میثاق جمہوریت اور سیاسی قیادت
نیب، اسٹیبلشمنٹ، حکومت کو دباؤ میں لاکر دونوں جماعتیں احتساب کے عمل کو پیچھے چھوڑنا چاہتی ہیں
KARACHI:
پاکستان کی سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ جب یہ طبقہ حکمرانی کے نظام سے باہر ہوتا ہے تو ان کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری کا بخار چڑھ جاتا ہے لیکن جب یہ ہی طبقہ اقتدار کا حصہ بنتا ہے تو ذاتی مفادات اور آمرانہ سوچ کے ساتھ حکومت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی کا عمل ہمیشہ کمزور رہا ہے۔ اس میں غیر جمہوری قوتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔لیکن یہ اعتراف بھی جمہوری لوگوں کو کرنا چاہیے کہ ان کی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے بھی جمہوری عمل مضبوط نہیں بن سکا ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو کئی بار اقتدار بھی ملا ۔ مسلم لیگ ن کی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے کے طور پر دیکھا جاتا رہاہے۔ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں جماعتوںنے دوسرے کی حکومتوں کو گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا۔ یہ ہی منطق دی جاتی ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اوراب ہم جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے کسی بھی کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے ان ہی ماضی کی غلطیوں کو بنیاد بنا کرمیثاق جمہوریت کا معاہدہ کیا تھا لیکن اگر دیانت داری سے کوئی بھی فرد یا ادارہ میثاق جمہوریت کی تمام شقوں کا جائزہ یا تجزیہ کرے تو اس کے بیشتر نکات پر دونوں بڑی جماعتوں نے عملی طور پر کوئی سنجیدگی کا نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ کوئی مثبت نتائج بھی سامنے نہیں آسکے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ 2006ء کے بعد سے لے کر 2019ء تک جمہوری عمل ارتقائی عمل سے ہی گزررہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہی دونوں جماعتوں اوربالخصوص مسلم لیگ ن نے اس معاہدہ کے بعد بھی اپنی سیاست کا مرکز اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی جوڑا۔ شہباز شریف اورچوہدری نثار اسی کھیل کی بنیاد پر پیپلز پارٹی مخالف سیاست اور نواز شریف کو کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر سیاست کا حصہ بناتے رہے ہیں۔اسی طرح2018ء کے انتخابات سے قبل زرداری اورپیپلز پارٹی کی سیاست اوراس کے بیشتر فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جڑے ہوئے تھے ۔
اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی قیادت عملی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ قیادت کا لفظ اس لیے اہم ہے کہ مسئلہ ان بڑی جماعتوں سے زیادہ ان کی قیادت کا ہے ۔ ان دونوں جماعتوں میں ایسے لوگوںکی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قیادت کی سیاست درست نہیں، مگر انھوں نے خاموشی اختیارکی ہوئی ہے ۔بلاول بھٹو کی جیل میں نواز شریف سے ملاقات میں ایک بار پھر ان دونوں جماعتوں نے قوم کو میثا ق جمہوریت پر نظرثانی کا نیا لولی پاپ دینے کی کوشش کی ہے۔
ان کے بقول موجودہ صورتحال میں قوم اور جمہوریت کو ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست میں کب میثاق جمہوریت، معیشت، طرز حکمرانی سمیت کئی اہم مسائل پر مشترکہ سوچ اورفکر اپنانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ ضرورت ہمیشہ سے ہماری سیاست کی کنجی ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اس طرز پر مبنی میثاق جمہوریت کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔
اس وقت بھی کیونکہ دونوں جماعتیں احتساب کے عمل سے دوچار ہیں۔ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، ادارے اور حکومت کا باہمی گٹھ جوڑ ان کو سیاسی طورپر دیوار سے لگاکر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔ اسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر یہ دونوں جماعتیں ایک بار پھر سیاسی لنگوٹ کس کر میثاق جمہوریت کی بنیاد پر ایک ہونے کی باتیں کررہی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا ایک ہونا اورمل کر جدوجہد کرنا برا عمل نہیں اس کی حمایت ہونی چاہیے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان کا مسئلہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی ہے یا ایک بار پھر ذاتی مفادات پر مبنی سیاست ہے جس میں یہ قیادت الجھی ہوئی ہے۔ پہلے تو ان دونوں جماعتوں کو 2006ء کے بعد سے لے کر 2019ء تک کی میثاق جمہوریت کے تناظرمیں کی جانے والی سیاست پر خود کو جوابدہی کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔
کیونکہ اہل دانش کی سطح پر بہت سے لوگوں میں یہ تحفظات موجود ہیں کہ معاہدہ کو دونوں جماعتوں نے اپنی ذاتی سیاست کے لیے استعمال کیا۔میثاق جمہوریت سے مراد اگر اہل سیاست کی محض اقتدار کی سیاست ہے تو اس سے عوام کا باہمی تعلق کیا ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا عمل ختم ہونا چاہیے ۔ لیکن کیا یہ کسی مصنوعی عمل سے ختم ہوگا یا محض جب یہ سیاسی قوتیں اقتدار سے باہر آتی ہیں تو کسی شور شرابے کی بنیاد پر ہوگا، تو جواب نفی میں ہوگا ۔
جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اگر ہم نے جنگ جیتنی ہے تو اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے داخلی جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہوگا۔ یہ عجیب بات ہوگی کہ ہم اپنی داخلی جمہوری عمل کو مضبوط بنائے جمہوریت کی جنگ جیتنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جو بھی موجودہ جمہوری نظام ہے اس میں لوگوں کی کوئی بڑی حیثیت نہیں۔کیونکہ جمہوری نظام یا حکمرانی کا عمل عام اورکمزور طبقات کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلیاں پیدا نہیں کرسکا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام، سیاسی جماعتوں اور قیادت کے درمیان واضح خلیج بھی موجود ہے ۔
اسی خلیج کی بنیادپر کوئی بھی جماعت کوئی بڑی تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔کیونکہ بداعتمادی کی فضا نے سب کو لاتعلق بھی کیا ہے۔بلاول بھٹو کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ دی جاتی تھی کہ وہ اپنے والد سے مختلف سیاست کرکے اپنے نانا اوروالدہ کی سیاست کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا ۔لیکن بلاول بھٹو ابھی تک عملی طورپر اپنے والد کی سیاست میں قید نظر آتے ہیں اور فیصلوں کے اختیار میں بھی ان کا کوئی بڑا کردار نہیں۔
پیپلزپارٹی پنجاب میں جو کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے اس کی وجہ خود آصف زرداری ہیں جنہوںنے نواز شریف کے ساتھ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کی سیاست کی ۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اس مفاہمت کی سیاست کو مسترد کردیا تھا اوراب بلاول بھی اسی غلطی پر ہیں جو ان کے والد نے کی تھی ۔
اس وقت پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن جس میں نواز شریف کے حامی زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں کہ ہمیں مل کر ایک ایسی مشترکہ کوششوں کو منظم کرنا ہوگا جو حکومت اور ریاست پر دباؤ بڑھائے ۔ کیونکہ دونوں جماعتوں کی قیاد ت جس خطرے سے دوچار ہے اس کا حل ان کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ اورحکومت پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی سے جڑ ا ہے۔
نیب، اسٹیبلشمنٹ، حکومت کو دباؤ میں لاکر دونوں جماعتیں احتساب کے عمل کو پیچھے چھوڑنا چاہتی ہیں۔ بلاول بھٹو سمجھتے ہیں بات محض نواز شریف تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اگلہ نشانہ آصف زرداری بھی ہوسکتے ہیں اور اسی نکتے کی بنیاد پر نئے میثاق جمہوریت کا شوشہ چھوڑکر اپنی بقا کی سیاست کے تانے بانے بنائے جارہے ہیں۔ حالانکہ اب سیاست ماضی سے کافی مختلف ہوگئی ہے اور اب پرانے اورفرسودہ یا استحصال پر مبنی کارڈ کا کھیل بہت آسانی سے نہیں کھیلا جاسکے گا۔