بولو بولو کہ ہو جنگ نا

بھارتی میڈیا نے طوفان کھڑا کردیا ’’جیش محمد کا ٹھکانہ تباہ‘ 350 افراد مارے گئے‘‘ مگر اس تباہی کے ثبوت کہیں نہیں تھے۔

پاکستان ہندوستان کی جنگ ٹل گئی 26 فروری سے 28 فروری 2019 ، ان تین دنوں میں کیا کچھ ہوا ، یقینا کوئی طاقت ہے جس کے اختیار میں حتمی فیصلے ہیں، اسی طاقت نے جنگ کو ٹال دیا ۔ ورنہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستانی جنگی ہوائی جہاز آئے اور ایک ویرانے میں چار ہم پھینک کر چلے گئے چند درخت گرے اور ایک کوا مارا گیا، اور ہندوستان کے میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کردیا ''جیش محمد کا ٹھکانہ تباہ' 350 افراد مارے گئے'' مگر اس تباہی کے ثبوت کہیں نہیں تھے ۔

پوری دنیا ہل کر رہ گئی تھی، مگر بھارتی میڈیا اپنے عوام کو جھوٹ سنائے جا رہا تھا ۔ اپنے اسی جھوٹے نشے میں چور اگلے ہی روز یعنی 27 فروری دن دیہاڑے دو جنگی ہوائی جہاز پھر پاکستانی حدود میں آگھسے ، ایک بھارتی جہاز کو ہمارے ایئر فورس کے جوان حسن صدیقی نے مار گرایا اور اس کا بزدل بھارتی پائلٹ زندہ سلامت پکڑا گیا۔ دوسرا بھارتی جہاز ہمارے پائلٹ نعمان کے ہاتھوں نشانہ بنا اور بھارتی ہوا باز اپنے جہاز سمیت ہندوستانی حدود میں (مقبوضہ کشمیر) گرکر تباہ ہوگیا ۔ ان دو فوجی کارروائیوں کے بعد پورے ہندوستان میں '' مودی سرکار '' کے خلاف بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب بول رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ '' یہ کیا ہوا ''۔ ابھی یہ کیا ہوا کا واویلا ہندوستان میں جاری تھا کہ پاکستان نے ہندوستانی جنگی ہوا بازکو عزت و احترام کے ساتھ واہگہ بارڈر پر ہندوستانی فوج کے حوالے کر دیا ۔

پاکستان کے اس جذبہ خیر سگالی پر پوری دنیا میں پاکستان کی واہ واہ ہوگئی۔ کہتے ہیں عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔

عمران خان کے بیان کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ''جنگ شروع ہوگئی تو اسے روکنا عمران یا مودی کے اختیار میں نہیں ہوگا '' آج ان تین ہولناک دنوں کو بارہ روز ہوچکے ہیں، اور آہستہ آہستہ ''جنگی جنون'' ختم ہوگیا ہے۔ اسی دوران ہندوستانی آبدوز نے پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی ، پاکستان نیوی جاگ رہی تھی ، اس نے ہندوستانی آبدوز کو واپس چلے جانے کا کہا اور وہ چلی گئی۔

اب جنگ وہ پہلے جیسی جنگ نہیں رہی کہ تلوار اٹھائی اور یلغار کا نعرہ لگا کر شروع ہوگئے۔ آج جنگ کا مطلب ہے ''قیامت برپا ہونا۔'' جنگ ہوئی تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔ پاکستان اور ہندوستان کے پاس ایٹم بم ہیں ۔ یہ آج کے ایٹم بم ہیں جو ہیروشیما اور ناگاساکی سے کئی گنا ہولناک ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے جنگ مخالف بیانات اور عمل کو سراہا جا رہا ہے اور ہندوستانی وزیر اعظم کو اس کے اپنے ملک سمیت پوری دنیا میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔

بھوک و ننگ ہندوستان میں بھی ہے اور ادھر پاکستان میں بھی ہے۔ عوام '' ادھر بھی ادھر بھی'' برے حالوں زندگی گزار رہے ہیں ۔ چند گھرانوں نے ادھر اور ادھر بھی لوٹ مار کی ہے۔ ادھر پاکستان میں عمران خان نے لٹیروں، ڈاکوؤں کے خلاف شکنجہ کس لیا ہے ۔ ادھر ہندوستان میں بھی اسی شکنجے کی ضرورت ہے۔ ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟اس صدیوں کے گھیراؤ کو آخر ختم ہونا ہے، لگتا ہے فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ دولت پر چند گھرانے قابض ہیں اور دوسری طرف کروڑوں غریب ہیں جنھیں دوا دارو نہیں ملتا ، اسپتالوں کا اتنا برا حال ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پاکستان کے اسپتالوں میں اپنا علاج نہیں کروانا چاہتے، کیونکہ یہ پاکستانی اسپتال پاکستانیوں کے لیے ہیں۔ '' چند گھرانوں '' کے اسپتال لندن، امریکا میں ہیں اور کروڑوں غریبوں کو تو ان پاکستانی اسپتالوں میں بھی رسائی نہیں ملتی۔ کروڑوں بچے اسکولوں سے محروم ہیں، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے دیہاتوں میں غریب مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

ایک طرف جنگی جنون ہے اور دوسری طرف کروڑوں غریب عوام اور ایسے میں عوام کے شاعر حبیب جالب کی 26 ویں برسی 13 مارچ کو منائی گئی ۔ آئیے ! جنگی جنون کے بارے میں حبیب جالب کی باتیں سنتے ہیں:

امن کا گیت

چاہے کوئی رہے سنگ نا

ہم ہیں گے کہ ہو جنگ نا

بولو' بولو کہ ہو جنگ نا


امن بچوں کی مسکان ہے

جنگ شعلوں کا طوفان ہے

ہو یہ دھرتی لہو رنگ نا

بولو' بولو کہ ہو جنگ نا

جنگ آہوں بھری رات ہے

جنگ اشکوں کی برسات ہے

ہو نہ سونا کوئی انگنا

بولو' بولو کہ ہو جنگ نا

سر پہ گوری کے آنچل رہے

ہنستا نینوں میں کاجل رہے

یوں ہی چھنکے سدا کنگنا

بولو' بولو کہ ہو جنگ نا
Load Next Story