جمعیت علماء اسلام ف اور تحریک انصاف میں محاذ آرائی
گیارہ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کی تشکیل کے کم وبیش دو ماہ کے ...
گیارہ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کی تشکیل کے کم وبیش دو ماہ کے اندر ہی سیاست کے بازار میں گرمی پیدا ہوگئی ہے ۔
حکومت کی طرف سے توانائی کے بحران پرقابو پانے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے جانے کے باوجود بجلی ، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کے ریٹس بڑھائے جانے کی وجہ سے عام آدمی مہنگائی کی چکی تلے بری طرح پستاچلا جارہا ہے ، دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں میں بھی اعتماد اور باہمی رابطے کے فقدان نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے بعد ملکی سیاسی معاملات سے بظاہر لاتعلق دکھائی دیتی ہے ۔
پارلیمنٹ میں موجود دوسری بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام باہم لڑائی کا شکار ہیں ۔وہ اپنی توانائیاں کسی مثبت کام کے بجائے منفی کاموں میں صرف کررہی ہیں ۔ دونوں جماعتوں کے درمیان الزام تراشی اور مخالفانہ بیان بازی میں شدت پیدا ہوچکی ہے اور بات آپ ،جناب سے بڑھ کر تْو تکار تک جا پہنچی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ قرار دے دیا ہے جو ظاہر ہے ایک ایسا الزام ہے جس کا تعلق براہ راست عمران خان کی شخصیت ، ان کے کردار اور ان کی اِنٹیگریٹی کے ساتھ ہے ۔ جس کے جواب میں عمران خان نے انہیں عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے اورکہا ہے کہ وہ یہ الزامات ثبوت کے ساتھ عدالت میں پیش کریں ۔ ظاہر ہے یہ ایک پیچیدہ (ٹیکنیکل ) مرحلہ ہے جس سے بحسن و خوبی عہدہ براء ہونا ایک مشکل کام ہوگا ۔
سیاسی قائدین میں اختلافات معمول کی بات تصور کی جاتی ہے ۔ اسے بعض حالات میں جمہوریت کا حْسن بھی قراردیا جاتا ہے لیکن جب اختلافات ذاتی لڑائی کی سطح پر آجائیں اور ایک دوسرے سے براہ راست مخاطبت میں الزامات اور تہمتوں کی آلودگی بھی شامل ہوجائے تو پھر وہ جمہوریت کا حْسن نہیں رہتا فکری پراگندگی کا نمونہ بن جاتا ہے ۔ جس میں کسی کا بھلا تو کیا ہوگا البتہ اس گند میں ایک دوسرے کے کپڑے ضرور لتھڑ جاتے ہیں ۔
پھر یہی نہیں اپنی مرکزی قیادتوں کی دیکھا دیکھی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتیں بھی اس لڑائی میں کود پڑتی ہیں اور اپنے قائدین کے ساتھ ''شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار '' بنتے ہوئے اس سے بھی دو قدم آگے بیان بازی کرنے لگتی ہیں جوجلتی پر تیل کا کام دیتا ہے اور یوں معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھائو کا شکار ہوجاتے ہیں اور بات بڑھتے بڑھتے کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے ۔ میثاق جمہوریت کی صورت میں وطن عزیز میں قومی سطح پر پہلی مرتبہ یہ طے پایا تھا کہ جمہوریت کو کسی صورت پٹری سے نہیں اتارا جائے گا ۔
سیاستدانوں میں ماضی ایسی باہم لڑائی جھگڑے کی نوعیت نہیں آ ئے گی اور تمام معاملات افہام وتفہیم کی فضا میں طے پائیں گے ۔ چنانچہ قوم نے اس مثبت سوچ کے ثمرات بھی دیکھے لیکن یہ ہنی مون پیریڈ صرف اس وقت تک رہا جب تک ان معاہدوں اور ایم او یوز پر عمل درآمد ہوتا رہا لیکن جب سیاسی قیادتوں نے اصولوں کی پاسداری کو چھوڑ کر اقدارکو بھی پس ِپشت ڈال دیا اور پھر سے ذاتی اور جماعتی مفادات کو اپنے فکر وعمل کا مرکزو محور بنالیا تو ملکی سیاسی فضا بھی مکدر ہوتی چلی گئی ۔ اس قسم کی صورت حال عموماً الیکشن کے دنوں میں دیکھنے میں آتی ہے مگر اب تو الیکشن بھی ہوچکے ۔ صدارتی انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ۔ حکومتیں تشکیل پاچکیں اور آگے بڑھنے کے لیے روڈ میپ بھی بنالیے گئے لیکن اس کے باوجود وہ جو حضرت اقبال ؒ نے کہا تھا کہ
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستان کہ جہاں پر نہ ہو کوئی صیاد
ہمارے سیاستدانوں کو بھی اس وقت تک مزا نہیں آتا جب تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ ''چونچ '' نہ لڑا لیں کہ ان کی زبانیں ایسے ذائقے سے ہی آشنا ہیں ، افہام وتفہیم کی فضا انہیں راس نہیں آتی کہ زیادہ دیر تک ایسی فضا میں رہنے سے ان کادَم گھْٹنے لگتا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان جاری لفظی لڑائی وہی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جو کسی زمانے میں ایم کیوایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوئی تھی اور جس نے الزام سے بڑھ کر دشنام طرازی کی قبیح شکل اختیار کرلی تھی ۔
ہمارے سیاستدانوں کو اب یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ اب 1990ء کا دور نہیں 2013 ء ہے ۔ جس کے اپنے تقاضے ہیں ۔ ملک ا س وقت اندرونی اور بیرونی طورپر جن خطرات سے دوچار ہے دہشت گردی ، بدامنی ، توانائی کا بحران اور معیشت کی بدحالی اب اس قسم کی ''ذہنی عیاشیوں '' کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اب انہیں اپنی زبانوں کو لگام اور اپنی خواہشات کو تدبر و متانت کی زنجیریں پہنانا ہوں گی ۔ اب نئے دور کے نئے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہوگا ۔
مولانا فضل الرحمان اورعمران خان اور ان دونوں کی جماعتوں میں موجود ''وفاداروں'' کو بھی اب اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے ترقی معکوس کا سفر طے کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کی سبیل کرنا ہوگی ۔ صرف اسی صورت میں ہی ان کی عزت اور وقار قائم رہ سکتا ہے ۔ قوم کو اپنے مسائل کے حل میںدلچسپی ہے ، سیاستدانوں کی باہمی سر پھٹول میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں ہے لہذا اب بھی وقت ہے کہ جے یو آئی اور تحریک انصاف کی قیادتیں سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی اپنی کچھار میں واپس آجائیں ۔ اپنے کارکنوں کے لیے رول ماڈل بنیں اور ملکی حالات میں بہتری لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
حکومت کی طرف سے توانائی کے بحران پرقابو پانے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے جانے کے باوجود بجلی ، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کے ریٹس بڑھائے جانے کی وجہ سے عام آدمی مہنگائی کی چکی تلے بری طرح پستاچلا جارہا ہے ، دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں میں بھی اعتماد اور باہمی رابطے کے فقدان نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے بعد ملکی سیاسی معاملات سے بظاہر لاتعلق دکھائی دیتی ہے ۔
پارلیمنٹ میں موجود دوسری بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام باہم لڑائی کا شکار ہیں ۔وہ اپنی توانائیاں کسی مثبت کام کے بجائے منفی کاموں میں صرف کررہی ہیں ۔ دونوں جماعتوں کے درمیان الزام تراشی اور مخالفانہ بیان بازی میں شدت پیدا ہوچکی ہے اور بات آپ ،جناب سے بڑھ کر تْو تکار تک جا پہنچی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ قرار دے دیا ہے جو ظاہر ہے ایک ایسا الزام ہے جس کا تعلق براہ راست عمران خان کی شخصیت ، ان کے کردار اور ان کی اِنٹیگریٹی کے ساتھ ہے ۔ جس کے جواب میں عمران خان نے انہیں عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے اورکہا ہے کہ وہ یہ الزامات ثبوت کے ساتھ عدالت میں پیش کریں ۔ ظاہر ہے یہ ایک پیچیدہ (ٹیکنیکل ) مرحلہ ہے جس سے بحسن و خوبی عہدہ براء ہونا ایک مشکل کام ہوگا ۔
سیاسی قائدین میں اختلافات معمول کی بات تصور کی جاتی ہے ۔ اسے بعض حالات میں جمہوریت کا حْسن بھی قراردیا جاتا ہے لیکن جب اختلافات ذاتی لڑائی کی سطح پر آجائیں اور ایک دوسرے سے براہ راست مخاطبت میں الزامات اور تہمتوں کی آلودگی بھی شامل ہوجائے تو پھر وہ جمہوریت کا حْسن نہیں رہتا فکری پراگندگی کا نمونہ بن جاتا ہے ۔ جس میں کسی کا بھلا تو کیا ہوگا البتہ اس گند میں ایک دوسرے کے کپڑے ضرور لتھڑ جاتے ہیں ۔
پھر یہی نہیں اپنی مرکزی قیادتوں کی دیکھا دیکھی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتیں بھی اس لڑائی میں کود پڑتی ہیں اور اپنے قائدین کے ساتھ ''شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار '' بنتے ہوئے اس سے بھی دو قدم آگے بیان بازی کرنے لگتی ہیں جوجلتی پر تیل کا کام دیتا ہے اور یوں معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھائو کا شکار ہوجاتے ہیں اور بات بڑھتے بڑھتے کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے ۔ میثاق جمہوریت کی صورت میں وطن عزیز میں قومی سطح پر پہلی مرتبہ یہ طے پایا تھا کہ جمہوریت کو کسی صورت پٹری سے نہیں اتارا جائے گا ۔
سیاستدانوں میں ماضی ایسی باہم لڑائی جھگڑے کی نوعیت نہیں آ ئے گی اور تمام معاملات افہام وتفہیم کی فضا میں طے پائیں گے ۔ چنانچہ قوم نے اس مثبت سوچ کے ثمرات بھی دیکھے لیکن یہ ہنی مون پیریڈ صرف اس وقت تک رہا جب تک ان معاہدوں اور ایم او یوز پر عمل درآمد ہوتا رہا لیکن جب سیاسی قیادتوں نے اصولوں کی پاسداری کو چھوڑ کر اقدارکو بھی پس ِپشت ڈال دیا اور پھر سے ذاتی اور جماعتی مفادات کو اپنے فکر وعمل کا مرکزو محور بنالیا تو ملکی سیاسی فضا بھی مکدر ہوتی چلی گئی ۔ اس قسم کی صورت حال عموماً الیکشن کے دنوں میں دیکھنے میں آتی ہے مگر اب تو الیکشن بھی ہوچکے ۔ صدارتی انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ۔ حکومتیں تشکیل پاچکیں اور آگے بڑھنے کے لیے روڈ میپ بھی بنالیے گئے لیکن اس کے باوجود وہ جو حضرت اقبال ؒ نے کہا تھا کہ
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستان کہ جہاں پر نہ ہو کوئی صیاد
ہمارے سیاستدانوں کو بھی اس وقت تک مزا نہیں آتا جب تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ ''چونچ '' نہ لڑا لیں کہ ان کی زبانیں ایسے ذائقے سے ہی آشنا ہیں ، افہام وتفہیم کی فضا انہیں راس نہیں آتی کہ زیادہ دیر تک ایسی فضا میں رہنے سے ان کادَم گھْٹنے لگتا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان جاری لفظی لڑائی وہی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جو کسی زمانے میں ایم کیوایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوئی تھی اور جس نے الزام سے بڑھ کر دشنام طرازی کی قبیح شکل اختیار کرلی تھی ۔
ہمارے سیاستدانوں کو اب یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ اب 1990ء کا دور نہیں 2013 ء ہے ۔ جس کے اپنے تقاضے ہیں ۔ ملک ا س وقت اندرونی اور بیرونی طورپر جن خطرات سے دوچار ہے دہشت گردی ، بدامنی ، توانائی کا بحران اور معیشت کی بدحالی اب اس قسم کی ''ذہنی عیاشیوں '' کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اب انہیں اپنی زبانوں کو لگام اور اپنی خواہشات کو تدبر و متانت کی زنجیریں پہنانا ہوں گی ۔ اب نئے دور کے نئے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہوگا ۔
مولانا فضل الرحمان اورعمران خان اور ان دونوں کی جماعتوں میں موجود ''وفاداروں'' کو بھی اب اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے ترقی معکوس کا سفر طے کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کی سبیل کرنا ہوگی ۔ صرف اسی صورت میں ہی ان کی عزت اور وقار قائم رہ سکتا ہے ۔ قوم کو اپنے مسائل کے حل میںدلچسپی ہے ، سیاستدانوں کی باہمی سر پھٹول میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں ہے لہذا اب بھی وقت ہے کہ جے یو آئی اور تحریک انصاف کی قیادتیں سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی اپنی کچھار میں واپس آجائیں ۔ اپنے کارکنوں کے لیے رول ماڈل بنیں اور ملکی حالات میں بہتری لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔