بینظیرآباد کے باسی پانی کی بُوند بُوند کو ترس گئے
حکمرانوں کے آبائی شہر میں قلت آب کی صورتحال سنگین تر، فلٹرپلانٹس ناکارہ، تالاب سُوکھ گئے۔
بے نظیر آباد (سابقہ نواب شاہ) 3 دہائیوں سے سندھ کے حکمراں خاندان کا آبائی گھر چلا آرہا ہے، اس کے باوجود اس شہر ناپرساں کے باسی گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔
حکمراں جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری اور ان کے والد آصف زرداری کے آبائی شہر میں لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ء میں صوبائی زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد بے نظیرآباد کے لیے میزانیوں اور خصوصی پیکیجز میں اربوں روپے مختص کیے مگر پینے کی پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے سول اسپتال میں پینے کے پانی کی کوئی سہولت دستیاب نہیں، مریض اور ان کے تیماردار بوتل بند پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان ناداروں پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی دور حکومت میں اس وقت کی ضلعی ناظم اور شریک چیئرمین پی پی پی کی ہمشیرہ فریال تالپور نے شہر میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کروائے تھے جو سب کے سب ناکارہ ہوچکے ہیں۔ صرف 2012ء میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے نصب کیے گئے دو پلانٹس جزوی طور پر کام کررہے ہیں۔
اپنی گنجائش کے مطابق 10 لاکھ کے بجائے یہ پلانٹس 1 سے 2 لاکھ گیلن پانی ہی مہیا کررہے ہیں۔ شہریوں کے مطابق حکومت نے بے نظیرآباد میں یونیورسٹیاں اور سڑکیں تو تعمیر کردیں، اسپتالوں کو اپ گریڈ کردیا مگر پینے کے پانی کی فراہمی پر اس نے توجہ نہیں دی جو آبادی کا بنیادی مسئلہ ہے۔
شہر کے شدید قلت آب سے دوچار علاقوں میں عظیم کالونی، سانگھڑ روڈ، تاج کالونی، غریب آباد، پولیس ہیڈکوارٹرز، کچہری روڈ اور منواآباد شامل ہیں۔ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شہری کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد شام کے وقت شہر سے باہر نکلنے والی نہروں کا رخ کرتے ہیں اور ان کے کنارے نصب ہینڈپمپس سے پانی بھرتے ہیں۔
حکمراں جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری اور ان کے والد آصف زرداری کے آبائی شہر میں لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ء میں صوبائی زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد بے نظیرآباد کے لیے میزانیوں اور خصوصی پیکیجز میں اربوں روپے مختص کیے مگر پینے کی پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے سول اسپتال میں پینے کے پانی کی کوئی سہولت دستیاب نہیں، مریض اور ان کے تیماردار بوتل بند پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان ناداروں پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی دور حکومت میں اس وقت کی ضلعی ناظم اور شریک چیئرمین پی پی پی کی ہمشیرہ فریال تالپور نے شہر میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کروائے تھے جو سب کے سب ناکارہ ہوچکے ہیں۔ صرف 2012ء میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے نصب کیے گئے دو پلانٹس جزوی طور پر کام کررہے ہیں۔
اپنی گنجائش کے مطابق 10 لاکھ کے بجائے یہ پلانٹس 1 سے 2 لاکھ گیلن پانی ہی مہیا کررہے ہیں۔ شہریوں کے مطابق حکومت نے بے نظیرآباد میں یونیورسٹیاں اور سڑکیں تو تعمیر کردیں، اسپتالوں کو اپ گریڈ کردیا مگر پینے کے پانی کی فراہمی پر اس نے توجہ نہیں دی جو آبادی کا بنیادی مسئلہ ہے۔
شہر کے شدید قلت آب سے دوچار علاقوں میں عظیم کالونی، سانگھڑ روڈ، تاج کالونی، غریب آباد، پولیس ہیڈکوارٹرز، کچہری روڈ اور منواآباد شامل ہیں۔ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شہری کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد شام کے وقت شہر سے باہر نکلنے والی نہروں کا رخ کرتے ہیں اور ان کے کنارے نصب ہینڈپمپس سے پانی بھرتے ہیں۔