سائنس کے ان کھلے راز

دراصل ہر انسان کو اپنے وجود اور پھر شعور کے ساتھ ہی طرح طرح کے سوالات سے واسطہ پڑتا ہے۔


[email protected]

بجلی کیوں چمکتی ہے؟ زلزلے کیوں آتے ہیں ؟ آسمان نیلا کیوں ہے؟ ہزاروں برسوں سے یہ اور ایسے ہی ان گنت سوال انسان کو پریشان کرتے آئے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ انسان جبلی طور پر متجسس واقع ہوا ہے، اس کے لیے کسی واقعے کا پیش آنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی وجوہات اور مضمرات جاننا بھی ضروری ہے گویا ''کیا '' کے ساتھ '' کیوں'' کا جواب ملنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

اس نقطہ نظر سے گزشتہ ہزاروں سالوں میں انسانی علم و فنون میں تمام تر ترقی کو حیرت کے سفر سے تعبیرکیا جاسکتا ہے گوکہ اب تک دنیا وکائنات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں انسان نے قابل رشک ترقی کی ہے، تاہم ایسا نہیں کہ تمام سوالات کے جوابات پا لیے گئے ہوں اکثر تو یہ بھی ہوا ہے کہ ایک گتھی سلجھاتے سلجھاتے کئی کئی گتھیاں سامنے آگئی ہیں ۔

دراصل ہر انسان کو اپنے وجود اور پھر شعور کے ساتھ ہی طرح طرح کے سوالات سے واسطہ پڑتا ہے جن میں چھوٹے چھوٹے سوالات بھی ہوتے ہیں اور بہت بڑے بڑے بھی۔ بیسویں صدی کے دوران انسانی شعور یعنی سائنس کوکئی اہم شعبوں کے عظیم ترین سوالات سے نبرد آزما ہونا پڑا ہے لیکن تاحال اسے ان کے تشفی بخش جوابات نہیں مل سکے ہیں، چنانچہ یہی سوالات اکیسویں صدی میں سائنس اور سائنس دانوں کے لیے عظیم ترین چیلنج ثابت ہو رہے ہیں۔

یہ کائنات کیوں ہے اورکیا ہے، مادہ کیا ہے اورکہاں سے آیا ، حیات کیسے اورکہاں وجود میں آئی وقت کیا ہے اورکیا اسے قابو کیا جاسکتا ہے، انسان بوڑھا کیوں ہوتا ہے اور مرکیوں جاتا ہے۔ کیا دوسرے سیاروں میں ہم جیسے انسان ہیں ،کائنات میں کون سی قوتیں کارفرما ہیں'' وغیرہ اور اس جیسے متعدد سوالات سائنس کے لیے عجیب و غریب معمہ بنے ہوئے ہیں، جنھیں حل کرنا بیسویں صدی میں ممکن نہیں ہوسکا ہوسکتا ہے کہ اب اکیسویں صدی کوئی نوید لے کر آئے۔

سائنس اپنے اطراف سے آگاہی کی ایک کوشش ہے یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہے؟ میں کیا ہوں یہاں کیا کر رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں؟ ایسے بہت سارے سوال سائنس کی روح ہیں اور جب سے ہوش و حیات وجود میں آئے ہیں برابر پوچھے جا رہے ہیں ۔ ان کا جواب پانے کی بھی کوشش ہوئی ہے اور ہو رہی ہے انسان کا علم اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور اسے بہت کچھ جاننا باقی ہے۔

بیسویں صدی کے دن انسانی تاریخ کے عہد آفریں دن تھے۔ علم نے حیرت انگیز ترقی کی اور بنی نوع انسان نے بہت میدان مارے لیکن کائنات کے بارے میں اس کے بنیادی سوال ابھی تک یوں ہی برقرار ہیں۔ اب اکیسویں صدی کی باتیں ہیں ترقی کے خواب اور امیدیں اس سے وابستہ ہیں، بیسویں صدی میں انسانی علم کے سامنے کئی بڑے سوال تھے اور اکیسویں صدی میں یہ جستجو کی حد اور علم کا افق بن چکے ہیں ۔

آئیے! آپ کو انسانی تخیل، جستجو اور کوشش کی سرحدوں کی سیر کرائی جائے۔ علم کے ان علاقوں میں لے جایا جائے جہاں عقل، تماشا بھی ہے اور تماشائی بھی۔ اس مقصد کے لیے انسانی کاوش کے کئی شعبوں میں سے چند اہم سوالات کا انتخاب کیا گیا ہے یہ سوال بیسویں صدی کے عظیم ترین مسائل تھے جو شاید اکیسویں صدی میں حل ہوسکیں۔

زندگی کا آغاز کیونکر ہوا تھا؟

زندگی کی اولین بنیاد غالباً خلیے تھے جن کی تشکیل کسی نہ کسی طور پر چھ بنیادی عناصر سے ہوئی۔ یہ چھ بنیادی ایسے عناصر ہیں کہ ساری کائنات کا 98 فیصد حصہ انھی سے بنا ہے، ہر زندہ جسم میں یہ عناصر لازماً ملے ہیں۔ ان کے نام ہائیڈروجن، ہیلیئم، کاربن، نائٹروجن،آکسیجن، نیورون ہیں۔ نیورون اعصابی خلیوں کے سگنل پیدا کرتے ہیں۔

فوکس نے جو تجربات کیے ہیں ان میں زیادہ تر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کے انتہائی چھوٹے پروٹینی گولے میں امائنو ایسڈ کی عمل انگیزی سے امائنو ایسڈ اور نیوکلی ایسڈ کی تعمیری زنجیروں کی تشکیل ہوتی ہے، اسی سے واضح ہوتا ہے کہ ارتقا پذیر خلیے میں جینیاتی کوڈ کا میکانی ارتقا کیونکر ہوا ہوگا۔ فوکس کے اپنے الفاظ میں ''چونکہ ایک ہی ایجنٹ دونوں کے لیے عمل انگیز ہے، اس لیے اس مرحلے پر دو عملیات کا باہم مل جانا ممکن ہے، اسی لیے اب ہم ایسے پروٹینی کرے پرکام کر رہے ہیں جو باہم مل کر خلیہ بناسکیں۔''

اسی قبیلے کے ایک اور نمایاں سائنس دان۔ لیزلی اور جل ہیں اور جل بنیادی طور پر کیمیا دان ہیں اور لاجولا (کیلی فورنیا) کے ساک انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہیں اور جل نے ایک حیرت انگیزکامیابی حاصل کی ہے موصوف نے چار الگ الگ پروٹینی کرے رکھنے والے ایک محلول میں جب نیوکلی اک ایسڈ RNA کا ایک ریشہ ڈبویا تو وہ چاروں کرے اس ریشے پر آکر جمع ہوگئے اور آپس میں جڑ گئے اس طرح جو شکل حاصل ہوئی وہ RNA کا ایک چھوٹا اور دہرا مرغولہ تھی اس سے ظاہر ہے کہ پروٹینی خامروں کے بغیر ہی نیوکلی اک ایسڈ میں حیاتیاتی ذرات کی تعداد بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔

کیمیائی ارتقا کی میری لینڈ لیبارٹری کے ڈپٹی ڈائریکٹر مچل ہوبش بھی جب امائنو ایسڈ اور پروٹینی ذرات کو پانی میں ڈالتے ہیں تو ان کے درمیان ایک بہت ابتدائی سا تعلق مشاہدے میں آتا ہے۔ مچل کا کہنا ہے کہ اسی طرح جینیاتی کوڈ نے اپنا کام شروع کیا ہوگا۔

گلاسگو یونیورسٹی کے کیمیا دان اے جی اسمتھ ان سب سے اس بات پر اختلاف کرتے ہیں کہ RNA ہی بنیادی اکائی ہے ان کا خیال ہے کہ آر این اے بذات خود ایک بے حد سادہ اور مسلسل کیمیائی تغیر سے دوچار ساخت کی ارتقائی شکل ہے اور وہ ساخت ہے مٹی۔

اسمتھ کی تحقیق کہتی ہے کہ مٹی ایسی بالترتیب قلموں سے بنتی ہے جو سلی کون، آئسی جن، المونیم اور ہائیڈروجن ایٹم تشکیل دیتے ہیں ان قلموں کی جسامت بڑھنے کے دوران کبھی یہ غلطی سرزد ہوجاتی ہے کہ سلی کون کی جگہ المونیم کا ایٹم آجاتا ہے اس غلطی ہی میں جینیاتی کوڈ کی تشکیل برقی چارج کی مدد سے ہوتی ہے۔ ان ہی خطوط پر کام کرنے والے ناسا کے ایمس ریسرچ سینٹر سے منسلک جیمز لالس کا کہنا ہے کہ ایسے ہی برقی چارج کی وجہ سے ذرات میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ذرات کے مل جانے سے مٹی کی خشک سطح پر نمی پیدا ہوجاتی ہے یہ نمی اس جگہ پیدا ہوتی ہے جہاں ایسے ذرات ملتے ہیں۔

سائنس دانوں کے ایک طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی قسم کی ساختی خامیوں کی وجہ سے جیسی کہ اوپر ذکر کی گئی ہیں موسم بہار میں ماحول کی توانائی مٹی میں جذب ہوتی ہے اور بعد میں اس کا اخراج ہوجاتا ہے مٹی کی ایسی ہی قدرتی خاصیتوں کی بنا پر وہ کیمیائی تعاملات ہوئے جن سے پہلا نامیاتی مالیکیول بنا۔

خیال ہے کہ اگر نامیاتی مالیکیول اسی طرح بنے ہوں تو خاکی ساخت نے انھیں وہ گھر مہیا کیا ہوگا جس میں نامیاتی مالیکیولوں نے نشوونما پائی انھی مالیکیولوں میں سے کوئی ایک اس ساخت سے باہر آیا اور اس طرح نشوونما پانے لگا کہ مالیکیولوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔ اس سے اگلے مرحلے میں ایسے ہی نامیاتی مالیکیولوں سے ڈی این اے کی تشکیل ہوئی اور جینیاتی عملیات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

نہیں معلوم مٹی سے زندگی کے ابھرنے کا مفروضہ سائنسی طور پر ثابت ہوسکے گا یا نہیں لیکن اس کی وجہ سے سائنس دانوں نے زندگی کے متعلق اپنی تعریف پر ازسر نو غور ضرور شروع کردیا ہے ۔ درسی کتابوں میں زندگی کی جو صفات بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب مٹی میں موجود ہیں ترتیب ساختی قیام پذیری اور کیمیائی تعاملات کی صلاحیت جیسی ان تمام زندہ خصوصیات کی موجودگی یہ سوال مہیا کرتی ہے کہ کیا مٹی بھی زندہ ہے؟ شاید اس کا جواب یہ ہوگا کہ مٹی وہ مقام ہے جہاں زندگی موت سے جنم لیتی ہے اور موت زندگی سے جنم لیتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں