آسمانوں میں پاک فضائیہ کی برتری اور دشمن کا اعتراف

پاکستان نے بھارت کو مزا چکھانے کےلیے دن کی روشنی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا


راجہ کامران March 17, 2019
پاکستان نے بھارت کو مزا چکھانے کےلیے دن کی روشنی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ نے خطے کی فضاؤں میں پاک فضائیہ کی جو دھاک بٹھا دی ہے، اسے نہ صرف عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے بلکہ اس کا اعتراف خود بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور مسلح افواج نے بھی کیا ہے۔ مگر اس پورے واقعے میں پاکستان کی جانب سے بھارتی مگ کو گرائے جانے اور پائلٹ کی گرفتاری نے میڈیا کا دھیان اپنی طرف کھینچے رکھا اور پاک فضائیہ کی اصل کارروائی پس منظر میں چلی گئی، کہ جس نے بھارت کے قومی سلامتی کے اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے؛ کیونکہ پاکستان نے اپنی کارروائی سے واضح کردیا ہے کہ بھارت کے اہم ترین فوجی اڈے اس کے ہدف پر ہیں اور پاکستان جب چاہے، بھارتی مسلح افواج کو نہ صرف ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ بھارتی افواج کو ایک ہی حملے میں مفلوج بھی کرسکتا ہے۔



پاک فضائیہ کی کارروائی کے حوالے سے مسلح افواج نے صرف یک طرفہ دعوے نہیں کیے بلکہ بھارت نے بھی پاکستانی کارروائی کو تسلیم کیا ہے۔

فروری کی 26 تاریخ کو جب پاکستانی قوم سو کر اٹھی تو بھارت کی جانب سے واویلا مچا ہوا تھا کہ اس نے پاکستان کو اندر گھس کر مارا ہے۔ اس شور میں ایسے ایسے ناقابل یقین دعوے کیے گئے جنہیں خود بھارت میں رہنے والوں اور عالمی برادری نے بھی مشکوک نظر سے دیکھا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ بھارتی طیارے پے لوڈ گرا کر بھاگے ہیں۔



بھارت کی جانب سے جنگی دھمکیوں کے بعد پاکستان میں بھی ہائی الرٹ تھا۔ پاکستان اور بھارت کی فضائیہ کومبیٹ ایئر پیٹرولنگ کررہی تھیں، جسے ''کیپ مشن'' کہا جاتا ہے۔ اس پیٹرولنگ کے دوران ہر وقت فضا میں لڑاکا طیاروں کی ایک ٹکڑی اڑتی رہتی ہے؛ اور سرحد پار کوئی گڑبڑ ہو یا دشمن طیارہ نظر آئے تو وہ ٹکڑی فوری طور پر ان کے مقابلے کےلیے پہنچ جاتی ہے جبکہ ساتھ ہی دوسری فارمیشن، فضا میں بلند ہوجاتی ہے۔

26 فروری کو سورج نکلنے سے کچھ دیر قبل پاکستان کے ریڈار پر سیالکوٹ لاہور سیکٹر کے قریب بھارتی طیاروں کی نشاندہی ہوئی جسے فضا میں موجود پاک فضائیہ کے طیاروں نے چیلنج کیا۔ مسلح افواج کے ترجمان کے مطابق بھارتی طیارے اپنی سرحد میں سات سے آٹھ میل اندر ہی پرواز کرتے رہے۔ اسی دوران دوسرا کیپ مشن فضا میں پہنچ گیا۔ ساتھ ہی فارمیشن فضا میں بلند ہوئی تو جنوب میں مزید بھارتی طیاروں کی موجودگی کی وجہ سے انہیں انگیج اور چیلنج کرنے کیپ مشن روانہ ہوا۔ اس دوران تیسرا کیپ مشن بھی فضا میں بلند ہوا۔ اس دوران بھارتی طیاروں کی تیسری ٹکڑی نے لائن آف کنٹرول عبور کی اور چار منٹ تک لائن آف کنٹرول میں رہے۔

جب پاکستانی کیپ مشن نے انہیں للکارا تو وہ جاتے جاتے جبہ کے مقام پر اپنا پے لوڈ گرا کر فرار ہوئے۔ اسی پے لوڈ کو وہ حملہ قرار دے رہے تھے کیونکہ پے لوڈ جس مقام پر گرا، وہاں درختوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ نہ شہری آبادی اور نہ کوئی فوجی مورچہ تھا۔ لڑاکا طیاروں میں گولا بارود کے علاوہ ایندھن کے اضافی ٹینک لگائے جاتے ہیں۔ ان ٹینکس کا مقصد طیاروں کو اضافی ایندھن فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگران طیاروں کو تیز رفتاری سے بھاگنا ہو تو وہ یہ ٹینکس گرا دیتے ہیں جس سے ان طیاروں کو اپنی زیادہ سے زیادہ رفتار پر اڑنے کی صلاحیت حاصل ہوجاتی ہے۔

اس واقعے کے بعد پاکستان نے فارسی کی مثال ''گربہ کشتن روزِ اوّل'' پر عمل کرتے ہوئے بھارت کو جواب دینے کا فیصلہ کیا کہ کہیں دشمن پاکستان کی امن پسندی کو بزدلی تصور نہ کرے۔ مسلح افواج نے لائن آف کنٹرول پر ایک مشن تیار کیا جس کا مقصد بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول یا سرحدوں پر کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس حوالے سے پاک فضائیہ کے جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے لائن آف کنٹرول کے پار چھ اہداف کو نشانہ بنایا۔

مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے 27 فروری کی صبح میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ بھارت نے ایل او سی عبور کرتے ہوئے ہم پر حملہ کیا اور کامیابی کے جھوٹے دعوے کیے، اس لیے پاکستان کے پاس جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ مگر پاکستان نے ایک ذمہ دار ملک کا طریقہ اپنایا ہے اور ساتھ ہی مسلح افواج نے واضح کردیا ہے کہ اس کے پاس صلاحیت، گنجائش، عزم اور جوش کے علاوہ عوام کا ساتھ بھی ہے۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی رات کے اندھیرے میں کی تھی جبکہ پاکستان نے بھارت کو مزا چکھانے کےلیے دن کی روشنی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

پاکستانی مسلح افواج کی کارروائی اور دعویٰ


ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارت کو جواب دیتے وقت ایسا آپریشن وضع کیا گیا کہ جس میں پاکستان کی صلاحیت کا بھی دشمن کو اندازہ ہوجائے اور کوئی جانی یا مالی نقصان بھی نہ ہو۔ اسی لیے پاک فضائیہ کے جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے لائن آف کنٹرول سے بھارت میں چھ اہداف کا انتخاب کیا۔ ان اہداف کو لاک کیا مگراہداف کے قریب ہی کھلے علاقے میں بمباری کی۔ کیونکہ پاکستانی طیاروں نے لائن آف کنٹرول عبور نہیں کی تھی اس لیے اس عمل کو خلاف ورزی نہیں کہا جاسکتا۔



پاک فضائیہ کی جانب سے اہداف کو لاک کرنے اور بمباری کرنے کے بعد بھارتی طیاروں نے پاکستانی طیاروں کو انگیج کیا اور اس عمل میں وہ لائن آف کنٹرول عبور کرگئے جس پر پاکستانی طیاروں نے انہیں فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں (AAM) سے نشانہ بنایا جن سے ایک بھارتی مگ آزاد کشمیر میں جبکہ دوسرا مقبوضہ کشمیر میں گرا۔ پاکستانی علاقے میں گرنے والے طیارے کے بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرلیا گیا۔ پاکستان نے اپنی فضائی حدود میں آنے والے بھارتی طیارے کو مار گرانے کے عمل کو سیلف ڈیفنس قرار دیا۔



اسی دوران بھارتی فضائیہ کا ایک ہیلی کاپٹر بھی گر کر تباہ ہوگیا۔ پاکستان نے اس طیارے کی تباہی کی ذمہ داری نہیں لی۔

پاکستان نے اس حملے کی تمام تفصیلات سے چند گھنٹوں بعد ہی آگاہ کردیا تھا مگر بھارتی میڈیا نے اس واقعے کو پاکستان کی جارحیت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارتی فضائیہ نے پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ بھی مار گرایا ہے۔ بھارتی میڈیا نے اس ناکامی کو اپنی فتح میں تبدیل کرتے ہوئے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کا ایک ایف 16 فیلکن طیارہ مار گرایا ہے مگر بھارت آج تک کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا۔ پاکستان نے نہ صرف بھارت کے گرفتار پائلٹ کو میڈیا پر پیش کیا بلکہ بھارتی تباہ ہونے والے مگ کا ملبہ بھی دکھا دیا؛ اور اس کے پائلٹ کو عالمی قوانین کے تحت واپس بھی بھیج دیا۔

 

بھارتی افواج کی جانب سے پاکستانی مؤقف کی تائید


بھارت نے اپنی سبکی مٹانے کےلیے تینوں مسلح افواج کی مشترکہ میڈیا بریفنگ کا اہتمام دلی کے وجے چوک میں کیا جس میں بھارتی آرمی کے میجر جنرل سرندر سنگھ محل، نیوی کے ریئر ایڈمرل دلبیر سنگھ گجرال اور فضائیہ کے ایئر وائس مارشل آر جی کے کپور نے میڈیا بریفنگ دی، جس میں پاکستان کے دعوے کی تصدیق کی گئی۔

اے وی ایم کپور نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ 27 فروری کو صبح دس بجے ایئرفورس کے ریڈارز نے پاکستانی طیاروں کا پتا لگایا جو جام گڑھ، راجوری کے سندربند علاقے سے لائن آف کنٹرول پر پائے گئے اور ان طیاروں نے ایل او سی عبور کی۔ اس کے جواب میں بھارت نے اپنے تین طرح کے طیارے یعنی مگ 21 بائسن، سکھوئی 30 ایم کے آئی اور میراج 2000 انہیں چیلنج کرنے بھیجے۔

اے وی ایم کپور نے تسلیم کیا کہ پاکستانی طیاروں نے بھارتی مسلح افواج کے ہدف نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ فضائیہ کے طیاروں کی مداخلت کی اور پاک فضائیہ کے بم، بھارتی فوج کے فارمیشن کمپاؤنڈ میں گرے مگر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ فضائی جھڑپ میں بھارتی فضائیہ نے ایک پاکستانی ایف 16 بھی گرایا، جو ایل او سی کے دوسری طرف گرا جبکہ بھارتی فضائیہ کا ایک مگ 21 گرگیا اور پاکستان نے اس کے پائلٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔



میجر جنرل محل پاکستان آرمی کا کہنا تھا کہ سیزفائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، پاکستان ایئرفورس نے بھارتی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ بریگیڈ ہیڈکوارٹر، بٹالین ہیڈکوراٹر، ڈیفنس اور لاجسٹک انسٹالیشن کو ہدف بنایا گیا۔ البتہ تیاری کی وجہ سے ان اہداف کو نشانہ نہیں بنایا جاسکا۔ لائن آف کنٹرول پر ہائی الرٹ ہے۔ میکنائز فورسز کو تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

اس میڈیا بریفنگ میں بھارتی مسلح افواج نہ تو پاکستان کے اندر کی گئی کارروائی کے ثبوت پیش کرسکیں اور نہ ہی زمین پر ہونے والے نقصان کے حوالے سے کوئی تفصیل ہی بتا سکیں۔



میڈیا بریفنگ میں ایف 16 طیارے کے استعمال اور مار گرائے جانے کے ثبوت کے طور پر ایک فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے ٹکڑوں کی ایک تصویر پیش کی گئی۔ بھارتی فضائیہ کا کہنا تھا کہ AAM پاکستان کے ایف 16 طیاروں میں لگائے جاتے ہیں، جو کسی اور طیارے میں نہیں لگ سکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے جے ایف 17 تھنڈر طیاروں میں یہ میزائل نصب ہیں اور انہی طیاروں نے یہ میزائل فائر کیے تھے جنہیں بھارتی فضائیہ ایف 16 طیارے کا میزائل بتارہی ہے۔

 

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اعتراف


پاک بھارت کشیدگی، بھارتی مگ 21 بائسن کے گرائے جانے اور پائلٹ کی گرفتاری کے بعد نریندر مودی نے بھارتی ٹی وی چینل کی ''انڈیا کونکلیو'' سے خطاب میں کہا کہ رافیل طیاروں کی کمی دیش نے محسوس کی ہے۔ اگر ہمارے پر رافیل ہوتا تو شاید نتائج کچھ اور ہوتے۔ رافیل پر راج نیتی کی وجہ سے دیش کا نقصان ہوا ہے۔ بھارت کے مگ 21 طیارے اپنی عمر پوری کرچکے ہیں اور ان کی خراب کارکردگی کی وجہ سے انہیں اڑتے ہوئے تابوت کہا جاتا ہے۔

بھارت نے اس کمی کو پورا کرنے کےلیے فرانس کے رافیل طیاروں کو خریدنے کا معاہدہ کیا تھا مگر ان طیاروں کی خریداری میں بدعنوانی اور رشوت کی خبروں پر معاملہ کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ اب مودی نے رافیل طیاروں کے بارے میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ حالیہ چھڑپ میں پاکستان کی برتری کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔

 

ٹارگٹ لاک


جدید دور میں طیاروں کی جنگ بڑی حد تک بدل گئی ہے۔ اب لڑاکا طیاروں کو ڈاگ فائٹ کے بجائے بی وی آر (Beyond Visual Range) یعنی حد نگاہ سے دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے ہدف بناتے ہیں۔ بی وی آر میزائل استعمال کرنے کےلیے طیارے میں جدید ریڈار اور آلات درکار ہوتے ہیں۔ گویا اب دشمن طیاروں کو مار گرانے کےلیے آمنے سامنے آکر لڑائی کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی وہ بی وی آر میزائل تھے جن سے پاکستانی جے ایف 17 تھنڈر نے بھارتی مگ 21 طیاروں کو نشانہ بنایا اور دو طیارے مار گرائے۔



دوسری جنگ عظیم کے بعد جنگی آلات میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ اب جنگی طیاروں میں ارد گرد کے حالات سے باخبر رہنے (سچویشنل اویئرنیس) اور رہنمائی کی غرض سے الیکٹرونکس، کمپیوٹر، سینسرز اور ایویانکس کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے طیارے میں ایک مکمل نظام قائم ہوجاتا ہے۔ اس نظام کو مختلف افواج مختلف طرح سے استعمال کرتی ہیں۔ گائیڈڈ نظام میں جب ہدف کو لاک کردیا جائے اور میزائل فائر کردیا جائے تو وہ خود بہ خود اپنے نشانے پر پہنچ جاتا ہے۔ اسے جنگی اصطلاح میں fire and forget یعنی ''میزائل داغو اور بھول جاؤ'' کہا جاتا ہے۔ یعنی جب ایک مرتبہ ہدف کو لاک کرنے کے بعد میزائل داغ دیا جائے تو وہ اپنے ہدف کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے اور تقریباً 99 فیصد ایسے واقعات میں میزائل اپنے ہدف کو ضرور نشانہ بناتا ہے۔



اگر کسی ہدف کو لاک کرلیا جائے تو وہاں موجود سیٹلائٹ اور نگرانی کے نظام میں ایمرجنسی سگنلز بجنے لگتے ہیں۔ لاک کیے گئے ہدف کے ریڈار ایک مخصوص بیپ دیتے ہیں جس سے ہدف کو پتا چل جاتاہے کہ اس پر حملہ ہوا ہے اور اسے میزائل نے لاک کر لیا ہے۔ اگر کسی ہدف کو لاک کرلیا جائے تو پھر یہ ہدف دشمن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کہ وہ اس پر میزائل داغے یا نہیں مگر لاک کیے گئے ہدف کو تصور کیا جاتا ہے کہ اس پر حملہ ہوگیا ہے۔

اس طرح پاکستان نے بھارت کے چھ اہداف کو لاک کرکے (جس کا اعتراف خود بھارتی فضائیہ اور آرمی کے نمائندوں نے بھی کیا ہے) خطے کی فضاؤں میں اپنی برتی قائم لی تھی۔ ساتھ ہی بھارتی طیارہ مار گرانے سے پاکستان نے فضا سے زمین اور فضا سے فضا میں ہر قسم کے ہدف کو نشانہ بنانے کی برتری قائم کرلی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں