مسئلہ کشمیر نئے سرے سے ہائی لائٹ
پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم ترین وقت اس سال جولائی ،اگست ہے
حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے کشمیر کے مسئلے کو دنیا میں نئے سرے سے ہائی لائٹ کر دیا ہے۔ اُ س وقت جب کہ پاکستان ، امریکا طالبان مذاکرات میں مدد دے رہا ہے ، مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر ایٹمی جنگ کے خطرات کو اپنی پوری قوت سے سامنے لے کر آیا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پوری قوم کی خواہش ہے کہ اگر پاکستان مسئلہ افغانستان پر امریکا کی مدد کر رہا ہے تو عالمی برادری، خصوصاً امریکا کو بھی چاہیے کہ پاکستان کو اس کا صلہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی صورت میں ملے ، بجائے اس کے امریکا اپنا دامن جھاڑ کر نکل جائے۔
اس حوالے سے پلوامہ حملہ خیر مستور نظر آتا ہے (Blessing-In-Disguise) پلوامہ حملے کے بعد مغربی میڈیا اس حقیقت پر یکسو ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر برصغیر سمیت دنیا ایٹمی جنگ کے خطرے سے نہیں بچ سکتی۔ یہ سچ ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات نے ہر آڑے وقت میں ہماری مدد کی ہے لیکن اس وقت مذکورہ ملکوں کی مدد میں امریکی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے بغیر امریکا اپنی پالیسوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا ۔ امریکی جنرل نے ایسے ہی نہیں کہا کہ پاکستان نے پچھلے6 ماہ میں افغان مسئلے کے حل کے لیے جو مدد کی ہے وہ پچھلے18 سال میں نہیں کی، پاکستان سے امریکا خوش ہے۔ اس لیے ابھی گرے لسٹ میں ہی رہے گا جب تک امریکی توقعات پوری نہیں ہو جاتیں ۔
امریکا کا ایک اشارہ ہوا سب کچھ بدل گیا ۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ پاکستان کی بند قسمت کے دروازے کھلنے والے ہیں اور اب عرب دنیا عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔ امریکا پاکستان کی کارکردگی سے کتنا خوش ہے اس کی تصدیق حال ہی میں دی جانے والی اس بریفنگ سے ہوتی ہے جو امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے امریکی سینیٹ کی دفاعی امور کی کمیٹی کو دی کہ اگر پاکستان افغانستان تنازعے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے تو امریکا کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ پاکستان کی مدد کرے۔ کیونکہ خطے میں امن پاکستان امریکا مشترکہ مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔"
پوری دنیا کو اب پتہ چل گیا ہے کہ یہ امن اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ، مسئلہ کشمیر حل ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت چند ارب ڈالر سے بڑھ کر47 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے اور برصغیر کی امن پسند قوتوں کو شدت پسند قوتوں پر بالا دستی حاصل ہو جائے گی۔
کیا بھارت اگلے انتخاب کے نتیجے میں ایک فاشسٹ ریاست بننے جا رہا ہے ، میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ 1980 کی دہائی کے آغاز میں شدت پسندی کا وہ طوفان اٹھا جس نے مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان نے بھی امریکی سامراجی عزائم کی بارآوری کے لیے اس میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ یہ شدت پسندی کا وہ طوفان تھا لگتا تھا جس میں سب کچھ غرق ہو جائے گا۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے جمہوری نظام میں اپنا حصہ ڈالا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ شدت پسند بنیاد پرستی کس کی ضرورت تھی، ظاہر ہے امریکی سامراج کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اسلامی دنیا میں اس پر کام شروع کر دیا گیا ۔ سرمایہ دار انہ نظام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحفظ اور دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ ایٹم بم بھی گرایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی دنیا میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا جا سکتا ہے۔
اب شد ت پسند ی امریکا کی ضرورت نہیں رہی نہ مسلم دنیا میں نہ بھارت میں۔ اس سے جتنا کام لینا تھا لے لیا گیا۔ ہندو بنیاد پرستی نے بھارت میں جمہوری سیکولرازم کو بہت نقصان پہنچایا۔ امریکی نقطہ نظر کے مطابق دنیا کا مستقبل جمہوریت اور سیکولر ازم میں ہے، بھارت میں فاشسٹ قوتوں کو جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا گیا، بھارتی شدت پسندی ضیاء دور کی شدت پسندی کا رد عمل تھی۔
انقلاب زمانہ دیکھیں آج وہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سمیت پورے خطے سے شدت پسندی کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے حقیقی معنوں میں خاتمے کے لیے طویل عرصہ لگے گا لیکن آغاز تو ہو گیا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ شدت پسندی کی سہولت کار قوتیں بہت طاقتور ہیں وہ اتنی آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالیں گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ شدت پسندی کی سرپرست قوتوں نے ہی ان پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ مثال کے طور پر شام اور عراق کو ہی دیکھ لیں۔
شدت پسندوں کو نہ صرف تیل کے چشمے دیے گئے بلکہ ریاست قائم کرنے کے لیے لاکھوں کلومیٹر کا رقبہ بھی عنایت کیا گیا۔ اس طرح شہد کا چھتہ اور شہد کی مکھیوں کی تکنیک استعمال کرکے پوری دنیا سے شدت پسندوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا گیا، پھراُ ن کا صفایا کر دیا گیا جو باقی رہ گئے ہیں اُ ن کو چن چن کر مارا جا رہا ہے ۔ اوپر سے سعودی عرب کو ماڈرن نائزڈ کیا جا رہا ہے ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعے سعودی عرب میں کھلا پن پیدا کر کے اُس تنگ نظری کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جو شدت پسند جنونیت کا باعث بنتی ہے۔
شدت پسندی اس لیے بھی امریکی سامراج کی ضرورت نہیں رہی کہ اسرائیل کے مقابلے پر کھڑی عرب ریاستوں کو بتدریج کمزور اور تباہ کیا جا چکا ہے ۔ خطے میں اسرائیل طاقتور ترین ، عرب ریاستیں کمزور ترین ہیں ۔ لے دے کر اسرائیل کے مقابلے میں ایران ہی رہ گیا تھا اس کے بھی کس بل نکالے جا چکے ہیں۔ مسئلہ افغانستان کے حل میں تیزی ،ایران سے فیصلہ کن دو دو ہاتھ کرنے کی جلدی ہے۔ کیونکہ خطے میں آخر ی رکاوٹ ایران ہی کی باقی رہ جاتی ہے ۔ اس رکاوٹ کے خاتمے کے بعد پاکستان آسان ہدف ہو گا ۔ چاہے دہشتگردی ہو یا ایٹمی معاملات... 800 سال بعد پوپ کا عرب خطے کا دورہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیشرفت ہے۔
70 سال کی سامراجی سرمایہ کاری جو شدت پسندی پر کی گئی ۔ اُس کے نتیجے میں جو مائنڈ سیٹ پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہی، اب ان کا انجام تاریخ کا کوڑے دان ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم ترین وقت اس سال جولائی ،اگست ہے۔
سیل فون:0346-4527997
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پوری قوم کی خواہش ہے کہ اگر پاکستان مسئلہ افغانستان پر امریکا کی مدد کر رہا ہے تو عالمی برادری، خصوصاً امریکا کو بھی چاہیے کہ پاکستان کو اس کا صلہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی صورت میں ملے ، بجائے اس کے امریکا اپنا دامن جھاڑ کر نکل جائے۔
اس حوالے سے پلوامہ حملہ خیر مستور نظر آتا ہے (Blessing-In-Disguise) پلوامہ حملے کے بعد مغربی میڈیا اس حقیقت پر یکسو ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر برصغیر سمیت دنیا ایٹمی جنگ کے خطرے سے نہیں بچ سکتی۔ یہ سچ ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات نے ہر آڑے وقت میں ہماری مدد کی ہے لیکن اس وقت مذکورہ ملکوں کی مدد میں امریکی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے بغیر امریکا اپنی پالیسوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا ۔ امریکی جنرل نے ایسے ہی نہیں کہا کہ پاکستان نے پچھلے6 ماہ میں افغان مسئلے کے حل کے لیے جو مدد کی ہے وہ پچھلے18 سال میں نہیں کی، پاکستان سے امریکا خوش ہے۔ اس لیے ابھی گرے لسٹ میں ہی رہے گا جب تک امریکی توقعات پوری نہیں ہو جاتیں ۔
امریکا کا ایک اشارہ ہوا سب کچھ بدل گیا ۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ پاکستان کی بند قسمت کے دروازے کھلنے والے ہیں اور اب عرب دنیا عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔ امریکا پاکستان کی کارکردگی سے کتنا خوش ہے اس کی تصدیق حال ہی میں دی جانے والی اس بریفنگ سے ہوتی ہے جو امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے امریکی سینیٹ کی دفاعی امور کی کمیٹی کو دی کہ اگر پاکستان افغانستان تنازعے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے تو امریکا کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ پاکستان کی مدد کرے۔ کیونکہ خطے میں امن پاکستان امریکا مشترکہ مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔"
پوری دنیا کو اب پتہ چل گیا ہے کہ یہ امن اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ، مسئلہ کشمیر حل ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت چند ارب ڈالر سے بڑھ کر47 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے اور برصغیر کی امن پسند قوتوں کو شدت پسند قوتوں پر بالا دستی حاصل ہو جائے گی۔
کیا بھارت اگلے انتخاب کے نتیجے میں ایک فاشسٹ ریاست بننے جا رہا ہے ، میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ 1980 کی دہائی کے آغاز میں شدت پسندی کا وہ طوفان اٹھا جس نے مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان نے بھی امریکی سامراجی عزائم کی بارآوری کے لیے اس میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ یہ شدت پسندی کا وہ طوفان تھا لگتا تھا جس میں سب کچھ غرق ہو جائے گا۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے جمہوری نظام میں اپنا حصہ ڈالا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ شدت پسند بنیاد پرستی کس کی ضرورت تھی، ظاہر ہے امریکی سامراج کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اسلامی دنیا میں اس پر کام شروع کر دیا گیا ۔ سرمایہ دار انہ نظام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحفظ اور دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ ایٹم بم بھی گرایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی دنیا میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا جا سکتا ہے۔
اب شد ت پسند ی امریکا کی ضرورت نہیں رہی نہ مسلم دنیا میں نہ بھارت میں۔ اس سے جتنا کام لینا تھا لے لیا گیا۔ ہندو بنیاد پرستی نے بھارت میں جمہوری سیکولرازم کو بہت نقصان پہنچایا۔ امریکی نقطہ نظر کے مطابق دنیا کا مستقبل جمہوریت اور سیکولر ازم میں ہے، بھارت میں فاشسٹ قوتوں کو جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا گیا، بھارتی شدت پسندی ضیاء دور کی شدت پسندی کا رد عمل تھی۔
انقلاب زمانہ دیکھیں آج وہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سمیت پورے خطے سے شدت پسندی کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے حقیقی معنوں میں خاتمے کے لیے طویل عرصہ لگے گا لیکن آغاز تو ہو گیا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ شدت پسندی کی سہولت کار قوتیں بہت طاقتور ہیں وہ اتنی آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالیں گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ شدت پسندی کی سرپرست قوتوں نے ہی ان پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ مثال کے طور پر شام اور عراق کو ہی دیکھ لیں۔
شدت پسندوں کو نہ صرف تیل کے چشمے دیے گئے بلکہ ریاست قائم کرنے کے لیے لاکھوں کلومیٹر کا رقبہ بھی عنایت کیا گیا۔ اس طرح شہد کا چھتہ اور شہد کی مکھیوں کی تکنیک استعمال کرکے پوری دنیا سے شدت پسندوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا گیا، پھراُ ن کا صفایا کر دیا گیا جو باقی رہ گئے ہیں اُ ن کو چن چن کر مارا جا رہا ہے ۔ اوپر سے سعودی عرب کو ماڈرن نائزڈ کیا جا رہا ہے ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعے سعودی عرب میں کھلا پن پیدا کر کے اُس تنگ نظری کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جو شدت پسند جنونیت کا باعث بنتی ہے۔
شدت پسندی اس لیے بھی امریکی سامراج کی ضرورت نہیں رہی کہ اسرائیل کے مقابلے پر کھڑی عرب ریاستوں کو بتدریج کمزور اور تباہ کیا جا چکا ہے ۔ خطے میں اسرائیل طاقتور ترین ، عرب ریاستیں کمزور ترین ہیں ۔ لے دے کر اسرائیل کے مقابلے میں ایران ہی رہ گیا تھا اس کے بھی کس بل نکالے جا چکے ہیں۔ مسئلہ افغانستان کے حل میں تیزی ،ایران سے فیصلہ کن دو دو ہاتھ کرنے کی جلدی ہے۔ کیونکہ خطے میں آخر ی رکاوٹ ایران ہی کی باقی رہ جاتی ہے ۔ اس رکاوٹ کے خاتمے کے بعد پاکستان آسان ہدف ہو گا ۔ چاہے دہشتگردی ہو یا ایٹمی معاملات... 800 سال بعد پوپ کا عرب خطے کا دورہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیشرفت ہے۔
70 سال کی سامراجی سرمایہ کاری جو شدت پسندی پر کی گئی ۔ اُس کے نتیجے میں جو مائنڈ سیٹ پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہی، اب ان کا انجام تاریخ کا کوڑے دان ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم ترین وقت اس سال جولائی ،اگست ہے۔
سیل فون:0346-4527997