صدارتی الیکشن اور عدلیہ کے بارے میں تحریک انصاف کی حکمت عملی

پاکستان مسلم لیگ(ن) سندھ کے رہنماممنون حسین بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے صدر منتخب...

فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ(ن) سندھ کے رہنماممنون حسین بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے صدر منتخب ہوگئے جبکہ یہ صدارتی انتخابی عمل پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی سیاسی صلاحیتوں کا امتحان بھی ثابت ہوا۔

مقابلہ یکطرفہ تو کجا تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ان رہنماؤں کی سیاسی اہلیت کا کس کس انداز میں بھانڈا پھوٹتا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات کی تاریخ کو بہانہ بنا تے ہوئے بھاگ جانے میں عافیت جانی تو پاکستان تحریک انصاف کو صدارتی انتخاب میں کھڑے رہتے ہوئے صدارتی عمل کومستند قرار دلوانا اور صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ نہ کرنے کے لئے بلوائی گئی پریس کانفرنس ہی ان کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ اس دوران ان کی پارٹی کے اندر پائی جانے والی دو مختلف آراء بھی کھل کر سامنے آگئیں۔

صدارتی انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے حوالے سے ان کی پارٹی کے اندر بحث نے انتہائی طول پکڑا تو عمران خان نے ذاتی اختیار استعمال کرتے ہوئے اپنے صدارتی امیدواروجیہہ الدین کی بزرگی اور شدید خواہش کا احترام کرتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کی پیشی کے احوال سے یہ بات واضح ہو چکی کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی تمام عوامی مقبولیت کے باوجودتنظیمی،انتخابی، پارلیمانی، عوامی اور آئینی بد انتطامی کے ساتھ قانونی حوالوں سے بھی ''کمزور انتظام''( پور منیجمنٹ)کا شکار ہے۔

جمعہ کے روز پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے عمران خان اور ان کی ٹیم کو کمرہ عدالت میں چاروں شانے چت کردیا۔ عمران خان کے وکیل حامد خان کا نام قانون کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے ۔ مگر عمران خان کے معاملے میں محسوس ہو رہا تھا کہ حامد خان اس تیاری کے ساتھ نہیں آئے جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔ عمران خان کے متنازعہ بیان کو عدالت کس کس پہلو سے پرکھنے کی کوشش کرسکتی ہے اس حوالے سے عمران خان کے وکلاء کی کوئی پیش بندی نظر نہ آئی۔

عدالت نے عمران خان کو بتایا کہ آپ کی اکتیس پٹیشنز الیکشن ٹریبونلز کے پاس پڑی ہیں ہمارے پاس بیس ہزارمقدمات ہیں اگر کسی کو اپنی باری سے پہلے سماعت درکار ہو تو اس کیلئے علٰحیدہ درخواست دی جاتی ہے۔ اگر آپ ایسی درخواست ہم سے کرتے اور آپ کی شنوائی نہ ہوتی تو پھر تو آپ گلہ کرتے۔ بغیر سوچے سمجھے اور دستیاب راستہ اختیار کئے بغیر عدلیہ کے بارے میں کچھ کہہ دینے سے آپ کیا مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔

صحافی اور ان کے مہمان ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں آئے روز عدلیہ کے بارے میں نجانے کیا کچھ کہتے ہیں لیکن وہ عمران خان جس نے عدلیہ کیلئے اور ملک میں انصاف کے حصول کیلئے آواز اٹھائی ہو وہ جب عدلیہ کے بارے میں کچھ کہے تو اس پر خاموش رہنا ممکن نہیں۔ یہ عدلیہ کی جانب سے عمران خان کی بین السطور تعریف بھی کی جارہی تھی۔ عمران خان کی معصومیت اور روایتی مس مینجمنٹ کو دیکھتے ہوئے عدالت نے ان کے ساتھ قدرے رعایت برتی اور چھبیس دن کا وقت دیدیا۔


اب امید ہے کہ عمران خان اپنے پارٹی رہنماؤں سے مشورہ تو ضرور کریں گے مگر حتمی طور پر اپنے دل و دماغ سے فیصلہ کن مشورہ کرتے ہوئے اپنا زیر بحث بیان واپس لینے، معافی مانگنے یا ایسا نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ عدالتی کاروائی کیلئے سنجیدہ تیاری کی خاطر ٹھوس اقدامات کریں گے۔ اور اگر انھوں نے اپنی سیاست کے دیگر تمام پہلوں کی طرز پر عدالتی معاملے میں بھی کمزور انتظام کا مظاہرہ جاری رکھا تو یہ ان کے سیاسی مستقبل کیلئے ہرگز اچھا نہ ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان کا دورہ کرکے چلے گئے ہیں اور ہمیں''ڈو مور''کی روایتی ہدایت اورافغانستان میں امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی سونپ دی مگر ڈرون حملے روکنے کے حوالے سے کوئی مناسب تسلی دینا گوارہ نہ کیا۔ البتہ واقفان حال بتاتے ہیں کہ ستمبر میں جب وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ و امریکہ کا دورہ کرنے جائیں گے تو ان کی امریکی صدر بارک اوبامہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں مثبت پیشرفت کا امکان ہے۔ امریکی صدر خود پاکستانی عوام اور حکومت کی خواہش کے مطابق مثبت اعلان کرتے ہوئے ڈرون حملے روکنے کے ٹائم فریم کا اعلان کریں گے۔

ڈرون حملے روکے جانے سے دہشتگرد کاروائیاں کم ہوں یا نہ ہو ں مگر عمران خان اور منور حسن جیسی قد آور شخصیات ڈرون حملوں کو چونکہ دہشتگرد کاروائیوں کا باعث قرار دیتی ہیں اس لئے اب یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لینا ضروری ہے حالانکہ ڈرون حملوں سے بڑی نہیں تو اتنی ہی اہمیت کی حامل وجہ بیروزگاری ہے۔کاش ہمارے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو روزگار کے مواقع کی وافر فراوانی یقینی بنانے کیلئے ضروری عملی اقدامات کرنے کا خیال آتا۔

وزیر اعظم نوازشریف نے کرپٹ اور نااہل افسران کے خلاف سخت ترین کاروائی کا آغاز کردیا ہے، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایکزیگٹیو عابد جاوید اکبر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کے احکامات دیگر تمام حکومتی اداروں میں موجود نااہل اورکرپٹ افسروں کیلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔

توقع ہے کہ عیدالفطر کے بعد کرپٹ افسروں کے خلاف حکومتی کاروائیاں تیز تر ہو جائیں گی۔ بجلی و گیس چوروں اور نادہندگان بھی ملکی تاریخ کے کڑے ترین احتساب کیلئے تیار ہو جائیں۔کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف نے اس نیک کام کیلئے عابد شیر علی نامی جس وزیر مملکت کا انتخاب کیا ہے وہ بلاشبہ اس اہم قومی فرض کی ادائیگی کے اہل ہیں ۔

بجلی کے نرخوں میں کیا جانے والا تازہ ترین اضافہ جہاں عوام پر ایک بم بن کر گرا ہے وہاں اگر اپوزیشن جماعتوں نے منظم انداز میں اس کے خلاف احتجاجی پروگرام ترتیب دیدیا تو یہ حکومت کیلئے بھی کسی بم سے کم ثابت نہ ہوگا،البتہ حکمران اطمینان رکھے کہ عوام کو بجلی کے بل نئے نرخوں کے اطلاق کے بعد تقریبا ڈیڑھ ماہ بعد موصول ہوں گے اس وقت تک ہماری یہ سادہ عوام لمبی تان کے سوئے رہے گی اور اپوزیشن جماعتوں کو ابھی اتنی مار نہیںپڑی کہ وہ عقل کے ناخن لیں اور سر جوڑ کے بیٹھ جائیں۔
Load Next Story