اپوزیشن عوامی ترقیاتی منصوبوں کے معاملے پر متحرک ہو گئی
آنے والے دن بلوچستان کی سیاست کیلئے بہت اہم ہونگے جس کے یقیناً اثرات اسلام آباد تک بھی جا سکتے ہیں؟
بلوچستان کی پی ایس ڈی پی2018-19 کا معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرگیا ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن کافی عرصہ خاموشی کے بعد پی ایس ڈی پی کے معاملے پر متحرک ہوگئی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کی رہائش گاہ پر متحدہ اپوزیشن کی ''بیٹھک'' میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پی ایس ڈی پی2018-19ء کے حوالے سے اسمبلی کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا جائے گا اور اس معاملے پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے کی بھی ریکوزیشن کی جائے گی۔ گذشتہ دنوں پی ایس ڈی پی2018-19 کے حوالے سے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بعض اہم فیصلے کئے گئے۔
ان فیصلوں سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت نے مالی سال2018-19 کے جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز کا اجراء شروع کردیا ہے اب تک مختلف سیکٹرز کے952 جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے 23 ارب روپے کے فنڈز جاری کئے گئے ہیں۔ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی میں3213 نئے اور1575جاری ترقیاتی منصوبوں میں80 فیصد سے زائد مکمل ہونے والے منصوبوں کیلئے بقایا فنڈز کا اجراء کرکے ان کی تکمیل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے2018-19ء کی پی ایس ڈی پی کا از خود نوٹس لیا جس کے بعد اس پر کام روک دیا گیا ہم عدالت کے اقدام کو سراہتے ہیں کیونکہ پی ایس ڈی پی وہ پروگرام ہے جس سے لوگوں کو ترقیاتی ریلیف ملتا ہے۔ عدالت میں پی ایس ڈی پی کیس کی سماعت کے دوران جن افسران نے پی ایس ڈی پی پر دستخط کئے تھے اُنہوں نے خود اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس کے بعد اُنہوں نے بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کئے سکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کردیں ۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے بتایا کہ عدالت نے ایک مختصر حکم نامے میں صوبے میں چار سیکٹرز جن میں تعلیم، صحت، پانی اور امن و امان شامل ہیں کو ترجیحی بنیادوں پر پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد صوبے کے دیگر سیکٹرز جو متاثر ہوئے ہیں انہیں ترجیح دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں زراعت، جنگلات، سڑکوں کی تعمیر، لائیو سٹاک، توانائی ایسے سیکٹرز ہیں جن میں کام کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
زراعت اور لائیو سٹاک صوبے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ دونوں شعبے پی ایس ڈی پی میں شامل ہی نہیں جس سے یہ شعبے بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پی ایس ڈی پی بند ہے، اس پر کام چل رہا ہے لیکن صرف ان سیکٹرز میں کام ہو رہا ہے جہاں عدالت نے نشاندہی کی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہر نئی حکومت اپنی پالیسی لیکر آتی ہے لیکن عدالت کے احکام کی وجہ سے ہمارے ترقیاتی منصوبے محدود ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے یکم ستمبر2018ء کے بعد پی ایس ڈی پی ریویو کمیٹی بنائی اور ہر شعبے کے حوالے سے کیٹگریز بنا دی ہیں، سکیموں کا جائزہ لیا گیا کہ کن پر کتنا کام ہوا اس کے بعد ہم نے سب سے بڑا فیصلہ کیا کہ تقریباً40 بلین روپے کی 411 سکیمیں جو70 سے80 فیصد مکمل ہونے کے باوجود گذشتہ دس سال سے زائد عرصے سے تاخیر کا شکار ہیں ان کو مکمل کرنے کیلئے کام شروع کیا گیا۔
اب تک ہم 8 سے10 ارب روپے خرچ کر چکے ہیں، پی ایس ڈی پی میں 1500 آن گوئنگ سکیمیں ہیں جن کی لاگت37 بلین روپے ہے ان پر بھی کام کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ ہم عدالت سے بھی رجوع کریں گے کہ جو سیکٹرز پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں ان کو بھی شامل کیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ایس ڈی پی کو نیشنلائز کر کے500 ارب روپے میں 2 سے اڑھائی سو ارب کی سکیموں کو ختم کیا ہے۔
اس سے صوبے پر بوجھ کم ہوگا اور آمدن میں اضافے کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ بی آر اے اور چائنیز منرلز میں نئی پالیسیاں لاکر صوبے کی آمدن میں اضافہ کیا جائے گا، ہمیں اُمید ہے کہ ہماری ان نئی پالیسیوں سے صوبے کی آمدن 15 ارب روپے سے بڑھ کر25 سے30 ارب روپے تک اس سال کے آخر تک پہنچ جائے گی ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان 25 سال سے صوبے میں بننے والی پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد دی جانے والی اپنی اس میڈیا بریفنگ میں بی اے پی کے وزراء کے علاوہ اپنی اتحادی جماعتوں کے وزراء کو بھی مدعو کیا تھا اور اُنہوں نے بڑا زور دے کر ایسی خبروں کو من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا جس میں پی ایس ڈی پی 2018-19 کے حوالے سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پی ایس ڈی پی کے معاملے پر صوبائی مخلوط حکومت میں اختلافات ہیں ۔
اُن کا کہنا تھا کہ بی اے پی اور اتحادی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے پی ایس ڈی پی2018-19ء کے حوالے سے بتائی گئی تفصیلات کے بعد سیاسی جماعتوں نے اس پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں کے مکمل ہونے اور معیار کو چیک کرنے کیلئے مانیٹرنگ کا نظام موجود ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ کی عدلیہ سے درخواست درحقیقت حکومتی اختیارات سے نا واقفیت کا مظہر ہے اور آئین پاکستان کے مطابق صوبائی اسمبلی و حکومت کے اختیارات اور اس کے تمام اداروں پر عدم اعتماد کا ثبوت ہے جو قابل افسوس ہے۔
اسی طرح ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ9 ماہ کے بعد بھی پی ایس ڈی پی میں83 ارب روپے میں سے صرف28 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت طفل تسلیاں دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے خدشہ ہے کہ اربوں روپے لیپس ہو جائیں گے جو کہ اس صوبے اور یہاں کے عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صوبے کی پی ایس ڈی پی2018-19 ایک سیاسی رنگ اختیار کرگئی ہے صوبائی حکومت کی یکے بعد دیگرے اس حوالے سے وضاحتیں آچکی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی اس معاملے کو بڑی شدت کے ساتھ اُٹھا رکھا ہے اور وہ حکومت کی وضاحتوں کو مسترد کرتے ہوئے اس کی نا اہلی قرار دے رہی ہیں۔
یہاں تک کہ متحدہ اپوزیشن بھی اس حوالے سے متحرک ہوگئی ہے اور اُس نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اسمبلی کے اندر اور باہر شدید احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے اور یہ اعلان انہوں نے کوئٹہ میں اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا جس میں انہوں نے موجودہ صوبائی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ صوبائی مخلوط حکومت اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں مداخلت کر رہی لہٰذا اس کا اب اسمبلی کے اندر اور باہر محاسبہ کیا جائے گا۔
ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان محرکات کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اتنا عرصہ خاموش رہنے کے بعد متحدہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ایسے وقت میں پی ایس ڈی پی2018-19ء کو ایک سیاسی ایشو بنا کر سامنے لانے کا کیوں فیصلہ کیا ہے۔
جام حکومت سے قبل بھی سابقہ ادوار میں پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ایسی ہی ملی جلی صورتحال سامنے آتی رہی ہے اور فنڈز بھی لیپس ہوتے رہے ہیں؟ لیکن پی ایس ڈی پی کے ایشو پر صوبائی حکومت کے خلاف سخت بیان بازی اور سیاسی جماعتوں کے متحد ہو کر متحرک ہونے کے بعض اطراف سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ صوبے کی سیاست کوئی اور سیاسی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تاہم اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے؟ اور آنے والے دن بلوچستان کی سیاست کیلئے بہت اہم ہونگے جس کے یقیناً اثرات اسلام آباد تک بھی جا سکتے ہیں؟
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کی رہائش گاہ پر متحدہ اپوزیشن کی ''بیٹھک'' میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پی ایس ڈی پی2018-19ء کے حوالے سے اسمبلی کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا جائے گا اور اس معاملے پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے کی بھی ریکوزیشن کی جائے گی۔ گذشتہ دنوں پی ایس ڈی پی2018-19 کے حوالے سے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بعض اہم فیصلے کئے گئے۔
ان فیصلوں سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت نے مالی سال2018-19 کے جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز کا اجراء شروع کردیا ہے اب تک مختلف سیکٹرز کے952 جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے 23 ارب روپے کے فنڈز جاری کئے گئے ہیں۔ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی میں3213 نئے اور1575جاری ترقیاتی منصوبوں میں80 فیصد سے زائد مکمل ہونے والے منصوبوں کیلئے بقایا فنڈز کا اجراء کرکے ان کی تکمیل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے2018-19ء کی پی ایس ڈی پی کا از خود نوٹس لیا جس کے بعد اس پر کام روک دیا گیا ہم عدالت کے اقدام کو سراہتے ہیں کیونکہ پی ایس ڈی پی وہ پروگرام ہے جس سے لوگوں کو ترقیاتی ریلیف ملتا ہے۔ عدالت میں پی ایس ڈی پی کیس کی سماعت کے دوران جن افسران نے پی ایس ڈی پی پر دستخط کئے تھے اُنہوں نے خود اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس کے بعد اُنہوں نے بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کئے سکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کردیں ۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے بتایا کہ عدالت نے ایک مختصر حکم نامے میں صوبے میں چار سیکٹرز جن میں تعلیم، صحت، پانی اور امن و امان شامل ہیں کو ترجیحی بنیادوں پر پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد صوبے کے دیگر سیکٹرز جو متاثر ہوئے ہیں انہیں ترجیح دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں زراعت، جنگلات، سڑکوں کی تعمیر، لائیو سٹاک، توانائی ایسے سیکٹرز ہیں جن میں کام کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
زراعت اور لائیو سٹاک صوبے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ دونوں شعبے پی ایس ڈی پی میں شامل ہی نہیں جس سے یہ شعبے بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پی ایس ڈی پی بند ہے، اس پر کام چل رہا ہے لیکن صرف ان سیکٹرز میں کام ہو رہا ہے جہاں عدالت نے نشاندہی کی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہر نئی حکومت اپنی پالیسی لیکر آتی ہے لیکن عدالت کے احکام کی وجہ سے ہمارے ترقیاتی منصوبے محدود ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے یکم ستمبر2018ء کے بعد پی ایس ڈی پی ریویو کمیٹی بنائی اور ہر شعبے کے حوالے سے کیٹگریز بنا دی ہیں، سکیموں کا جائزہ لیا گیا کہ کن پر کتنا کام ہوا اس کے بعد ہم نے سب سے بڑا فیصلہ کیا کہ تقریباً40 بلین روپے کی 411 سکیمیں جو70 سے80 فیصد مکمل ہونے کے باوجود گذشتہ دس سال سے زائد عرصے سے تاخیر کا شکار ہیں ان کو مکمل کرنے کیلئے کام شروع کیا گیا۔
اب تک ہم 8 سے10 ارب روپے خرچ کر چکے ہیں، پی ایس ڈی پی میں 1500 آن گوئنگ سکیمیں ہیں جن کی لاگت37 بلین روپے ہے ان پر بھی کام کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ ہم عدالت سے بھی رجوع کریں گے کہ جو سیکٹرز پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں ان کو بھی شامل کیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ایس ڈی پی کو نیشنلائز کر کے500 ارب روپے میں 2 سے اڑھائی سو ارب کی سکیموں کو ختم کیا ہے۔
اس سے صوبے پر بوجھ کم ہوگا اور آمدن میں اضافے کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ بی آر اے اور چائنیز منرلز میں نئی پالیسیاں لاکر صوبے کی آمدن میں اضافہ کیا جائے گا، ہمیں اُمید ہے کہ ہماری ان نئی پالیسیوں سے صوبے کی آمدن 15 ارب روپے سے بڑھ کر25 سے30 ارب روپے تک اس سال کے آخر تک پہنچ جائے گی ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان 25 سال سے صوبے میں بننے والی پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد دی جانے والی اپنی اس میڈیا بریفنگ میں بی اے پی کے وزراء کے علاوہ اپنی اتحادی جماعتوں کے وزراء کو بھی مدعو کیا تھا اور اُنہوں نے بڑا زور دے کر ایسی خبروں کو من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا جس میں پی ایس ڈی پی 2018-19 کے حوالے سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پی ایس ڈی پی کے معاملے پر صوبائی مخلوط حکومت میں اختلافات ہیں ۔
اُن کا کہنا تھا کہ بی اے پی اور اتحادی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے پی ایس ڈی پی2018-19ء کے حوالے سے بتائی گئی تفصیلات کے بعد سیاسی جماعتوں نے اس پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں کے مکمل ہونے اور معیار کو چیک کرنے کیلئے مانیٹرنگ کا نظام موجود ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ کی عدلیہ سے درخواست درحقیقت حکومتی اختیارات سے نا واقفیت کا مظہر ہے اور آئین پاکستان کے مطابق صوبائی اسمبلی و حکومت کے اختیارات اور اس کے تمام اداروں پر عدم اعتماد کا ثبوت ہے جو قابل افسوس ہے۔
اسی طرح ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ9 ماہ کے بعد بھی پی ایس ڈی پی میں83 ارب روپے میں سے صرف28 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت طفل تسلیاں دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے خدشہ ہے کہ اربوں روپے لیپس ہو جائیں گے جو کہ اس صوبے اور یہاں کے عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صوبے کی پی ایس ڈی پی2018-19 ایک سیاسی رنگ اختیار کرگئی ہے صوبائی حکومت کی یکے بعد دیگرے اس حوالے سے وضاحتیں آچکی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی اس معاملے کو بڑی شدت کے ساتھ اُٹھا رکھا ہے اور وہ حکومت کی وضاحتوں کو مسترد کرتے ہوئے اس کی نا اہلی قرار دے رہی ہیں۔
یہاں تک کہ متحدہ اپوزیشن بھی اس حوالے سے متحرک ہوگئی ہے اور اُس نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اسمبلی کے اندر اور باہر شدید احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے اور یہ اعلان انہوں نے کوئٹہ میں اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا جس میں انہوں نے موجودہ صوبائی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ صوبائی مخلوط حکومت اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں مداخلت کر رہی لہٰذا اس کا اب اسمبلی کے اندر اور باہر محاسبہ کیا جائے گا۔
ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان محرکات کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اتنا عرصہ خاموش رہنے کے بعد متحدہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ایسے وقت میں پی ایس ڈی پی2018-19ء کو ایک سیاسی ایشو بنا کر سامنے لانے کا کیوں فیصلہ کیا ہے۔
جام حکومت سے قبل بھی سابقہ ادوار میں پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ایسی ہی ملی جلی صورتحال سامنے آتی رہی ہے اور فنڈز بھی لیپس ہوتے رہے ہیں؟ لیکن پی ایس ڈی پی کے ایشو پر صوبائی حکومت کے خلاف سخت بیان بازی اور سیاسی جماعتوں کے متحد ہو کر متحرک ہونے کے بعض اطراف سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ صوبے کی سیاست کوئی اور سیاسی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تاہم اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے؟ اور آنے والے دن بلوچستان کی سیاست کیلئے بہت اہم ہونگے جس کے یقیناً اثرات اسلام آباد تک بھی جا سکتے ہیں؟