ڈی آئی خان جیل کے واقعہ نے سکیورٹی اداروں کی قلعی کھول دی

صدارتی الیکشن میں قومی وطن پارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کے امیدوار کی بجائے مسلم لیگ(ن)...

فوٹو : فائل

صدارتی الیکشن میں قومی وطن پارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کے امیدوار کی بجائے مسلم لیگ(ن) کی امیدوار کی حمایت کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور اس قصہ نے طول پکڑنا تھا۔

کیونکہ قومی وطن پارٹی خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار ہے اس لیے یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ مختلف ایشوز پر پارٹیاں اپنے طور پر فیصلے کرنے میں آزاد ہے کیونکہ آزادی الگ بات ہے اور مخالف امیدوار کو ووٹ ڈالنا الگ بات تاہم ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں عسکریت پسند جس طریقہ سے بارات لے کر آئے ،تہس نہس کیا اور بارات والا پورا گھر ہی ساتھ لے کر چلتے بنے ،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اور اس غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے صدارتی الیکشن کے حوالے سے اتحادیوں کے درمیان الگ ،الگ ہونے سے جو گرد اٹھی تھی وہ اچانک بیٹھ گئی۔

گزشتہ حکومت میں بنوں جیل کا واقعہ بھی اسی نوعیت کا تھا تاہم وہ اس اعتبار سے الگ حیثیت رکھتا ہے کہ وہ واقعہ بالکل غیر متوقع اور اچانک تھا جس کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی دھمکی نہیں ملی تھی اور نہ ہی اس واقعہ کو روکنے کے سلسلے میں کوئی ریہرسل ہوئی تھی جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل کو توڑنے اور قیدیوں کو ساتھ لے کر جانے کے حوالے سے مکمل اطلاعات تھیں اور اس حملہ کو روکنے کے لیے تیاریاں بھی کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندآئے ،من پسند طریقہ سے کاروائی کی اور ساتھیوں کو لے کر چلتے بنے اور سیکورٹی اہلکار کچھ بھی نہ کرسکے اور صرف منہ دیکھتے رہ گئے جو لمحہ فکریہ ہے ۔

بنوں جیل پر حملہ کے بعد اس وقت کی صوبائی حکومت نے کچھ افسروں کو عہدوں سے ہٹایا تھا ،کچھ کی خدمات مرکزی حکومت کے حوالے کی گئی تھیں اور کچھ کے خلاف کاروائی کی گئی تھی تاہم کوئی مثالی کاروائی نہیں کی گئی ،اگر اس وقت ان جیل اہلکاروں، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز اہلکاروں کے خلاف مثالی کاروائی کرلی جاتی تو مستقبل کو محفوط بنایاجاسکتا تھا لیکن اس واقعہ کو شاید اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جتنا کہ اس کا حق بنتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل کا واقعہ ہوگیا اور اس واقعہ نے نہ صرف جیل اہلکاروں بلکہ پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ اگر ان پر ڈیڑھ، دو سو افراد چڑھائی کرتے ہیں تو وہ کسی بھی طور اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ ان کا مقابلہ کرسکیں اور ایسا ہی کچھ ڈی آئی خان جیل میں ہوا جہاں خود حملہ آوروں کے لیے دروازے کھول دیئے گئے اور کچھ سکیورٹی اہلکار''محفوظ''مقامات پر چلے گئے اور کچھ محفوظ مقامات تک ہی محدود رہے جس کے نتیجہ میں حملہ آور سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنی کاروائی مکمل کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔

بنوں جیل کی طرح ڈی آئی خان جیل کا واقعہ بھی انتہائی اہم نوعیت کا ہے جس کے حوالے سے انکوائری کمیٹی صوبائی حکومت نے تشکیل دے دی ہے جسے پندرہ دنوں کا وقت دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرے اور امید کی جاتی ہے کہ اس انکوائری کے نتیجے میں اسی انداز میں واقعہ میں غفلت ،بزدلی اور نااہلی کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں کے خلا ف کاروائی عمل میں لائی جائے گی جس انداز میں خود وزیراعلیٰ نے کاروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔


ڈی آئی خان جیل کے واقعہ کے حوالے سے بات صرف جیل یا پولیس اہلکاروں تک محدود نہیں بلکہ واقعہ کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں خاکی وردی والوں تک بھی پہنچتے ہیں کہ وہ اتنا بڑا واقعہ ہونے اور تین گھنٹوں تک جاری رہنے کے باوجود مدد کے لیے موقع پر کیوں نہیں پہنچے اور یہ سوال ہر اس زبان پر موجود ہے جو ڈی آئی خان جیل واقعہ کے حوالے سے کھلتی ہے اور اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے جو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے اس میں ایک نمائندہ فوج کا بھی شامل کیا ہے ، تاہم اس معاملہ کو صرف فوج کا ایک نمائندہ کمیٹی میں شامل ہونے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے گورنر کی سربراہی میں کام کرنے والی اعلیٰ ترین پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس بلاتے ہوئے اس میں یہ معاملہ تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانا چاہیے ۔

کیونکہ کئی ایسے معاملات ،سوالات اور جوابات ہوں گے جو پبلک کرنے کے لیے تو نہیں ہوں گے تاہم صوبائی حکومت اور صوبہ کے آئینی سربراہ گورنر کے علم میں ضرور آجائیں گے جو ان کے علم میں بہرکیف ہونے ہی چاہئیں ، یہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس ہی میں ہوسکتا ہے تاہم اس وقت تک صوبائی حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ حکومتی ٹیم کے اکثر ارکان ورکنگ گروپوں کے اجلاسوں تک محدود ہیں جن میں پالیسیاں بن اور فائنل کی جارہی ہیں جو اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں تاہم ان سے زیادہ ضرورت اوراہمیت اس بات کی ہے کہ ڈیرہ جیل کے واقعہ کو سنجیدگی سے لیاجائے کیونکہ بنوں اور ڈی آئی خان کے بعد اب ہری پور جیل کا نام لیا جا رہا ہے کہ وہاں بھی اسی نوعیت کی کاروائی کی جائے گی جو انتہائی خطرناک ہے ۔

ڈیرہ جیل کے واقعہ کی طرح نیوز آف دی ٹائون کے طور پر دوسرا بڑا واقعہ جو زیر بحث بھی ہے اور آنے والے دنوںمیں اس پر مزید بھی بحث ہونے کا امکان ہے وہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے خیبرپختونخوا میں بیوروکریسی کے اجلاسوں کی صدارت کرنا ہے، عمران خان بے شک حکمران جماعت کے پارٹی چیف ہیں اور اس پوزیشن کے حوالے سے انھیں پورا حق ہے کہ وہ نہ صرف اپنی پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کریں بلکہ پارٹی کی حکومتی اور غیر حکومتی ٹیم کو گائیڈ لائنز بھی دیں۔

نصحیت بھی کریں اور ان کی گوشمالی بھی کریں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ سرکاری افسروں کے اجلاسوں کی صدارت کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ وہ معاملہ ہے کہ جس پر پوری اپوزیشن تپی ہوئی ہے کیونکہ ماضی میں صوبہ میں حکومت کرنے والی جماعتوں جمعیت علماء اسلام اور اے این پی دونوں کے پارٹی سربراہوں میں سے کسی ایک نے بھی کبھی یوں براہ راست بیوروکریسی کے اجلاسوں کی صدارت نہیں کی اور نہ ہی ان سے یوں ڈائریکٹ بریفنگز لیں اور نہ ہی انھیں براہ راست ہدایات جاری کیں ، ماضی میں بھی پارٹی کے سربراہ سرکاری اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں ، تاہم اس وقت کے وزرائے اعلیٰ نے ہی ان اجلاسوں کی صدارت کی اور وزرائے اعلیٰ کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں ان پارٹیوں کے قائدین قلاقند کے اندر کڑوی گولیاں رکھ کر بیوروکریسی کو نگلنے کے لیے دیتے رہے۔ اب موجودہ سیٹ اپ میں حکمران جماعت کے پارٹی چیف نے یہ کام براہ راست شروع کردیا ہے۔

جس کی وجہ سے وہ تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے اس اقدام کے خلاف سینٹ اورخیبرپختونخوا اسمبلی دونوں جگہوں پر تحاریک التواء جمع کرادی گئی ہیں جو اگر سینٹ اور صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں زیر بحث آتی ہیں تو اس سے لگ یہ رہا ہے کہ شاید مستقبل میں عمران خان بیوروکریسی کے اجلاسوں کی براہ راست صدارت کرنے کی روش ترک کردیں اور صدارت کا فریضہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہی انجام دیں گے اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر عمران خان ہدایات جاری کرتے نظر آئیں گے ۔

اور ضمنی انتخابات کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی ،جے یو آئی کے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کرتے ہوئے مضبوط قلعہ میں مورچہ زن ہوگئی ہے جہاں سے وہ تحریک انصاف کے امیدوار وں کا شکار کرنے کی خواہش مند ہے تاہم زمینی حقائق بتار ہے ہیں کہ جے یو آئی تو اے این پی کے ساتھ کھڑی ہوگی کیونکہ کئی نشستوں پر جے یو آئی کے اپنے امیدوارمیدان میں ہیں اور اسے اے این پی کی سپورٹ اور مدد کی ضرورت ہے اس لیے جے یو آئی کے کارکن اخلاص کا مظاہرہ کریں گے تاکہ انھیں بھی جواب میں اخلاص مل سکے ۔

جہاں تک پیپلزپارٹی کا معاملہ ہے تو پیپلزپارٹی کے کارکن اور ورکر اے این پی کا ساتھ دینے اور اس کے امیدواروں کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور جس انتخابی اتحاد کا اعلان رحیم داد خان نے اے این پی کے قائدین کے ہمراہ بیٹھ کر کیا اسے اسی سطح تک محدود سمجھا جارہا ہے اس لیے اگر اے این پی نے پیپلزپارٹی کی حمایت سے ضمنی الیکشن میں مستفید ہونا ہے تو اس کے لیے اسے یہ معاملہ پی پی پی کے قائدین کے ساتھ اٹھانا ہوگا بصورت دیگر اے این پی کے لیے ضمنی الیکشن مزید مشکل ہوجائے گا جس سے اے این پی کے قائدین بخوبی آگاہ ہیں ، البتہ تحریک انصاف کی صفوں میں نفاق کا فائدہ بھی اے این پی ہی کو پہنچے گا۔
Load Next Story