جہالت جیسی غربت
کوا ابھی تنہائی سے غمگین تھا اس لیے اس نے بٹیر پر کوئی اعتراض نہ کیا
جہالت جیسی کوئی غربت نہیں۔ ایمرسن کہتا ہے عقل کی حد ہوتی ہے لیکن بے عقلی کی کوئی حد نہیں ہوتی جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں میں مردوں کو زندہ کرنے سے عاجز نہیں آیا لیکن احمق اور نادان کی اصلاح سے عاجز آ گیا۔ حکایت سعدی ہے، کسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک پہاڑ کے دامن میں کئی جنگلی پرندے زندگی بسر کر رہے تھے، جہاں ایک کوے نے بھی درخت پر گھو نسلا بنا رکھا تھا، اس کے نزدیک ایک چکور بھی رہتا تھا اس لیے ہمسایہ ہونے کے ناتے ان کی جان پہچان کے علاوہ دوستی بھی تھی۔ اتفاق سے ایک دن چکور کی کوئی خبر نہ ملی، اس لیے کوا سوچنے لگا کہ خدا نہ کرے چکور کسی حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا ہو۔ جب اسی طرح چند دن گزر گئے تو ایک خوبصورت بٹیر وہاں آ گیا، جب اس نے چکور کے گھونسلے کو خالی پایا تو اس میں جھاڑو دے کر وہیں رہائش اختیار کرلی۔
کوا ابھی تنہائی سے غمگین تھا اس لیے اس نے بٹیر پر کوئی اعتراض نہ کیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا، اب چکور لاپتہ ہے اور اس کی کوئی خبر نہیں ہے، اگر بٹیر یہاں رہائش رکھ لے تو مجھے کیا نقصان ہے۔ اسی طرح چند ماہ گزر گئے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ چکور واپس آ گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ ایک ناواقف بٹیر اس کے گھونسلے میں مقیم ہے تو اس نے اعتراض کیا اور کہا تجھے کس نے اجازت دی ہے کہ کسی کے گھر میں رہائش اختیار کرو۔ بٹیر چونکہ چکور کو نہیں پہچانتا تھا، اس صورت حال سے رنجیدہ ہو گیا، کہنے لگا میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوں لیکن تجھے کس نے اجازت دی ہے کہ میرے آرام میں دخل اندازی کرو۔ دونوں کے درمیان لمبی چوڑی گفتگو ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ کوا اور کئی دوسرے پرندے جمع ہو گئے، اے پی سی کا سماں ہو گیا، لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کون صحیح ہے۔
کوا بھی ان کا پرانا ہمسایہ تھا، اس نے کافی کوشش کی کہ ان میں صلح صفائی کرائے، اس لیے تجویز پیش کی کہ ایک نیا گھونسلا بنا لیا جائے لیکن فریقین کسی بات پر راضی نہ ہوئے، اس کے علاوہ دوسرے پرندے جو تجویز پیش کرتے تو چکور یا بٹیر ان پر الزام لگا دیتے کہ تم دوسرے فریق کی طرف داری کر رہے ہو۔ آخرکار پرندوں نے طے کیا کہ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار اور انصاف پسند حاکم کے پاس جائیں تا کہ وہ مقدمے کی سماعت کرے۔ ایک دوسرے پرندے نے رائے دی کہ بہتر ہو گا کہ یہ دعویٰ بلی کے پاس لے جائیں کیونکہ اسے تو گھو نسلے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بلی یہاں سے قریب رہتی ہے، اس کی کسی سے سیاسی لڑائی بھی نہیں، کسی شخص نے اس میں برائی نہیں دیکھی، وہ اس قدر شریف ہے کہ اس نے ابھی تک دنیا کے مال سے اپنا گھر بھی نہیں بنایا، وہ نیکی کے کاموں میں کسی سے کوئی مزدوری نہیں لیتی، وہ ہمیشہ حق بات کہتی ہے، اس لیے اس سے بہتر کوئی نہیں ہے جو تمہارے مقدمے کا فیصلہ کرے۔
پرندوں کے سمجھانے بجھانے سے چکور اور بٹیر بلی سے فیصلہ کروانے پر راضی ہو گئے۔ دوسری طرف بلی اپنے گھر میں چپ بیٹھی تھی اور اپنی خوراک کی فکر میں تھی، جب اس نے چکور اور بٹیر کے قدموں کی چاپ سنی تو اپنے دونوں پیروں پر با ادب کھڑی ہو گئی، یوں لگا جیسے کسی خیال میں گم ہے، یا اس پر وجدان کی کیفیت طاری ہے، چکور اور بٹیر جب وہاں پہنچے تو وہ اسی حالت میں دیکھی گئی، انھوں نے بلی کو اس محویت کے عالم میں مشغول پایا تو بے حد خوش ہوئے اور کچھ فاصلے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے تا کہ اس کی آنکھ کھلے، عالم بے خودی ختم ہو۔ بلی نے اپنا عمل پورا کیا، سرشاری و عاجزی سے آنکھیں کھولیں، اور پھر اپنا رخ روشن چکور اور بٹیر کی طرف پھیر لیا۔ دونوں پرندوں نے اسے سلام کیا اور درخواست کی کہ وہ ان کی حاکم بنے اور انصاف سے فیصلہ کرے۔ بلی نے کہا مجھے تمام واقعات تفصیل سے بتائو۔
اور شواہد بھی پیش کرو۔ جس وقت چکور اور بٹیر نے گھونسلے کا ماجرا بیان کیا تو بلی نے کہا، اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں، اس لیے ضعف کی وجہ سے حرکت بھی نہیں کر سکتی، میرے کان بھی بھاری ہو گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمہاری باتیں اچھی طرح سے سن نہیں سکتی، بہتر ہو گا کہ تم کچھ مزید آگے آ جائو اور اپنی باتیں دوبارہ بلند آواز سے بیان کرو تا کہ میں اچھی طرح سن کر گھونسلے اور اس کی سرگزشت سے واقفیت حاصل کر لوں۔ ان باتوں سے چکور اور بٹیر اور بھی دلیر ہو گئے اور بلی کے قریب آ گئے۔ بلی کھانسنے لگی اور کہا اب کہو تا کہ میں دیکھوں کہ یہ گھونسلا حقیقت میں کس کی ملکیت ہے۔ ہاں! قدرے بلند آواز سے بیان کرو کیونکہ میں اچھی طرح نہیں سن سکتی اور اس بات کو بھی نہ بھولو کہ جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے، سچ سچ بیان کرو۔ چکور اور بٹیر بلی کی دل فریب باتوں اور اس کے انصاف سے پوری طرح مطمئن تھے اس لیے کچھ آگے بڑھے اور اس کے سامنے بیٹھ گئے لیکن جونہی انھوں نے بات شروع کی تو اچانک بلی اپنی جگہ سے اچھلی اور ان پر حملہ کر دیا اور دونوں کو لمحوں میں پکڑ کر اپنے دانتوں میں دبا لیا اور پھر زخموں سے چور بٹیر اور چکور کو کھانے میں مصروف ہو گئی۔
خلیل جبران کہتا ہے عیسا ئیوں کے پادری، مسلمانوں کے مُلا اور ہندوئوں کے برہمن سمندر کے اس سانپ کے مانند ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے شکار کو پھانس کر اس کا خون چوستے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی داستان جو سیاسی غلامی کے پہلو بہ پہلو معاشی و فکر ی غلامی کی بھی گرفت میں ہے، ہماری قوم انتہائی معصوم ہے، نادانی اور گمراہی کا شکار ہے، صحیح طریقے سے اس کی رہنمائی اور تربیت نہ ہو سکی نہ ریاستی سطح پر اور نہ تعلیم و تہذیب کی سطح پر اور اس سے زیادہ خوفنا ک شکل تو دوسری طرف ہے اور وہ ہے قدامت پرستوں کی۔ ان قدامت پرستوں کے بھی دو حصے ہیں ایک جاہل طبقہ اور دوسرا بنیاد پرستوں کا جو پہلے طبقے کا ہمیشہ کی طرح آج بھی استحصال کر رہا ہے اور مذہب کے نام پر خود مارنے اور جاہل طبقے کو مرنے کے لیے مسلسل تیار کرتا رہتا ہے۔
ہمارے ہاں جاگیرداری، سرمایہ داری، جہالت تینوں لعنتیں موجود ہیں، ایک مجموعی گھٹن، تنگ نظری اور جمود ہمارا مقدر بن گیا ہے، کچھ لوگوں نے جائیدادوں کی طرح اسلام کے جملہ حقوق اپنے نا م الاٹ کروا رکھے ہیں۔ ریاکاری، بے ایمانی، ذہنی غلاظت، بدعنوانی، لالچ، فریب سے پر ہمارے معاشرے میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اپنی بدکرداری و بدعنوانی کو Institutionalize کرنے کے لیے باقاعدہ فلسفیانہ توجہیات پیش کر کے خود کو اور گرد و پیش کی سوسائٹی کو فریب میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔ ایلیٹ کہتا ہے جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہیں تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔ ریاکاری، تعصب، نفرت، بنیاد پرستی انتہائی خطرناک امراض ہیں اور ہمیں ان امراض کے خلاف جنگ کرنا ہو گی۔ ہمیں ایک نئے راستے کی ضرورت ہے جو ہمیں خود تلا ش کرنا ہو گا۔
کوا ابھی تنہائی سے غمگین تھا اس لیے اس نے بٹیر پر کوئی اعتراض نہ کیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا، اب چکور لاپتہ ہے اور اس کی کوئی خبر نہیں ہے، اگر بٹیر یہاں رہائش رکھ لے تو مجھے کیا نقصان ہے۔ اسی طرح چند ماہ گزر گئے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ چکور واپس آ گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ ایک ناواقف بٹیر اس کے گھونسلے میں مقیم ہے تو اس نے اعتراض کیا اور کہا تجھے کس نے اجازت دی ہے کہ کسی کے گھر میں رہائش اختیار کرو۔ بٹیر چونکہ چکور کو نہیں پہچانتا تھا، اس صورت حال سے رنجیدہ ہو گیا، کہنے لگا میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوں لیکن تجھے کس نے اجازت دی ہے کہ میرے آرام میں دخل اندازی کرو۔ دونوں کے درمیان لمبی چوڑی گفتگو ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ کوا اور کئی دوسرے پرندے جمع ہو گئے، اے پی سی کا سماں ہو گیا، لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کون صحیح ہے۔
کوا بھی ان کا پرانا ہمسایہ تھا، اس نے کافی کوشش کی کہ ان میں صلح صفائی کرائے، اس لیے تجویز پیش کی کہ ایک نیا گھونسلا بنا لیا جائے لیکن فریقین کسی بات پر راضی نہ ہوئے، اس کے علاوہ دوسرے پرندے جو تجویز پیش کرتے تو چکور یا بٹیر ان پر الزام لگا دیتے کہ تم دوسرے فریق کی طرف داری کر رہے ہو۔ آخرکار پرندوں نے طے کیا کہ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار اور انصاف پسند حاکم کے پاس جائیں تا کہ وہ مقدمے کی سماعت کرے۔ ایک دوسرے پرندے نے رائے دی کہ بہتر ہو گا کہ یہ دعویٰ بلی کے پاس لے جائیں کیونکہ اسے تو گھو نسلے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بلی یہاں سے قریب رہتی ہے، اس کی کسی سے سیاسی لڑائی بھی نہیں، کسی شخص نے اس میں برائی نہیں دیکھی، وہ اس قدر شریف ہے کہ اس نے ابھی تک دنیا کے مال سے اپنا گھر بھی نہیں بنایا، وہ نیکی کے کاموں میں کسی سے کوئی مزدوری نہیں لیتی، وہ ہمیشہ حق بات کہتی ہے، اس لیے اس سے بہتر کوئی نہیں ہے جو تمہارے مقدمے کا فیصلہ کرے۔
پرندوں کے سمجھانے بجھانے سے چکور اور بٹیر بلی سے فیصلہ کروانے پر راضی ہو گئے۔ دوسری طرف بلی اپنے گھر میں چپ بیٹھی تھی اور اپنی خوراک کی فکر میں تھی، جب اس نے چکور اور بٹیر کے قدموں کی چاپ سنی تو اپنے دونوں پیروں پر با ادب کھڑی ہو گئی، یوں لگا جیسے کسی خیال میں گم ہے، یا اس پر وجدان کی کیفیت طاری ہے، چکور اور بٹیر جب وہاں پہنچے تو وہ اسی حالت میں دیکھی گئی، انھوں نے بلی کو اس محویت کے عالم میں مشغول پایا تو بے حد خوش ہوئے اور کچھ فاصلے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے تا کہ اس کی آنکھ کھلے، عالم بے خودی ختم ہو۔ بلی نے اپنا عمل پورا کیا، سرشاری و عاجزی سے آنکھیں کھولیں، اور پھر اپنا رخ روشن چکور اور بٹیر کی طرف پھیر لیا۔ دونوں پرندوں نے اسے سلام کیا اور درخواست کی کہ وہ ان کی حاکم بنے اور انصاف سے فیصلہ کرے۔ بلی نے کہا مجھے تمام واقعات تفصیل سے بتائو۔
اور شواہد بھی پیش کرو۔ جس وقت چکور اور بٹیر نے گھونسلے کا ماجرا بیان کیا تو بلی نے کہا، اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں، اس لیے ضعف کی وجہ سے حرکت بھی نہیں کر سکتی، میرے کان بھی بھاری ہو گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمہاری باتیں اچھی طرح سے سن نہیں سکتی، بہتر ہو گا کہ تم کچھ مزید آگے آ جائو اور اپنی باتیں دوبارہ بلند آواز سے بیان کرو تا کہ میں اچھی طرح سن کر گھونسلے اور اس کی سرگزشت سے واقفیت حاصل کر لوں۔ ان باتوں سے چکور اور بٹیر اور بھی دلیر ہو گئے اور بلی کے قریب آ گئے۔ بلی کھانسنے لگی اور کہا اب کہو تا کہ میں دیکھوں کہ یہ گھونسلا حقیقت میں کس کی ملکیت ہے۔ ہاں! قدرے بلند آواز سے بیان کرو کیونکہ میں اچھی طرح نہیں سن سکتی اور اس بات کو بھی نہ بھولو کہ جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے، سچ سچ بیان کرو۔ چکور اور بٹیر بلی کی دل فریب باتوں اور اس کے انصاف سے پوری طرح مطمئن تھے اس لیے کچھ آگے بڑھے اور اس کے سامنے بیٹھ گئے لیکن جونہی انھوں نے بات شروع کی تو اچانک بلی اپنی جگہ سے اچھلی اور ان پر حملہ کر دیا اور دونوں کو لمحوں میں پکڑ کر اپنے دانتوں میں دبا لیا اور پھر زخموں سے چور بٹیر اور چکور کو کھانے میں مصروف ہو گئی۔
خلیل جبران کہتا ہے عیسا ئیوں کے پادری، مسلمانوں کے مُلا اور ہندوئوں کے برہمن سمندر کے اس سانپ کے مانند ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے شکار کو پھانس کر اس کا خون چوستے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی داستان جو سیاسی غلامی کے پہلو بہ پہلو معاشی و فکر ی غلامی کی بھی گرفت میں ہے، ہماری قوم انتہائی معصوم ہے، نادانی اور گمراہی کا شکار ہے، صحیح طریقے سے اس کی رہنمائی اور تربیت نہ ہو سکی نہ ریاستی سطح پر اور نہ تعلیم و تہذیب کی سطح پر اور اس سے زیادہ خوفنا ک شکل تو دوسری طرف ہے اور وہ ہے قدامت پرستوں کی۔ ان قدامت پرستوں کے بھی دو حصے ہیں ایک جاہل طبقہ اور دوسرا بنیاد پرستوں کا جو پہلے طبقے کا ہمیشہ کی طرح آج بھی استحصال کر رہا ہے اور مذہب کے نام پر خود مارنے اور جاہل طبقے کو مرنے کے لیے مسلسل تیار کرتا رہتا ہے۔
ہمارے ہاں جاگیرداری، سرمایہ داری، جہالت تینوں لعنتیں موجود ہیں، ایک مجموعی گھٹن، تنگ نظری اور جمود ہمارا مقدر بن گیا ہے، کچھ لوگوں نے جائیدادوں کی طرح اسلام کے جملہ حقوق اپنے نا م الاٹ کروا رکھے ہیں۔ ریاکاری، بے ایمانی، ذہنی غلاظت، بدعنوانی، لالچ، فریب سے پر ہمارے معاشرے میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اپنی بدکرداری و بدعنوانی کو Institutionalize کرنے کے لیے باقاعدہ فلسفیانہ توجہیات پیش کر کے خود کو اور گرد و پیش کی سوسائٹی کو فریب میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔ ایلیٹ کہتا ہے جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہیں تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔ ریاکاری، تعصب، نفرت، بنیاد پرستی انتہائی خطرناک امراض ہیں اور ہمیں ان امراض کے خلاف جنگ کرنا ہو گی۔ ہمیں ایک نئے راستے کی ضرورت ہے جو ہمیں خود تلا ش کرنا ہو گا۔