چلتا پھرتا جنازہ
اب جاگیے جتنی دیر آپ کرچکے ہیں اسی مناسبت سے جلدی کرکے پاکیزہ زندگی کے حصول کی کوشش کیجیے۔
کال ادائن کو بدھا کا شاگرد بنے دو مہینے گزرگئے۔ اس دوران بسنت کا موسم آن پہنچا ۔ خوبصورت اور سہانی رت میں، موقع مناسب جان کر ایک دن کال ادائن نے بدھا سے کہا ''مہا راج ! مختلف مقامات کے دورے کے لیے یہی مناسب اور موزوں وقت ہے۔
بزرگ بھی یہی فرمایا کرتے ہیں کہ بسنت کے موسم میں سیرکرنا بے شمار افادی پہلو رکھتا ہے اگر آپ پسند فرمائیں تو ہم سب یہاں سے کچھ دنوں کے لیے رخصت ہوکر قرب وجوارکے علاقوںکا دورہ کر آئیں۔ بدھانے کال ادائن کی اس تجویز کو نہ صرف پسندکیا بلکہ قابل عمل بھی قرار دیا اور اپنے والد سے ملاقات کے لیے جانا بھی منظورکرکے اپنے بہت سے شاگردوں کے ہمراہ کپل وستوکی طرف روانہ ہوئے۔
اس صوبے کے راجائوں نے بدھ مت کو قبول کیا۔ یہیں اوپالی نامی حجام بدھ کا شا گرد بنا ۔ وہ لوگوں کی حجامتیں بنایاکرتا تھا لیکن بدھ مت میں داخل ہوکر اس نے وہ روحانی مرتبہ اور فضیلت حاصل کی کہ بعد میں نامی سرداروں اور معتبر اشخاص نے اس کے قدموں میں سر جھکانے کو باعث فخر وامتیاز سمجھا ۔ سنگھ(جماعت) کے ہمراہ بدھا دو ماہ کے سفرکے بعد کپل وستو پہنچے اور بھکشوئوں کی جماعت یعنی سنگھ کے قواعد و ضوابط کے مطابق نیگرو دھ نامی جنگل میں ٹہرے جو شہر سے قریب ہی تھا ۔
بدھا کے آنے کی خبر سن کر شہر کے کمسن لڑکے اور لڑکیاں پھولوں کے ہار اور پتیاں لے کر قطاردر قطار جنگل کی طرف چلے۔ ان کے پیچھے نوجوان اور بوڑھے بھی چلے آتے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پورا کپل وستو بدھ دیو بن چکے جو اس سدھارتھ کو خوش آمدیدکہنے کو امڈ آیا ہے ۔ جوکبھی ان کا ولی عہد تھا ۔ لوگوں کی والہانہ آمد ورفت سے نیگر ودھ جنگ میں منگل کا سماں بندھ گیا۔
راجہ شدھودن ، ان کے بھائی اور دیگر عزیزواقارب بھی بدھا سے ملنے آئے ۔ چونکہ آپ نے تعظیماً کھڑے ہوکر انھیں پر نام نہ کیا اس لیے ان میں سے اکثر بددل اور ناراض ہوئے۔ دن ڈھلااور سورج غروب ہوا تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو سدھارے لیکن بدھا اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جنگل میں ہی بسیرا کیے رہے ،اگلے دن بدھا ہاتھ میں کشکول لیے شہر میں داخل ہوئے ۔
یہ وہی شہر تھا جس کے باسیوں نے ان کی پیدائش پر جشن منایا تھا کہ ہمارے حکمران کو ولی عہد مل گیا لیکن انھیں خبر نہ تھی کہ ہم جس نومولود کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں وہ مذہب کی دھنا میں تہلکہ مچائے گا۔ تلواروں سے نہیں کھیلے گا ، شہر میں داخل ہوتے وقت بدھا نے سوچا کہ بھیک کے لیے مجھے سب سے پہلے شاہی محل کے دروازے پرجانا چاہیے یا در درکی بھیک مانگتے ہوئے وہاں پہنچنا مناسب ہے۔
یہ ذہنی کشمکش کچھ دیر جاری رہی لیکن آخرکار انھوں نے گھر،گھر بھیک مانگتے باپ کے دروازے پر جانے کا فیصلہ کیا ،کیونکہ سنگھ (بھکشوئوں کی جماعت) کا یہی قاعدہ تھا کہ کسی خاص کو تقدیم یاتاخیر نہ دی جائے، بدھا نے سوچا جماعت کے دیگر فقیروں کا جو قاعدہ ہے ، میرے لیے اس کی پیروی کرنا ضروری ہے میں راجہ شدھو دن کا بیٹا یا جماعت کا سربراہ ہونے کی وجہ سے اس قانون سے مستثنیٰ کیسے ہوسکتا ہوں اور جو رعایت دوسروں کو حاصل نہیں وہ میں خود کیسے لے سکتاہوں ۔ بدھا نے در در بھیک مانگنی شروع کی ۔
شہر والے اپنے بادشاہ کے بیٹے کو بھکاری کے روپ میں دیکھ کر زاروقطار رونے لگے، جب عورتوں نے دیکھا کہ شاہی خاندان کا اکلوتا چشم وچراغ گھر میں ہر طرح کے سکھ اور عیش و آرام ہونے کے باوجود اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے فقیر بنا ہوا ہے تو یہ درد ناک ، رقت انگیز اور دل شکن نظارہ ان سے برداشت نہ ہوا اور وہ باقاعدہ بین کرتے ہوئے آہ و زاری کرنے لگیں ۔ چاروں طرف سے اٹھنے والے شوروغل کو سن کر اس کی بیوی گوپا محل کی چھت پر آئی۔اس کی آنکھوں نے ایک عجیب ، حیران کن اور ناقابل یقین منظر دیکھا۔
اس کے پیارے خاوند محل کی سمت چلے آرہے تھے، ایک لمحے کے لیے گوپا کے چہرے پہ حیا سے بھرپور سرخی کی لہر سی جاگی اورپھر سوگئی۔گوپا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی ''ہائے ! میں کیا تھی اورکیا ہوگئی، میرے سرکا تاج ریاضت کی آگ میں جھلس کر جنگلوں کی خاک میں خاک ہوگیا۔ جس کے خمیر سے یہ بدھا منظر عام پر آگیا'' اس منظرکی تاب نہ لاتے ہوئے وہ چکرا کرگری اور ہوش وحواس سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔
اپنے بادشاہ باپ شدھو دن کے راج محل کی طرف بڑھتے ہوئے مہان بھکشو ۔ ماضی کے سدھارتھ تھے، جو طلائی سواری کے بغیر قدم نہ اٹھاتے تھے جن کا جسم بیش قیمت موتیوں اور جواہرات سے لدا رہتا تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے جن کے دسترخوان کی زینت بڑھاتے تھے ہزاروں نوکر اور لاتعداد خادم جن کے اشارہ ابروکے منتظر رہتے تھے لیکن آج وہی ولی عہد شہزادہ سدھارتھ اپنے آبائی دارالحکومت میں گدائی کر رہے تھے ۔ شاہی خادمائیں ہزار جتن کرکے گوپا کو ہوش میں لائیں وہ اٹھی آنسو پیتی اور غم کھاتی، راجہ شدھو دن کے حضور حاضر ہوئیں ۔
ہچکیوں اور سسکیوں کے دوران جو لفظ اس نے ادا کیے ان کا لب لباب یہ تھا کہ '' اے کپل وستوکے حاکم آپ کے اکلوتے فرزند آپ کے دروازے پر بھیک مانگنے آئے ہیں۔'' بدھا شاہی محل کے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔گوپا کی اطلاع پاکر راجہ شدھودن گھبرا کر محل سے باہر آیا۔ مرکزی دروازے پر کھڑے فقیر میں اپنا بیٹا ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوا ، وہ ایک لمحے کو ریاست کے بادشاہ کی بجائے '' بد نصیب '' سدھارتھ کا باپ بن گیا۔ راجہ روتے روتے پائوں تک بھیگ گیا۔
دیر تک بچوں کی طرح بلکتے رہے اوربدھا کھڑے دیکھتے رہے۔ آخرکار راجہ نے جانکنی جیسی تکلیف کے احساس اور انتہائی کرب کے ساتھ فقط یہی کہا ''کیوں پیٹ کی خاطر در در بھیک مانگ کر ہمیں شرم دلاتے ہو۔ کیا میں تمہارے بھکشوئوں کے لیے کھانا دینے کے لائق بھی نہیں ہوں'' بدھا نے کہا ''مہا راج ! بھیک مانگنا ہی ہمارے خاندان کارواج ہے۔ '' راجہ بولا ''ہم شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ تم سے پہلے ہمارے خاندان میں کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے بھیک نہیں مانگی ۔''
بدھا نے جواباً کہا '' آپ اور آپ کے اہل خانہ شاہی خاندان کے لوگ ہوں گے لیکن میں تو ماضی قدیم سے لوگوں کی اصلاح کے لیے جوگی بن جانے والے عظیم بدھوں کے سلسلے کا رکن اور ان کے افراد خانہ میں سے ہوں وہ لوگ بھیک کے ذریعے سے ہی اس جسم کی حفاظت اور اس کی ضروریا ت کو پورا کرتے تھے ۔'' اس کے بعد بدھا نے اپنے باپ کو اپدیش دیا '' والد محترم ! اگر کسی کے بیٹے کوکوئی خفیہ خزانہ ہاتھ لگے تو اس کا فرض اولین ہے کہ تمام بیش قیمت اور اعلیٰ جواہرات اپنے باپ کے حضور نذرکرے۔ میرے قابل احترام باپ! دنیا کی گہری نیند کے مزے آپ نے بہت لے لیے ۔ اب جاگیے جتنی دیر آپ کرچکے ہیں اسی مناسبت سے جلدی کرکے پاکیزہ زندگی کے حصول کی کوشش کیجیے۔''
ارسطو نے کہا تھا جوبد سیرت ہے وہ چلتا پھرتا جنازہ ہے جب کہ بدھانے کہا '' جب تک برائی اپنا پھل نہیں لے آتی ، انسان اس برائی میں خوش رہ سکتا ہے ، جب برائی بھی پھل لاتی ہے تو پھر آدمی برائی کو سمجھ لیتا ہے۔ پاکستان کے تمام مراعات یافتہ طبقات بشمول اشرافیہ ، بیوروکریسی، جاگیر دار، سرمایہ دار، وڈیرے، چوہدری اور سرداروں کو ہمارا وہی بدھا کا اپنے باپ کو دیاہوا اپدیش ہے کہ بہت ہوچکا جناب آپ نے بہت عیش و آرام ، مزے اور لوٹ مارکر لی۔ غریبوں ، بے کسوں ، مجبوروں کو جتنا ذلیل وخوار آپ کرسکتے تھے آپ نے کرلیا ۔ان کی زندگیاں جتنی برباد ہوسکتی ہیں آپ نے کردیں، آپ ہی کی وجہ سے ہی ان کی زندگیوں اور گھروں میں غلاظت اور بیماریاں بھرنے والوں خدا کے عذاب اورقہر سے ڈرو، غریبوں اور بے کسوں کی بددعائوں، آہوں اوران کی فریاد سے ڈرو۔
بزرگ بھی یہی فرمایا کرتے ہیں کہ بسنت کے موسم میں سیرکرنا بے شمار افادی پہلو رکھتا ہے اگر آپ پسند فرمائیں تو ہم سب یہاں سے کچھ دنوں کے لیے رخصت ہوکر قرب وجوارکے علاقوںکا دورہ کر آئیں۔ بدھانے کال ادائن کی اس تجویز کو نہ صرف پسندکیا بلکہ قابل عمل بھی قرار دیا اور اپنے والد سے ملاقات کے لیے جانا بھی منظورکرکے اپنے بہت سے شاگردوں کے ہمراہ کپل وستوکی طرف روانہ ہوئے۔
اس صوبے کے راجائوں نے بدھ مت کو قبول کیا۔ یہیں اوپالی نامی حجام بدھ کا شا گرد بنا ۔ وہ لوگوں کی حجامتیں بنایاکرتا تھا لیکن بدھ مت میں داخل ہوکر اس نے وہ روحانی مرتبہ اور فضیلت حاصل کی کہ بعد میں نامی سرداروں اور معتبر اشخاص نے اس کے قدموں میں سر جھکانے کو باعث فخر وامتیاز سمجھا ۔ سنگھ(جماعت) کے ہمراہ بدھا دو ماہ کے سفرکے بعد کپل وستو پہنچے اور بھکشوئوں کی جماعت یعنی سنگھ کے قواعد و ضوابط کے مطابق نیگرو دھ نامی جنگل میں ٹہرے جو شہر سے قریب ہی تھا ۔
بدھا کے آنے کی خبر سن کر شہر کے کمسن لڑکے اور لڑکیاں پھولوں کے ہار اور پتیاں لے کر قطاردر قطار جنگل کی طرف چلے۔ ان کے پیچھے نوجوان اور بوڑھے بھی چلے آتے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پورا کپل وستو بدھ دیو بن چکے جو اس سدھارتھ کو خوش آمدیدکہنے کو امڈ آیا ہے ۔ جوکبھی ان کا ولی عہد تھا ۔ لوگوں کی والہانہ آمد ورفت سے نیگر ودھ جنگ میں منگل کا سماں بندھ گیا۔
راجہ شدھودن ، ان کے بھائی اور دیگر عزیزواقارب بھی بدھا سے ملنے آئے ۔ چونکہ آپ نے تعظیماً کھڑے ہوکر انھیں پر نام نہ کیا اس لیے ان میں سے اکثر بددل اور ناراض ہوئے۔ دن ڈھلااور سورج غروب ہوا تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو سدھارے لیکن بدھا اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جنگل میں ہی بسیرا کیے رہے ،اگلے دن بدھا ہاتھ میں کشکول لیے شہر میں داخل ہوئے ۔
یہ وہی شہر تھا جس کے باسیوں نے ان کی پیدائش پر جشن منایا تھا کہ ہمارے حکمران کو ولی عہد مل گیا لیکن انھیں خبر نہ تھی کہ ہم جس نومولود کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں وہ مذہب کی دھنا میں تہلکہ مچائے گا۔ تلواروں سے نہیں کھیلے گا ، شہر میں داخل ہوتے وقت بدھا نے سوچا کہ بھیک کے لیے مجھے سب سے پہلے شاہی محل کے دروازے پرجانا چاہیے یا در درکی بھیک مانگتے ہوئے وہاں پہنچنا مناسب ہے۔
یہ ذہنی کشمکش کچھ دیر جاری رہی لیکن آخرکار انھوں نے گھر،گھر بھیک مانگتے باپ کے دروازے پر جانے کا فیصلہ کیا ،کیونکہ سنگھ (بھکشوئوں کی جماعت) کا یہی قاعدہ تھا کہ کسی خاص کو تقدیم یاتاخیر نہ دی جائے، بدھا نے سوچا جماعت کے دیگر فقیروں کا جو قاعدہ ہے ، میرے لیے اس کی پیروی کرنا ضروری ہے میں راجہ شدھو دن کا بیٹا یا جماعت کا سربراہ ہونے کی وجہ سے اس قانون سے مستثنیٰ کیسے ہوسکتا ہوں اور جو رعایت دوسروں کو حاصل نہیں وہ میں خود کیسے لے سکتاہوں ۔ بدھا نے در در بھیک مانگنی شروع کی ۔
شہر والے اپنے بادشاہ کے بیٹے کو بھکاری کے روپ میں دیکھ کر زاروقطار رونے لگے، جب عورتوں نے دیکھا کہ شاہی خاندان کا اکلوتا چشم وچراغ گھر میں ہر طرح کے سکھ اور عیش و آرام ہونے کے باوجود اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے فقیر بنا ہوا ہے تو یہ درد ناک ، رقت انگیز اور دل شکن نظارہ ان سے برداشت نہ ہوا اور وہ باقاعدہ بین کرتے ہوئے آہ و زاری کرنے لگیں ۔ چاروں طرف سے اٹھنے والے شوروغل کو سن کر اس کی بیوی گوپا محل کی چھت پر آئی۔اس کی آنکھوں نے ایک عجیب ، حیران کن اور ناقابل یقین منظر دیکھا۔
اس کے پیارے خاوند محل کی سمت چلے آرہے تھے، ایک لمحے کے لیے گوپا کے چہرے پہ حیا سے بھرپور سرخی کی لہر سی جاگی اورپھر سوگئی۔گوپا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی ''ہائے ! میں کیا تھی اورکیا ہوگئی، میرے سرکا تاج ریاضت کی آگ میں جھلس کر جنگلوں کی خاک میں خاک ہوگیا۔ جس کے خمیر سے یہ بدھا منظر عام پر آگیا'' اس منظرکی تاب نہ لاتے ہوئے وہ چکرا کرگری اور ہوش وحواس سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔
اپنے بادشاہ باپ شدھو دن کے راج محل کی طرف بڑھتے ہوئے مہان بھکشو ۔ ماضی کے سدھارتھ تھے، جو طلائی سواری کے بغیر قدم نہ اٹھاتے تھے جن کا جسم بیش قیمت موتیوں اور جواہرات سے لدا رہتا تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے جن کے دسترخوان کی زینت بڑھاتے تھے ہزاروں نوکر اور لاتعداد خادم جن کے اشارہ ابروکے منتظر رہتے تھے لیکن آج وہی ولی عہد شہزادہ سدھارتھ اپنے آبائی دارالحکومت میں گدائی کر رہے تھے ۔ شاہی خادمائیں ہزار جتن کرکے گوپا کو ہوش میں لائیں وہ اٹھی آنسو پیتی اور غم کھاتی، راجہ شدھو دن کے حضور حاضر ہوئیں ۔
ہچکیوں اور سسکیوں کے دوران جو لفظ اس نے ادا کیے ان کا لب لباب یہ تھا کہ '' اے کپل وستوکے حاکم آپ کے اکلوتے فرزند آپ کے دروازے پر بھیک مانگنے آئے ہیں۔'' بدھا شاہی محل کے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔گوپا کی اطلاع پاکر راجہ شدھودن گھبرا کر محل سے باہر آیا۔ مرکزی دروازے پر کھڑے فقیر میں اپنا بیٹا ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوا ، وہ ایک لمحے کو ریاست کے بادشاہ کی بجائے '' بد نصیب '' سدھارتھ کا باپ بن گیا۔ راجہ روتے روتے پائوں تک بھیگ گیا۔
دیر تک بچوں کی طرح بلکتے رہے اوربدھا کھڑے دیکھتے رہے۔ آخرکار راجہ نے جانکنی جیسی تکلیف کے احساس اور انتہائی کرب کے ساتھ فقط یہی کہا ''کیوں پیٹ کی خاطر در در بھیک مانگ کر ہمیں شرم دلاتے ہو۔ کیا میں تمہارے بھکشوئوں کے لیے کھانا دینے کے لائق بھی نہیں ہوں'' بدھا نے کہا ''مہا راج ! بھیک مانگنا ہی ہمارے خاندان کارواج ہے۔ '' راجہ بولا ''ہم شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ تم سے پہلے ہمارے خاندان میں کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے بھیک نہیں مانگی ۔''
بدھا نے جواباً کہا '' آپ اور آپ کے اہل خانہ شاہی خاندان کے لوگ ہوں گے لیکن میں تو ماضی قدیم سے لوگوں کی اصلاح کے لیے جوگی بن جانے والے عظیم بدھوں کے سلسلے کا رکن اور ان کے افراد خانہ میں سے ہوں وہ لوگ بھیک کے ذریعے سے ہی اس جسم کی حفاظت اور اس کی ضروریا ت کو پورا کرتے تھے ۔'' اس کے بعد بدھا نے اپنے باپ کو اپدیش دیا '' والد محترم ! اگر کسی کے بیٹے کوکوئی خفیہ خزانہ ہاتھ لگے تو اس کا فرض اولین ہے کہ تمام بیش قیمت اور اعلیٰ جواہرات اپنے باپ کے حضور نذرکرے۔ میرے قابل احترام باپ! دنیا کی گہری نیند کے مزے آپ نے بہت لے لیے ۔ اب جاگیے جتنی دیر آپ کرچکے ہیں اسی مناسبت سے جلدی کرکے پاکیزہ زندگی کے حصول کی کوشش کیجیے۔''
ارسطو نے کہا تھا جوبد سیرت ہے وہ چلتا پھرتا جنازہ ہے جب کہ بدھانے کہا '' جب تک برائی اپنا پھل نہیں لے آتی ، انسان اس برائی میں خوش رہ سکتا ہے ، جب برائی بھی پھل لاتی ہے تو پھر آدمی برائی کو سمجھ لیتا ہے۔ پاکستان کے تمام مراعات یافتہ طبقات بشمول اشرافیہ ، بیوروکریسی، جاگیر دار، سرمایہ دار، وڈیرے، چوہدری اور سرداروں کو ہمارا وہی بدھا کا اپنے باپ کو دیاہوا اپدیش ہے کہ بہت ہوچکا جناب آپ نے بہت عیش و آرام ، مزے اور لوٹ مارکر لی۔ غریبوں ، بے کسوں ، مجبوروں کو جتنا ذلیل وخوار آپ کرسکتے تھے آپ نے کرلیا ۔ان کی زندگیاں جتنی برباد ہوسکتی ہیں آپ نے کردیں، آپ ہی کی وجہ سے ہی ان کی زندگیوں اور گھروں میں غلاظت اور بیماریاں بھرنے والوں خدا کے عذاب اورقہر سے ڈرو، غریبوں اور بے کسوں کی بددعائوں، آہوں اوران کی فریاد سے ڈرو۔