کراچی کی لڑکیاں شمشیر زنی کے کھیل میں ملک کا نام روشن کرنے کے لئے تیار

گزشتہ 2 سال میں صرف کراچی کی 400 سے زائد لڑکیاں اس کھیل میں مہارت حاصل کرچکی ہیں، جنرل سیکرٹری ایس ایف اے

لڑکیاں میدان جنگ ہو یا کوئی کھیل کسی سے کم نہیں ہیں، کھلاڑی اقر۔ فوٹو؛ ایکسپریس نیوز

MANILA:
شہر قائد کی نوجوان لڑکیاں اب شمشیر زنی میں ملک کا نام روشن کے لئے تیار ہیں۔

تلوار یوں تو ایک خطرناک چیز ہے اور صنف نازک کا اس سے کھیلنا کسی خطرے سے کم نہیں تاہم ایکسپریس نیوز کے مطابق ہزاروں سال پرانا قدیم کھیل شمشیر زنی کراچی کی لڑکیوں میں مقبول ہونے لگا ہے، اور جرمنی اٹلی فرانس اور دیگر ممالک کے بعد پاکستان میں بھی شمشیر زنی کی مہارت رکھنے والی لڑکیاں سامنے آگئی ہیں۔

سندھ فینسنگ ایسوسی ایشن نے شمشیرزنی کے کھیل کو فروغ دینے کے لئے شہر میں نوجوان لڑکیوں کے مقابلے کرائے جس کے بعد ملک کا بہترین ٹیلنٹ سامنے آیا۔ اس موقع پر ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سندھ فینسنگ ایسوسی ایشن (ایس ایف اے) کے سیکریٹری جنرل محمد تقی کا کہنا تھا کہ لڑکیاں زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں اور انہیں کھیلنے کے مواقع میسر نہیں ہوتے، شمشیر زنی ایک تھرل سے بھرپورکھیل ہے اور تھرل کی جبلت عموما لڑکیوں کے اندر رہ جاتی ہے جسے باہر نکالنے کےلئے لڑکوں کے مقابلے میں اب لڑکیاں زیادہ تلوار زنی کی جانب مائل ہورہی ہیں۔



سیکریٹری جنرل ایس ایف اے نے بتایا کہ پاکستان میں یہ کھیل 1996 میں متعارف ہوا اور 2017 تک اس کھیل کو پزیرائی نہیں ملی، اور 2012-14 میں اس کھیل کے لئے صرف 12 لڑکیاں تھیں، تاہم گزشتہ 2 سال میں صرف کراچی کی 400 سے زائد لڑکیاں اس کھیل میں مہارت حاصل کرچکی ہیں۔


محمد تقی کا کہنا تھا کہ تلوار زنی کھیل کے لیے مخصوص جیکٹ ، پینٹ، گلوز، جوتے، موزے، اور ماسک درکار ہوتا ہے تمام اشیا میں تلوار سب سے اہم ہوتی ہے جس کی لمبائی 90 سے 110 سینٹی میٹر ہوتی ہے جبکہ اس کا وزن پانچ سو گرام سے سات سو ستر گرام ہوتا ہے، جیکٹ کی قیمت 25 ہزار جب کہ ماسک کی قیمت 12 سے 15 ہزار تک ہوتی ہے۔ تاہم کھیل کے لئے ابتدا کے دوسال تک ہمارے پاس کوئی ساز و سامان موجود نہیں۔



انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس کا سامان تیار نہیں ہوتا اور تمام چیزیں باہر سے منگوانی پڑتی ہیں، ابتدائی دنوں میں ہم لکڑیوں کی تلوار بنوا کر اس کھیل کو سکھاتے تھے لیکن اب کچھ مخیرحضرات اس کھیل کو فروغ دینے کےلئے ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

شمشیر زنی کی کھلاڑی اقرا نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے اس کھیل کا حصہ ہیں یہ ایک قدیم کھیل ہے لیکن اسے موجودہ حالات کے مطابق جدید بنایا جارہا ہے اور دن بہ دن بہتری کے لئے اس میں ترمیم ہوتی رہتی ہے، اس کی ورزش بہت مشکل اور بالخصوص گھٹنوں کی ورزش زیادہ اہم ہوتی ہے، اس طرح کے کھیل ہم نوجوان لڑکیوں میں تعلیم کے ساتھ دفاعی صلاحیت پیدا کررہے ہیں، ایک وقت تھا جب لوگ خواتین کو کمزور سمجھتے تھے لیکن آج لڑکیوں نے ثابت کردیا کہ میدان چاہے جنگ کا ہو یا پھر کھیل کا ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔

Load Next Story