے پے کھڑے ہیں ۔
اگر عالمی طاقتیں خاص طور پر اقوام متحدہ اب بھی اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو یہ خطہ شدید تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے جس کے اثرات عالمگیر ہوں گے۔
پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین پیداشدہ کشیدہ صورتحال اگرچہ پاکستان کے دانشمندانہ اقدامات اور بہترین خارجہ اور دفاعی پالیسی اور پوزیشن کی وجہ سے نارمل ہوئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک انڈیا کے انتخابات نہیں ہوتے، مودی اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ رکھنے اور پلوامہ جیسے واقعات دوبارہ کرانے سے باز نہیں آئے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی الیکشن سے قبل کسی بھی وقت پاکستان پر ایئر سٹرائیک یا سرجیکل سٹرائیک کرانے کی کوششیں کرے گا تاکہ ان اقدامات کے ذریعے عوامی حمایت اور ہمدردی کا ووٹ حاصل کر سکے۔ پلوامہ واقعے کے بعد جس طرح حکومت پاکستان نے دنیا کے سامنے اپنا موقف اجاگر کیا اس کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ۔ جبکہ بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے انڈیا کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا ہے۔
اول یہ کہ پاکستان نے بھارتی لڑاکا طیارے گرا کر انڈیا پر اپنی دفاعی برتری ثابت کر دی، امن کی پیشکش اور پائلٹ کی رہائی کے ذریعے سفارتی اور اخلاقی محاذ پر بھار ت کو شکست دے دی جبکہ پاکستان نے اپنی جوابی کاروائی کے ذریعے بھارت پر یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستان جوابی حملے کی طاقت رکھتا ہے لیکن وہ خطے میں امن کی خاطر جنگ نہیں چاہتا، پاکستان نے یہ پیغام بھی دیا کہ اگر بھارت نے آئندہ اس قسم کی کوئی جارحیت کی تو پاکستان کی جانب سے بھرپور جوابی کاروائی ہوگی ۔
پاکستان کی جانب سے سخت جوابی ایکشن کے بعد اب کشیدہ صورتحال میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود سرحدوں پر کشیدگی جاری ہے، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ رکا نہیں ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے سول آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، این ڈی ایم اے کی تازہ رپورٹ کے مطابق لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے5 اضلاع سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں ۔
لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتحال کے باعث 983 خاندانوں کی6 ہزار آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے، اس وقت پانچ کیمپوں میں چھیاسی خاندانوں کے افراد قیام پذیر ہیں جبکہ آٹھ سو ستانوے خاندان نقل مکانی کرکے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی گولہ باری اور فائرنگ سے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر 5 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، 39 افراد زخمی ہوئے ہیں ، 82 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں اب تک حالات مکمل نارمل نہیں، دونوں ممالک کے فضائی سفر بری طرح متاثر ہیں، تجارت کا عمل رک چکا ہے۔ اگر دونوں ملکوں نے عقلمندی کا ثبوت نہ دیا تو اس کا دونوں ملکوں پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ صورتحال کے باوجود حکومت پاکستان نے کراچی میں پی ایس ایل کے بقایا میچز کراچی میں کرا کر پاکستانی عوام بالخصوص کراچی کے عوام کیلئے ایک تفریح فراہم کردی ہے۔ پی ایس ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک سے کرکٹ سٹار شرکت کر رہے ہیں ۔ اس ٹورنامنٹ کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور سکیورٹی کا کوئی مسٗلہ نہیں ۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے سوموار کو کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے ملاقات کرکے اچھا تاثر دیا ہے، تاہم حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات عیادت کے لئے نہیں بلکہ ایک سیاسی ملاقات تھی ۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات سیاسی تھی ، یہ اب آپس میں تعاون کر رہے ہیں کیونکہ گذشتہ دس برسوں میں ان دونوں جماعتوں نے ملک کو لوٹا ہے جس پر ان جماعتوں کے سربراہان کے خلاف نیب میں کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں ۔ نعیم الحق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی علالت پر سیاست ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے نواز شریف کو ہر ممکن سہولت دینے کی ہدایت کی اور ملک میں ان کے علاج کی سہولت دستیاب ہے لیکن اپوزیشن اس پر سیاست کر رہی ہے جو افسوسناک ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور کشمیریوں کو ان کے حقوق نہیں ملتے اس وقت تک پاکستان اور انڈیا کے مابین مکمل امن کا قیام ممکن نہیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی، پرائیویٹ ڈپلومیسی یا مذاکرات کے ذریعے عارضی طور پر سیز فائر ہو سکتی ہے۔
امن قائم ہو سکتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر اس خطے میں مستقل امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ یہ بات طے ہے کہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے، عالمی طاقتوں کے دباو کے ذریعے وقتی طور پر جنگ کا خطرہ ٹل چکا ہے لیکن اگر مسئلہ کشمیر کا مستقل اور دیرپا حل تلاش نہ کیا گیا تو پلوامہ جیسے واقعات، سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات، اڑی حملے جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور یہ واقعات پھر دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لے آئیں گے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان میں بھارتی دراندازی کی کسی عالمی طاقت نے کھل کر مذمت نہیں کی۔ اگرچہ پلوامہ واقعے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقیں آج بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ اگر چاہے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے ۔
اگر آج پاکستان اور انڈیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہیں تو اس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ اگر انڈیا کی پاکستان سے دشمنی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کو اپنا شہ رگ قرار دیتا ہے اور عالمی سطح پر کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے جو انڈیا سے برداشت نہیں ہوتا ۔ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے مابین اب تک تین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور اس وقت دونوں ممالک ایک بار پھر ایٹمی جنگ کے دہانے پے کھڑے ہیں ۔
اگر عالمی طاقتیں خاص طور پر اقوام متحدہ اب بھی اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو یہ خطہ شدید تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے جس کے اثرات عالمگیر ہوں گے۔
پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین پیداشدہ کشیدہ صورتحال اگرچہ پاکستان کے دانشمندانہ اقدامات اور بہترین خارجہ اور دفاعی پالیسی اور پوزیشن کی وجہ سے نارمل ہوئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک انڈیا کے انتخابات نہیں ہوتے، مودی اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ رکھنے اور پلوامہ جیسے واقعات دوبارہ کرانے سے باز نہیں آئے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی الیکشن سے قبل کسی بھی وقت پاکستان پر ایئر سٹرائیک یا سرجیکل سٹرائیک کرانے کی کوششیں کرے گا تاکہ ان اقدامات کے ذریعے عوامی حمایت اور ہمدردی کا ووٹ حاصل کر سکے۔ پلوامہ واقعے کے بعد جس طرح حکومت پاکستان نے دنیا کے سامنے اپنا موقف اجاگر کیا اس کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ۔ جبکہ بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے انڈیا کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا ہے۔
اول یہ کہ پاکستان نے بھارتی لڑاکا طیارے گرا کر انڈیا پر اپنی دفاعی برتری ثابت کر دی، امن کی پیشکش اور پائلٹ کی رہائی کے ذریعے سفارتی اور اخلاقی محاذ پر بھار ت کو شکست دے دی جبکہ پاکستان نے اپنی جوابی کاروائی کے ذریعے بھارت پر یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستان جوابی حملے کی طاقت رکھتا ہے لیکن وہ خطے میں امن کی خاطر جنگ نہیں چاہتا، پاکستان نے یہ پیغام بھی دیا کہ اگر بھارت نے آئندہ اس قسم کی کوئی جارحیت کی تو پاکستان کی جانب سے بھرپور جوابی کاروائی ہوگی ۔
پاکستان کی جانب سے سخت جوابی ایکشن کے بعد اب کشیدہ صورتحال میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود سرحدوں پر کشیدگی جاری ہے، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ رکا نہیں ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے سول آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، این ڈی ایم اے کی تازہ رپورٹ کے مطابق لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے5 اضلاع سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں ۔
لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتحال کے باعث 983 خاندانوں کی6 ہزار آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے، اس وقت پانچ کیمپوں میں چھیاسی خاندانوں کے افراد قیام پذیر ہیں جبکہ آٹھ سو ستانوے خاندان نقل مکانی کرکے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی گولہ باری اور فائرنگ سے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر 5 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، 39 افراد زخمی ہوئے ہیں ، 82 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں اب تک حالات مکمل نارمل نہیں، دونوں ممالک کے فضائی سفر بری طرح متاثر ہیں، تجارت کا عمل رک چکا ہے۔ اگر دونوں ملکوں نے عقلمندی کا ثبوت نہ دیا تو اس کا دونوں ملکوں پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ صورتحال کے باوجود حکومت پاکستان نے کراچی میں پی ایس ایل کے بقایا میچز کراچی میں کرا کر پاکستانی عوام بالخصوص کراچی کے عوام کیلئے ایک تفریح فراہم کردی ہے۔ پی ایس ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک سے کرکٹ سٹار شرکت کر رہے ہیں ۔ اس ٹورنامنٹ کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور سکیورٹی کا کوئی مسٗلہ نہیں ۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے سوموار کو کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے ملاقات کرکے اچھا تاثر دیا ہے، تاہم حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات عیادت کے لئے نہیں بلکہ ایک سیاسی ملاقات تھی ۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات سیاسی تھی ، یہ اب آپس میں تعاون کر رہے ہیں کیونکہ گذشتہ دس برسوں میں ان دونوں جماعتوں نے ملک کو لوٹا ہے جس پر ان جماعتوں کے سربراہان کے خلاف نیب میں کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں ۔ نعیم الحق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی علالت پر سیاست ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے نواز شریف کو ہر ممکن سہولت دینے کی ہدایت کی اور ملک میں ان کے علاج کی سہولت دستیاب ہے لیکن اپوزیشن اس پر سیاست کر رہی ہے جو افسوسناک ہے۔