کیا انتخابی سیاست سے قومی سیاست تک کا سفر ممکن ہے

مخلص رہنمائوں کی جگہ مفاد پرست اور لالچی سیاستدانوں نے لے لی ہے۔

نئے ہتھیار اور عسکری ٹیکنالوجیز جنگوں کو مزید خوف ناک بنادیں گی۔ فوٹو: فائل

وقت گزرنے کے ساتھ ملکی مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ دیرپا پالیسیاں بنانے کی بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسیوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔

قوم کی رہنمائی اور تربیت کا تصور مفقود ہو چکا ہے۔ مخلص رہنمائوں کی جگہ مفاد پرست اور لالچی سیاستدانوں نے لے لی ہے۔ اس کی اصل وجہ قومی نظریاتی سیاست کا ختم ہونا اور انتخابی سیاست کا فروغ ہے۔ بظاہر تو اسمبلیوں میں پہنچنے والے افراد کو قوم کے منتخب نمائندے کہا جاتا ہے مگر موجودہ نظام میں کسی کو منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں منتخب ہونے کا گر اور طریقہ آتا ہے۔

رہنمائی سے محروم قوم کی اب کوئی سمت اور منزل نہیں رہی۔ پہلے قوم ہجوم بنی پھر ہجوم بھی منتشر ہو کر چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہوا ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انتخابی سیاست کی بجائے قومی نظریاتی سیاست کا ٰ آغاز کیا جائے۔ شخصیات کی بجائے نظریات کواہمیت دی جائے۔

پاکستان کے موجودہ تمام تر مسائل کی اصل اور حقیقی وجہ ماضی کی فوجی حکومتیں اور انتخابی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں ہیں ۔ انتخابی سیاست کے نتیجے میں منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر صرف عوام کو دلفریب نعروں میں مگن رکھنا ہے۔ بدقسمتی سے ابھی تک کسی جماعت نے قومی و ملی سیاست کی اہمیت کو نہیں سمجھا ۔ انتخابی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کی منزل صرف اقتدار رہی ہے۔ اپنا ووٹ بنک بنانے کیلئے یہ جماعتیں چالاک، ہوشیار، شاطر اور مفاد پرست افراد کو اپنے ساتھ ملاتی ہیں ۔ یہ سیاسی جماعتیں مختلف گروہوںکو ساتھ ملا کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں ان کی ساری توجہ صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ ہر علاقے کے بااثر افراد کو ساتھ ملایا جائے ۔ ایسے افراد کہ جو مکروفریب اور دھونس سے اپنے علاقے سے ووٹ حاصل کر سکیں ۔ ان افراد کی اکثریت قبضہ مافیا، ناجائز فروشی یا دوسرے کو دھونس دھاندلی سے دبا کر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔

انتخابی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو قومی سیاست کا شعور ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ انتخابی سیاست کے مضمرات سے واقف ہوتے ہیں ۔ انتخابی سیاست میں نظریات کی بجائے لالچ، مفادات اور ترغیبات کے سبز باغ دکھا کر ساتھ ملایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی کی فوجی آمروں کی حکومت نے انتخابی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کی جو کھیپ تیار کی ہے انہوں نے ملکی مفاد کی دور رس پالیسیاں بنانے، عوام کو تعلیم، صحت، انصاف، روزگار اور تحفظ دینے کی بجائے سڑکوں، پلوں اور خوشنما عمارات ہی کو مکمل ترقی قرار دیا ۔ نہ تو ملک میں اسکولوں کے جال بچھائے گئے نہ جگہ جگہ طبی سہولیات کے مراکز قائم کئے گئے۔ تھانہ کلچر اور عدالتی نظام بھی تبدیل نہ کیا جا سکا ۔

عوام کو سستی خوراک اور رہائش بھی مہیانہ کی جا سکی ۔ الٹا عوام کے پیسے سے تعمیر شدہ سڑکوں اور پلوں کو ذاتی کارنامہ ظاہر کرکے حکومتی اخراجات پر بے پناہ تشہیر کی گئی ۔ سیدھے سادے اور بھولے بھالے عوام ریاستی سرمائے سے تعمیر ہونے والی سڑکوں، عمارتوں اور موٹرویز کو حکومتوں کا عوام پر احسان عظیم سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنے حقیقی مسائل کا ادراک ہی نہیںکر پاتے ۔ ماضی کی تمام سیاسی جماعتیں مختلف گروہوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں ۔

کہا جا رہا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک میں بھی قومی اور ملی سیاست کی ترویج کی خواہشمند ہے مگر مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس قوم نے ہوش سنبھالتے ہی انتخابی سیاست دیکھی وہ نظریاتی اور انتخابی سیاست میں کیا فرق کر پائے گی ۔ ترغیبات، مفادات اور نظریات کے فرق کو کس طرح سمجھ پائے گی ۔ قومی، ملی اور نظریاتی سیاست اور طرز حکومت میں وہ دیرپا پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں کہ جن کا نتیجہ برسوں کے بعد ہی نکلتا ہے۔ آج بیج بویا جائے تو اس کا پھل کئی برسوں کے بعد نکلے گا ایسی صورت میں عوام تو یہی سمجھیں گے کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ چنانچہ انتخابی سیاست کرنے والے باآسانی قوم کوگمراہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان ایک کمزور معیشت کا حامل ملک ہے اگر حکومت کی ترجیحات میں دیرپا پالیسیاں ہوئیں تو انہیں میگا پراجیکٹ دکھانے کا موقع نہیں مل سکتا، انتخابی سیاست کرنے والوں کو تشہیر کا فن بھی بخوبی آتا ہے۔ اس فن کے ماہر افراد کی ایک جماعت ان کے ساتھ شامل ہوتی ہے مگر اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ قوم کو انتخابی و نظریاتی سیاست کا فرق بھی سمجھایا جائے۔ انتخابی سیاست کے مضمرات سے بھی آگاہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ انتخابی سیاست میں کس طرح مفاد پرست اور شاطر افراد کو اوپر آنے اور عوام کا استحصال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کس طرح ایک گروہ ملکی وسا ئل لوٹ کر اپنے خزانے بھرتا ہے بیرونی قرضوں کو کس طرح ذاتی استعمال میں لایا جاتا ہے اور بیرون ممالک میں جائیداد اور بزنس بنایا جاتا ہے، عوام کو بتایا جائے کہ لیڈر کا یہ مطلب نہیں کہ اسے عوام کو ورغلانے، لبھانے اور بیوقوف بنانے کا طریقہ آتا ہے بلکہ راہنما کا مطلب عوام کی ہر قسم کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہے، ہر فرد کوفعال بنانا اور اس کی صلاحیت بروئے کار لانا ہے۔

پاکستان کے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ عوام کی ذہنی سہل پسندی ہے۔ ایک سروے کے مطابق تقریباً 83 فیصد لوگ ذہنی کی بجائے جسمانی مشقت کے عادی ہو چکے ہیں، 17 فیصد میں بھی تقریباً 15 فیصد افراد بہت زیادہ ذہنی محنت، تحقیق، جستجو اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے کی استعداد نہیں رکھتے، صرف 2 فیصد افراد چل چلائو کر رہے ہیں ۔ سابقہ حکومتوں نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ اعلیٰ عہدوں پر ان افراد کو براجمان کیا جاتا ہے کہ جو حکومتوں کے وفادار ہوں۔ زیادہ تر سازش، خوشامدی اور بے صلاحیت افراد اونچے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔

انتخابی سیاست کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت بنانے کیلئے ان جاگیرداروں، سرداروں، زمینداروں اور گدی نشینوں کا تعاون حاصل کیا جاتا ہے جو اپنے علاقوں سے الیکشن باآسانی جیت جاتے ہیں۔

عوام کے پاس انہی افراد کو ووٹ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ انہی کی جاگیرو ں میں رہنے والے عوام ظلم و استحصال کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار اورانصاف جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ پاکستان کا جاگیردارانہ نظام ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ریاست کے اندر سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اس نظام کی خرابیوں اور اس کے حل کے متعلق بہت کچھ لکھاجا چکا ہے مگر ہر سیاسی پارٹی ان وڈیروں، جاگیرداروں، گدی نشینوں اور زمینداروں کی بلیک میلنگ کے ہاتھوں مجبور ہے کہ یہ ''پنچھی'' خطرہ بھانپتے ہی دوسری شاخ یا پیڑ پر جا بیٹھتے ہیں نتیجۃً سیاسی پارٹیوں کی اسمبلیوں میں عددی قوت کم ہو جاتی ہے اور حکومت گرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال اصل جمہوریت کی روح کے بالکل منافی ہے۔ ہمارا قومی نظام ان سرداروں اور وڈیروں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان سرداروں اور وڈیروں کے مفادات کے خلاف اسمبلی میں کوئی بھی بل منظور نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتخابی سیاست کی داغ بیل بھی ماضی کے فوجی حکمرانوں نے رکھی، خفیہ ایجنسیوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ پرانے چہروں کو اکٹھا کرکے نئی جماعت بنا دیتے ہیں ۔ یہی پرانے چہرے اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر جماعت میں نظر آتے ہیں۔ نئے انتخابات کے بعد بھی چہرے بھی وہی، نظام بھی وہی، کام بھی وہی اور نام بھی وہی رہتے ہیں ۔ عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، اگرچہ ہر حکومت یہ رونا روتی نظر آتی ہے کہ ملک میں ٹیکس گزاروں کی تعداد خاصی کم ہے، کل بیس لاکھ افراد ٹیکس نیٹ ورک میں شامل ہیں جن میں 8 لاکھ افراد بزنس اور 12 لاکھ افراد ملازمت کر رہے ہیں جبکہ حقائق یہ ہیں کہ ہر فرد سے یوٹیلٹی بلوں کے ساتھ ٹیکس اور سرچارج وصول کئے جا رہے ہیں۔ پورا ملک ٹیکس نیٹ ورک میں شامل ہے۔ ٹیکسوں کے ذریعے جتنی رقم وصول ہوتی ہے اس کا عشر عشیر بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی بنیادی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ سیاستدان اسمبلیوں میں متعلقہ معاملات اٹھائے رکھتے ہیں اور عوام کی توجہ ان کے مسائل اور معاملات کی جانب مبذول نہیں ہونے دیتے۔

عمران خان نے ہمیشہ اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہ انتخابی سیاست کی بجائے قومی سیاست کریں گے، وہ عوام کے ٹیکس کی رقم غیرپیداواری یونٹس پر خرچ کرنے کی بجائے ملکی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے، ان کا اعلان تھا کہ وہ روایتی سیاست اور فرسودہ سیاسی نظام کو پاش پاش کر دیں گے، انہوں نے تحریک انصاف کا مقصد اور پروگرام بھی یہی بتایا تھا کہ وہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے آئے ہیں ان کے اس پیغام نے نوجوانوں کو خاصا متاثر کیا۔ تحریک انصاف کی کامیابی میں نوجوانوںکا بڑا ہاتھ ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ عوام کی تحریک انصاف اور عمران خان سے جڑی امیدیں اور آس ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انتخابات سے قبل کئے گئے وعدے انتخابی نعرے اور وعدے ثابت ہو رہے ہیں۔

50 لاکھ نئے مکانات کی تعمیر اور ایک کروڑ نئی نوکریوں کی بجائے بلڈنگ میٹریل بے انتہا مہنگا ہو چکا ہے اور دن بدن بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کا پراپیگنڈہ اور شور حکومتی کارکردگی پر حاوی آتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی عوام نئی حکومت سے امیدیں اور آس کسی حد تک قائم کئے رکھے ہیں اور کسی معجزے کی تلاش میں ہیں۔ غریب عوام کو آج بھی امید ہے کہ کسی بھی لمحے پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر شروع ہو جائے گی اور بے گھر افراد کو اپنا ذاتی ٹھکانہ میسر ہو گا۔ مکانوں کے کرایوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اچھے بھلے افراد بھی افورڈ نہیں کر پا رہے۔ مستزاد یہ کہ مہینہ پلک جھپکتے گزر جاتا ہے، ایک سال بعد کرائے میں دس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ سارا فائدہ اور قانونی تحفظ مالک مکان اور مالک جائیداد کو حاصل ہوتا ہے۔ کرائے دار ''خیمے'' کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جنہیں کسی بھی وقت ایک ماہ کے نوٹس پر بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ بلڈنگ میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کاموں کی رفتار سست ہو چکی ہے اور نئی تعمیرات تعطل کا شکار ہیں۔

حکومت کی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں خاصی غیرمبہم ہیں۔ ایسے امکانات نظر نہیں آ رہے کہ حکومت معاشی اور اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ حکومت کی انتخابات سے قبل تیاری مکمل نہیں تھی اور نہ ہی تحریک انصاف کوحقیقی مسائل کا ادراک تھا۔ اس وقت ترقیاتی

کام رکے ہوئے ہیں یا فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے سست روی کا شکار ہیں۔ ملک کے اہل فکر اور باشعور عوام میں پیدا ہونے والا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ اک بے یقینی کا عالم ہے۔ حکومت اور اداروں کی حکمت عملی اور کارکردگی خاصی پریشان کن ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یقیناً اس بات کا احساس نہیں ہے کہ آنے والا وقت ان کیلئے کس قدر مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اپوزیشن متحد ہو رہی ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اپوزیشن خود بھی ابھی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ انہیں حکومتی مشکلات اور حقیقی مسائل کا بخوبی اندازہ ہے انہیں اندازہ ہے کہ آنے والا ہر لمحہ مشک ہوتا جا رہا ہے کیونکہ قرضوں اور سود کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

قرضوں اور سود کے بوجھ میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب قریبی دوست ممالک بھی پاکستان کو کسی قسم کا قرضہ دیتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ پوری دنیا کے سامنے پاکستانی اکانومی کا گروتھ ریٹ واضح ہے۔ فی الحال ایسا کوئی منصوبہ زیرتکمیل نہیں ہے کہ جس کی تکمیل کے بعد ریاستی آمدن میں ایک دم اضافہ ہو سکتا ہے، ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے اکانومی کو شدید دھچکا لگا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستانی ایکسپورٹ بھی خام مال کی امپورٹ سے منسلک اور مشروط ہے۔ زیادہ تر مصنوعات کی تیاری کیلئے خام مال دوسرے ممالک سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے خام مال بھی مہنگے داموں درآمد کیا جا رہا ہے، جب تیار مصنوعات عالمی منڈی میں جائیں گی تو دوسرے ممالک سے مقابلہ مشکل ہو جائے گا۔ آنے والے وقت میں ایکسپورٹ میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار میں بھی مختلف وجوہات کی بناء پر کمی واقع ہو رہی ہے۔ کبھی کبھار ایک آدھ فصل اچھی ہو جاتی ہے تو اس کی برآمد کا باقاعدہ نظام یا منڈی موجود نہیں ہوتی۔


ماضی میں ہونے والی دہشت گرد ی کی وارداتوں کی وجہ سے سیاحت میں کمی واقع ہوئی ہے اگرچہ اب دہشت گردانہ کاروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے مگر خوف کی فضا اب بھی موجود ہے جس کی وجہ سے غیرملکی سیاح اب بھی پاکستان کا رخ نہیں کرتے کہ خدانخواستہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ حتیٰ کہ کھیلوں کی ٹیمیں بھی پاکستان آنے سے ہچکچا رہی ہیں۔

پنجاب کی صوبائی حکومت کی خواہش تو ہے کہ پنجاب میں روایتی اور ثقافتی سرگرمیاں شروع ہو سکیں، روایتی میلے ٹھیلے اور تہواروں کا از سر نو آغاز ہو مگر دہشت گردی کے مسئلے پر وہ بھی مکمل پراعتماد نہیں ہیں اور کسی حد تک تذبذب کا شکار ہیں کہ پہلے کی طرح بسنت اور دوسرے روایتی میلوں کا بے خوف و خطر انعقاد ممکن ہے کہ نہیں، پاکستان کے سیاحتی مقامات کے معاملے میں بھی وہ مکمل ذمہ داری لینے سے کسی حد تک گریزاں ہیں وگرنہ شمالی علاقہ جات اور دوسرے سیاحتی مقامات کی مکمل ذمہ داری لی جا سکتی تھی ۔ غیرملکی سیاحوں کو تحفظ کے احساس کیلئے مختلف ترغیبات دی جا سکتی تھیں۔ اس وقت ملک کے سیاحتی علاقوں میں ملکی باشندوں کا ہی رش ہوتا ہے۔ ویسے یہ بھی اطمینان بخش بات ہے وگرنہ ان علاقوں کے عوام کی معاشی حالت بہت ہی بری ہوتی ۔ ان شمالی و پہاڑی علاقوں کے عوام کی آمدنی کا واحد ذریعہ سیاحوں کی آمد ہے۔

حکومت میں آنے سے قبل تحریک انصاف پاکستانی عوام کو یہ باور کروا چکی تھی کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، عوام کی کسمپرسی اور دگرگوں حالت کی وجہ ماضی کی حکومتیں اور ان کی لوٹ مار ہے اور اس معاملے میںتحریک انصاف کے حامیوں اور ووٹروں کی رائے اس قدر مستحکم ہو چکی تھی کہ ان کا خیال تھا کہ جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت آئے گی لوٹ کھسوٹ ختم ہو گی۔ منی لانڈرنگ پر قابو پایا جائے گا تو ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات بہتر ہو جائیں گے۔

مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں اور بیوروکریسی کی کرپشن کی وجہ سے حالات قابو سے بہت پہلے ہی باہر ہو چکے تھے۔ اصل مسئلہ قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے کہ جس کیلئے ملک میں زرمبادلہ موجود نہیں ہے اس کا واحد حل صرف مزید قرضوں کا حصول ہے اب تو ہم اس قدر بے کسی اور مجبوری کے عالم میں ہیں کہ امداد دینے والی حکومتوں اور اداروں کی ذلت آمیز شرائط قبول کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ اب شرائط کے تعین کا دارومدار دوسروں پر منحصر ہے۔ آنے والے وقت میں خواہ کسی کی بھی حکومت ہو اسے یہ عذاب جھیلنا ہی پڑے گا۔

توانائی کا موجودہ بحران بھی زرمبادلہ میں کمی کی وجہ سے ہے۔ زرمبادلہ میں اضافے کیلئے دائمی پالیسیاں نافذ کرنا پڑیں گی۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے درآمد شدہ تیل پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔ چند اقدامات سے امید کی کرن دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک کو اس کے اصل تناظر میں کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ گوادر کو بین الاقوامی اوپن سٹی بنانے کی کوششوں کو تیز سے تیزتر کیا جائے۔ گوادر میں بنیادی سہولتوں کے علاوہ تفریحی اور سیاحتی مقامات بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاحوں کو تحفظ کے علاوہ ضروریات زندگی اور بنیادی سہولتیں باآسانی میسر ہونی چاہئیں اور سیاحوں کو اپنے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے۔

٭پاکستان کے تمام سیاحتی مقامات خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ضروریات زندگی ارزاں قیمتوں پر فراہم کی جائیں۔
٭کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدہ کرکے یا حکومت خود بجلی کے ترسیلی نظام کو اپ گریڈ کرے۔
٭بجلی فراہم کرنے والے سسٹم کو جدید خطور پر استوار کیا جائے کہ یہ سسٹم موسم کی سختی برداشت کر سکے۔
٭اس وقت دنیا بھر میں موجود ذہین اور باصلاحیت پاکستانی اپنے ہنر اور صلاحیتوں سے دوسری اقوام کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ان پاکستانیوں کو ملک میں واپس بلوانے کیلئے پرکشش ترغیبات دی جائیں اور معقول مشاہرہ ادا کیا جائے کہ وہ محض مالی دشواریوں کے ڈر سے پاکستان آنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
٭پاکستان کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ جگہ جگہ ایسے دفاتر قائم کئے جائیں کہ جہاں عوام کی کاٹیج انڈسٹری قائم کرنے کیئے رہنمائی کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ افراد کو ایسے ہنر سکھائے جائیں کہ جو کاٹیج انڈسٹری میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔
٭تعلیم بالکل مفت کی جائے۔ کتابیں اور یونیفارم بھی حکومت مہیا کرے۔
٭اس وقت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں سے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کی ہر سال بڑی کھیپ تیار ہو کر نکل رہی ہے۔ ہر علاقہ میں چھوٹی ڈسپنسریاں قائم کرکے ان ڈاکٹروں کو وہاںتعینات کیا جائے۔
٭جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا جائے۔ زمینوں کی منصفانہ تقسیم سے پیداوار میں بھی حد درجہ منافع ہو گا اور اسمبلیوں میں بھی نئے چہرے نظر آئیں گے۔
٭ایسے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے کہ جن کی شہرت اچھی نہیں ہے۔
عمران خان نے نظریاتی اور قومی سیاست کا نعرہ بلندکیا مگر وہ راستہ ہی اختیار نہیں کیا گیا کہ جس پر چل کر منزل مقصود تک پہنچا جا سکتا ہے۔ نظر تو یہی آتا ہے کہ انتخابی سیاست سے قومی سیاست تک کا سفر خاصا دشوارگزار اور کٹھن ہے۔ تحریک انصاف اس معاملے میں کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
نوجوان نسل بھی متوحش نظر آتی ہے کہ انتخابی سیاست کے عفریت سے شاید کبھی بھی نجات نہ مل سکے۔ ریاست کے اندر سینکڑں ریاستوں اور اجارہ داری کے ہوتے ہوئے قومی سیاست کے امکانات خاصے معدوم نظر آتے ہیں۔

ہمیں نظریات سے نہیں مفادات سے غرض ہے
ایک نووارد سیاسی جماعت نے کچھ ایسے سیاسی افراد کو مدعو کیا کہ جو انتخابات جیتنے کا گر جانتے ہیں۔ پارٹی کے اہم رہنما نے اپنی جماعت کا منشور اور اغراض و مقاصد بیان کئے۔ ملکی و قومی ترقی کیلئے اپنا پروگرام پیش کرکے ساتھ دینے کی التجا کی۔ ایک گھاگ قسم کے سیاستدان نے کہا۔ ''ہمیں آپ کے نظریات سے نہیں اپنے مفادات سے غرض ہے اگر آپ کا ''پیکج'' زیادہ بہتر لگا تو ہم آپ کے ساتھ شامل ہوں گے وگرنہ ''پہلے'' والی جگہ پر ہی بہتر ہیں۔'' ایک دوسرے سیاستدان نے کہا کہ ''اگر آپ عوام کا ہی بھلا چاہتے ہیں تو براہ راست خود ان سے ووٹ حاصل کر لیں۔ ہمیں تو ہمارا مفاد پیارا ہے۔'' تیسرے نے کہا کہ ''جیسے چل رہا ہے چلنے دیں اگر عوام کو مسائل سے باہرنکالا تو یہ ہم پر ہی جھپٹ پڑیں گے۔'' اس میٹنگ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا۔

میڈیا نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی
کہا جاتا ہے کہ قومی سیاست کے معاملے میں میڈیا اور صحافیوں نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ میڈیا نے ایسے افراد کو ''پروموٹ'' کیا ہے کہ جو ملکی سیاست میں اچھا کردار ادا نہیں کر سکے۔

ایک نامور کالم نگار کا کہنا ہے کہ ''ایک دفعہ ملک کے نامور سیاستدان نے میرے کالموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری طرف سے جو دلیلیں دیتے ہیں وہ تو میں بھی کبھی نہیں دے سکتا'، میں نے انھیں اپنے ایک دو کام بتائے انہوں نے فوراً کرنے کا وعدہ کر لیا''۔ پھر اس کالم نگار نے ہنستے ہوئے کہا کہ ''ایسے افراد کو لیڈر ہی ہم بناتے ہیں۔ فائدہ تو ہمیں بھی ہونا چاہئے۔'' حقیقت یہی ہے کہ میڈیا ہی ایسے لوگوں کی تشہیر کرتا ہے۔

موجودہ سیاستدان انتخابی نظام کی پیداوار ہیں
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو یہ گمان تھا کہ وہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ سیاسی اجارہ داریوں اور وفاداریوں کے نظام کو نظریاتی اور قومی سیاست میں بدلنے میں باآسانی کامیاب ہو جائیں گے۔

انہوں نے اس نظام کو کمزور کرنے کی خاصی کوشش کی مگر مفاداتی اور شخصیاتی سیاست کا نظام مزید مضبوط ہوا۔ اگرچہ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے مگر اتنی کمزور ہے کہ لمحوں میں گرائی جا سکتی ہے۔ اب تحریک انصاف بھی پہلے سے قائم انتخابی نظام سیاست کے دائرے میں گھوم رہی ہے۔ اس دائرے سے باہر نکلنا شاید عمران خان کے بس میں بھی نہیں ہے۔ ان کے اپنے ساتھیوں کی فکر اور سوچ ہی اس قدر مضبوط نہیں ہے کہ وہ پوری قوم کو قومی سیاست کے محور میں شامل کر سکیں۔

شاید عمران خان خود اپنے ساتھیوں کو انتخابی سیاست کی بجائے قومی سیاست کرنے پر قائل نہیں کر سکے۔ ان کے اپنے ساتھیوں میں قومی سیاست کرنے کی صلاحیت موجود نہیں یا وہ خود قوم کے باشعور ہونے سے ڈرتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر قوم باشعور ہو گئی تو ان کی اپنی سیاسی اجارہ داریاں ختم ہو جائیں گی۔ انتخابی سیاسی نظام دراصل ظلم، استحصال اور جبر کا نظام ہے جس میں بے بس و مظلوم قوم پس رہی ہے۔ موجودہ سیاستدان انتخابی سیاسی نظام کی پیداوار ہیں جو قومی سیاست کا مفہوم ہی نہیں جانتے۔
Load Next Story